سامعہ حسن تنزانیہ کی پہلی خاتون صدر منتخب
خواتین کو جب جب بھی کسی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع ملے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو منوایا ہے یہ کالم آپ کو ایسی ہی کچھ خواتین سے متعارف کروانے کے لیے ہے۔ جو دوسری عورتوں کے لیے مثال بن سکتی ہیں۔ ملک تنزانیہ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کوئی خاتون صدارت کے عہدے پر فائز ہوئی ہے۔ سامعہ حسن جب جمعہ کو بطور صدر حلف لے رہی تھیں تب ان کے سر پر حجاب اور ایک ہاتھ میں قرآن تھا۔ملک کے سب سے بڑے شہر دارالسلام میں واقع اسٹیٹ ہاؤس میں محفل حلف برداری کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں پارلیمانی اراکین کے ساتھ ساتھ سابق صدور نے بھی شرکت کی تھی۔ سامعہ حسن جان موگوفلی کی جگہ افریقہ کے ایک سب سے بڑے اور ساٹھ ملین آبادی والے ملک کی صدر بنی ہیں۔ پیدائش و تعلیم سامعہ حسن کی ولادت تنزانیہ کے نیم خودمختار علاقے زنجبار میں ہوئی اور انہوں نے پرائمری اور ہائی اسکول کی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب تنزانیہ میں لڑکیوں کی تعلیم کو صرف ناپسند ہی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس کی شدید مخالفت بھی کی جاتی تھی اور بس گنے چنے لوگ ہی اپنی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکول بھیجتے تھے۔ سامعہ حسن نے 1977 میں سیکنڈری اسکول کے بعد سٹیٹیسٹکس کی تعلیم حاصل کی اور وزارت ترقی و منصوبہ بندی میں ملازمت اختیار کی۔ وہ 1992 میں ورلڈ فوڈ پروگرام پروجیکیٹ میں شامل ہوئیں اور اس کے بعد یونیورسٹی آف مانچسٹر سے معاشیات میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ لیا۔ سیاست میں شمولیت گو تنزانیہ کی سیاست میں مردوں کا ہی زیادہ قبضہ رہا ہے لیکن سامعہ حسن اس میدان میں تیز رفتاری سے آگے بڑھی ہیں۔ وہ سن دو ہزار پندرہ میں موگوفلی کی حمایت سے ملک کی نائب صدر منتخب ہوئی تھیں۔ وہ اس پورے خطے میں نائب صدر بننے والی دوسری خاتون تھیں۔ اس سے پہلے یوگینڈا میں 1994 میں ایک خاتون نائب صدر بنی تھیں۔ سامعہ حسن نے سن دو ہزار سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔اور وہ زنجبار پارلیمان کی رکن منتخب ہوئیں۔ کچھ سال بعد انہوں نے ملکی پارلیمان کی سیٹ 80 فیصد ووٹ لے کر حاصل کی جبکہ سن دو ہزار چودہ میں وہ پارلیمانی وزیر بنیں۔ افریقی امور کے ماہر ایڈ ہوبی ہمشر کے مطابق سامعہ حسن کے لیے سب سے بڑا چیلنج اب یہ ہوگا کہ انہیں برسرِ اقتدار پارٹی کی حمایت حاصل رہے اور پارٹی ممبران میں چپقلش پیدا نہ ہو۔ اس اندیشہ کا اظہار بھی کیا گیا کہ رولنگ پارٹی کی کثیر تعداد چونکہ مسیحی ہے تو شاید مسلمان خاتون ہونے کی وجہ سے انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حلف برداری کے وقت کی گئ سامعہ حسن کی تقریر سے ایسے اشارے ملتے ہیں کہ وہ موگوفلی کی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھائیں گی۔ان کا کہنا تھا، ‘میرے لیے آپ سے مخاطب ہونے کا آج کوئی اچھا دن نہیں ہے کیوں کہ میرے دل پر زخم لگا ہے۔میرا آج کا یہ حلف میری زندگی کے باقی حلفوں سے الگ ہے۔ پہلے میں مسرت کے ساتھ حلف اٹھاتی تھی لیکن آج یہ سب سے بڑا حلف دکھ کی کیفیت میں اٹھا رہی ہوں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ جان موگوفلی میرے لیے استاد کی حیثیت رکھتے تھے، کچھ بھی خراب نہیں ہونے دیا جائے گا اور قوم کو اس وقت اتحاد کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے۔ سامعہ حسن موگوفلی کی دوسری مدت صدارت مکمل کریں گی۔ اس ملک میں صدارتی انتخابات کا انعقاد پچھلے سال اکتوبر میں ہوا تھا۔ آج وہ صدارت کے عہدے کے پر فائز ہوکر کئ لڑکیوں کی انسپریشن کا سبب بنی ہیں۔ان کا صدارت کے لیے منتخب ہونا ان لوگوں کے لئے بھی باعث تعجب ہوگا جو سمجھتے ہیں مسلم خواتین دیگر میدانوں کے علاوہ سیاست کے میدان میں بھی قدم نہیں جما سکتیں۔ امید کرتے ہیں کہ سر پر حجاب اور ہاتھوں میں مصحف لیے یہ خاتون تنزانیہ کی باگ ڈور خوش اسلوبی سے سنبھالیں گی۔
آج وہ صدارت کے عہدے کے پر فائز ہوکر کئ لڑکیوں کی انسپریشن کا سبب بنی ہیں۔ان کا صدارت کے لیے منتخب ہونا ان لوگوں کے لئے بھی باعث تعجب ہوگا جو سمجھتے ہیں مسلم خواتین دیگر میدانوں کے علاوہ سیاست کے میدان میں بھی قدم نہیں جما سکتیں۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱