درس حدیث
زمرہ : النور

مَنِ احْتَکَرَ فَھُوَ خَاطِیٌٔ

(باب الاحتکار،صحیح مسلم)
’’جس شخص نے جمع خوری کی، وہ خطا کار ہے۔‘‘
درود و سلام ہونبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیؐ پر، جن کے توسط سے دین ہم تک پہنچا۔ آپؐ کی تعلیمات ہر شعبۂ حیات کا احاطہ کرتی ہیں۔عقائد، روحانیات، عبادات، اخلاقیات، معاشیات، سیاست الغرض وہ تمام پہلو جس کا انسان کی انفرادی، اجتماعی، روحانی اور مادی زندگی سے تعلق ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپؐ نے ان تمام شعبہ ہائے حیات میں اپنے فعل و عمل کی مثالیں قائم کی ہیں۔
دنیا میں جو کچھ بھی ہے، سب اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اسی نے انسانوں کو زمینی اشیاء پر تصرف کی آزادی دی ہے۔ لیکن اس تصرف کے کچھ ضابطے اور اصول بتائے ہیں۔ اِن اصولوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے لوگوں کو مال کمانے اور ان پر اپنا اختیار رکھنے کی اجازت دی ہے۔
اسلامی نظامِ اقتصادیت و معیشت کی بنیاد محدود خواہشات اور لامحدود وسائل پر قائم ہے۔ اسلام کا معاشی و اقتصادی نظام اعتدال پر مبنی ہے۔ اگر فرد متاثر ہو رہا ہو تو اسلام معاشرے کو فائدہ نہیں دیتا اور اگر ایک فرد کی وجہ سے معاشرہ متاثر ہو رہا تو فرد کو رعایت نہیں دیتا۔ اسلام نے معاشی حقوق کے جو ضابطے بنائے ہیں، ان میں ذخیرہ اندوزی ممنوع ہے، چاہے تاجر کرے یا صنعت کار۔شریعت نے عوام الناس کو نقصان پہنچا کر اشیائے ضرورت کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرنے سے منع کیا ہے۔ فقہ کی اصطلاح میں سے ’احتکار‘ کہا جاتا ہے۔
’احتکار‘کہتے ہیں اشیاء ضرورت کا روک لینا، بازار میں داموں کے بڑھنے کا انتظار کرنا اورجب دام بڑھ جائیں، تب مال کو فروخت کر کے زیادہ نفع کمانا۔رسول اللہ ؐ نے اس عمل سے سختی سے منع فرمایا ہے۔
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں ذخیرہ اندوزی کو جائز مانا جاتا ہے۔مگر اسلام گراں فروشی یا ذخیراندوزی کی اجازت نہیں دیتا۔ تاجر،باشندوں کی ضرورت اور مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ایسے خود غرضانہ اقدام کرتے ہیں، جسے ایک مسلم معاشرے میں قطعاً برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے نبی کریم ؐ نے اس قسم کی ذہنیت پر ضرب لگائی ہے، جو انسان کو سنگ دل اور بے رحم بناتی ہے،جب کہ اسلام خیر خواہی،شفقت اور رحم دلی کی تعلیم دیتا ہے۔
احتکار کی ممانعت اس وقت ہے، جب کہ اس کی وجہ سے عوام الناس کو نقصان ہو۔ احتکار صرف غلے کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ تمام اشیائے ضروریات سے متعلق ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی بھی ضرورت زندگی کے ساتھ یہ عمل کرے گا، وہ گناہ گار ہوگا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’ جو تاجر، اشیاء ضرورت کو نہیں روکتا، بلکہ وقت پر بازار میں لاتا ہے، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوتا ہے، اسے اللہ رزق دے گا ۔ اشیائے ضرورت کو روکنے والا ملعون ہے۔‘‘ (ابن ماجہ ۔عمرؓ)
حضرت عثمان بن عفانؓ کے غلام فروخ کہتے ہیں کہ کچھ غلہ وغیرہ مسجد نبوی کے دروازے پر ڈھیر لگایا گیا۔اس وقت امیرالمومنین، حضرت عمر بن خطابؓ تھے۔ جب آپ باہر تشریف لائے توغلے کو دیکھ کر پوچھا: ’یہ کہاں سے آیا ہے؟‘ لوگوں نے کہا کہ یہ باہر سے لایا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے دعا دی کے اللہ تعالیٰ اس غلے کو اور جو لوگ اسے لائے ہیں، ان کو برکت سے نوازے۔ اسی وقت کچھ لوگوں نے یہ بھی خبر دی کہ اس کا احتکار بھی کیا گیا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓنے پوچھا: ’کس نے یہ عمل کیا ہے؟‘ لوگوں نے جواب دیا کہ ایک تو فروخ نے، دوسرے فلاں شخص نے جو آپ کا آزاد کردہ غلام ہے۔حضرت عمرؓ نے یہ سن کر دونوں کو بلایا اور باز پرس کی۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم اپنا مال خرید و فروخت کر رہے ہیں۔ (یعنی اس میں دوسرے کا کیا کوئی نقصان ہے؟)اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں نے آں حضرتؐ کہتے ہوئے سنا ہے:
مَنِ احْتَکَر عَلَی الْمُسْلِمَین طَعَامَھُمْ ضَرَبَهُ اللّٰہُ بِالجُذَامِ وَالْاِفْلَاْسِ۔
’’جو شخص مسلمانوں پر ان کا غلہ وغیرہ روک کر رکھے گا، اللہ تعالی اسے کوڑھ کے مرض اور تنگ دستی میں مبتلا کرے گا۔‘‘
یہ سن کر فروخ نے کہا کہ میں آپ سے اور اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی احتکار نہ کروں گا۔ پھر وہ مصر چلے گئے۔ اس حدیث کے راوی ابو یحیٰی کہتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کو کوڑھی اور تنگ دستی کی حالت میں دیکھا ہے۔ (الترغیب و الترہیب:363/2)
ایک دو تاجروں کے اسٹاک کر لینے سے ذخیرہ اندوزی نہیں ہوتی۔ہاں، اگر جمع کرنے سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو پھر خرید کر اسٹاک رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر چند لوگ اسے روک بھی لیں تو وہ چیز بازار سے معدوم نہیں ہوگی۔ ذخیراندوزی تب ہوتی ہے، جب کوئی شئے بازار میں دست یاب نہ ہو اور اگر کسی کے پاس وہ شئے موجود ہو اور اس کے باوجود بازار میں لانے سے روک لے، جس سے معاشرے کے افراد تکلیف میں پڑجائیں،اس سے منع کیا گیا۔
جن کاموں سے اسلام ہمیں روکتا ہے، اس میں ہمارے لیے بھلائی ہو ہی نہیں سکتی۔ ذخیراندوزی یا گراں فروشی سے اسلام ہمیں روکتا ہے اور اگر ہم یہ فعل انجام دیتے ہیں تو ہمیں نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی کے نقصانات:

۱۔ اللہ اور اس کے رسول ؐ نارض ہوتے ہیں۔
۲۔ناجائز طریقے سے کمائے ہوئے مال سے برکت اٹھ جاتی ہے۔
۳۔دعاؤں کی قبولیت رک جاتی ہے۔
۴۔دلوں کی سختی در آتی ہے۔
۵۔ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ جذام اور تنگ دستی میں مبتلا کرے گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے اور اس کے بتائے گئے احکام پر قائم رہنے والا بنا دے، آمین۔

اسلام نے معاشی حقوق کے جو ضابطے بنائے ہیں، ان میں ذخیرہ اندوزی ممنوع ہے، چاہے تاجر کرے یا صنعت کار۔شریعت نے عوام الناس کو نقصان پہنچا کر اشیائے ضرورت کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرنے سے منع کیا ہے۔ فقہ کی اصطلاح میں ا سے ’احتکار‘ کہا جاتا ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ اکتوبر