درس حدیث
زمرہ : النور
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَای َ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم : 1638 آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا ﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ مذکورہ بالا حدیث قدسی ہے۔جس میں اللہ تعالی فرمارہےہیں کہ روزہ دارکواس کا اجر وہ خود عنایت (انااجزی بہ) فرمائےگا،اورکس قدرعطاء فرمائےگاوہ یہاں مخفی رکھا گیا ہے۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ روزہ جیسی عبادت کےعلاوہ بندئہ مومن کی ساری ہی عبادتیں اعمال صالح جوبھی اخلاص نیت سےسرانجام دیتاہے، اللہ کےلیےہوتی ہے، جس کااجرمندرجہ بالاحدیث سےثابت شدہ ہے کہ دس گناسےلےکرسات سوگناسےزیادہ اجرکامستحق وہ قرارپاتاہے، لیکن روزےکو مستثنی رکھاگیاہے، ایساکیوں ہے؟ علماء اکرام اس کےتعلق سےفرماتےہیں، کہ بندہ مومن،کی جتنی بھی عبادات ہوتی ہے، چاہےوہ نماز، زکوۃ، حج یہ تمام عبادات جگ ظاہرہے، ایک بندہ جب نمازاداکرتاہے،نمازکی ادئیگی کےلیےمسجدجاتاہے،کئی افراد اس کی نماز کےعینی شاہدہوتےہیں، کہ فلاں صاحب بہت نمازی پرہیز گارمعلوم ہوتے ہیں، اسی طرح زکوۃ کی ادائیگی کامعاملہ ہے۔زکوۃ دینےوالےکی زکوۃ کاعینی شاہد اس کی زکوۃ وصول کرنےوالاہوتاہے، اسی طرح حج ایک اجتماعی عبادت ہے،جس کےمناسک ایک ساتھ اجتماعی طورپراداکیےجاتےہیں، تمام گفتگوکاحاصل یہ ہےکہ ان تمام عبادات جومذکورہ بالا ہے۔ان میں کہیں نہ کہیں ریاکاری کاعنصرشامل ہوجانےکےامکانات ہے۔تاہم روزہ ایسی مخفی عبادت ہےجس کاعلم صرف صاحب روزہ اوراس کےرب کوہوتاہے۔روزہ وہ واحدعبادت ہے،جس میں ریاکےامکانات نہیں ہوتے،روزہ دار ہرقسم کی خواہش نفسانی سےرک جاتاہے،انواع واقسام کی نعمتیں جوعام حالت میں حلال ہوتی ہے، باوجود بھوک پیاس کےاپنےنفس کی لگام کوتھامےرکھتاہے۔دراصل یہ وہی کیفیت اورصفت ہےجوروزےکےذریعے بندہ مومن میں پیداہوتی ہے، بندہ مومن تاحیات کفر،شرک معصیت کی گندگی اورحرام کےارتکاب سےاپنےنفس کوپاک رکھتاہے۔ روزہ روزےدارکی قلب اور روح کوبالیدگی، اورحیات تازہ بخشتاہے۔پھر اللہ سبحان تعالی کاالذکر(قرآن) سینوں میں پیوست ہونےلگتاہے، اس کےاحکام کی بجاآوری سہل ہوجاتی ہے۔اوراس کاتعلق اللہ سےگہراہوجاتا ہے۔وہ اپنےرب کوشہہ رگ سےقریب محسوس کرتاہے۔ الصوم(روزہ) صوم کےلغوی معنی ہے، رک جانا۔۔صائم بھی بحالت روزہ حلال چیزوں سےرک جاتا،اورحرام امورسےاجتناب کرتا ہے بحالت دیگرکچھ ایسےامورہیںجوانسان کی روز مرہ کی عادت بن چکی ہوتی ہے۔جیسے جھوٹ، غیبت،چغلی، دل آزاری، لعن طعن یہ ایسےخصائل خبیثہ ہیںجوکہیں نہ کہیں ہماری عادت یایوں کہہ لیجیے، ہمارا مشغلہ بن گیا ہے،جس کاارتکاب ہر آئےدن غیرمحسوس طریقےسےیا، جانےانجانےمیں عادتاًسرزدہوتےرہتےہیں، بعض اوقات حالات، موقع ومحل ایسےہوتےکہ ہم ان گناہوں کاارتکاب جانے انجانےمیں کرگزرتے ہیں، مثلا، اگرکوئی فریق ہمارےبارےمیں کوئی ناحق بات کہےجوغیراخلاقی ہوتوہم جواباً ویسی ہی کاروائی کرنااپناحق سمجھتےہیں، بعض اوقات انتقاماحدود سےتجاوزکرنےمیں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔لیکن ایک روزےدارایسانہیں کرتا، وہ ہرحال میں صبرکا مظاہرہ کرتاہے۔روزہ ان سارےگناہوں سےبچنےمیں اس کےلیے ڈھال ثابت ہوتا۔اوراپنےآپ کوفسق وفجورسےبازرکھتاہے۔جھوٹی باتوں اورجھوٹ کےکاموں سے اپنے، ذات کوالگ رکھتاہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: “اگرکوئی شخص جھوٹ بولنااوراس پرعمل کرنا(روزہ رکھ کر) نہیں چھوڑتا تواللہ تعالی کواس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے” (بخاری) ایک اور حدیث قدسی سےرہنمائی ملتی ہے، “ابن آدم کاہرعمل اس کےاپنےلیےہے۔روزہ بالخصوص میرےلیےہے۔اس کی جزاء امیں دوں گااورروزہ ڈھال ہے۔جب تم میں سےکسی شخص کاروزہ ہو، تونہ وہ فحش کلامی کرے، اگرکوئی شخص اسےگالی دےیااس سےجھگڑاکرےتووہ کہہ دےکہ میں روزہ دارہوں” (بخاری) *روزےکامقصدتقوی کاحصول* “اے لوگوں جوایمان لائےہوتم پر روزے فرض کیےگئےہیں‌۔جیساکہ تم سےپہلوں پرفرض کیےگئےتھے۔تاکہ تم تقوی کی روش اختیارکرو”. (البقرہ183) روزے کامقصد دراصل تقوی کاحصول ہے۔ جس طرح روزےکی حالت میں بندہ مومن تمام حلال چیزوں سےصرف اللہ کےلیےرک جاتاہے۔اور پھراسی کےبتائےہوئےطریقے پر روزہ افطارکرتاہے۔گویااس نےاپنی نکیل اپنےرب کوسونپ دی ہو، وہ جس طرف بھی اسکارخ کرےگا، اسکافرمابرداربندہ اسی سمت چل پڑےگا۔تقوی وپرہیزگاری کی بنیادوں پراپنی دنیاوی زندگی تعمیرکرےگااورآخرت میں وہ باب الریان سےگزرکرجنت میں اپنی منزل مقصودکوپہنچےگا۔
روزہ روزےدارکی قلب اور روح کوبالیدگی، اورحیات تازہ بخشتاہے۔پھر اللہ سبحان تعالی کاالذکر(قرآن) سینوں میں پیوست ہونےلگتاہے، اس کےاحکام کی بجاآوری سہل ہوجاتی ہے۔اوراس کاتعلق اللہ سےگہراہوجاتاہے۔وہ اپنےرب کوشہہ رگ سےقریب محسوس کرتاہے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱