اتنی سرعت سے شاید سال کے کوئی ایام نہیں گزرتے جتنے رمضان المبارک کے دن گزر جاتے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے ماہ مبارک کاپہلا عشرہ گزر گیا تھا۔ اب دوسرا عشرہ شروع ہوچکا تھا۔
سیاہی میں ڈوبی رات تھی ، میں آج گیارہویں تراویح پڑھ کر گھر لوٹ رہا تھا۔آج میری دکان پر معمول سے زیادہ رش تھا، جس کی وجہ سے تھکاوٹ کا احساس غالب تھا۔۔ چونکہ تھکن بہت تھی اس لیے مسجد سے واپس لوٹتے ہی میں بس اب گہری نیند سو جانا چاہتا تھا۔
میں نے اے سی آن کیا، بتی بجھائی اور بستر پر ڈھیر ہوگیا۔
لمحوں میں مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگی تھی۔۔تبھی آنکھوں پر موبائل کی لائٹ چمکی اور وایبریشن کے ساتھ میسج کی گھنٹی بجی ۔
”رمضان کا دوسرا عشرہ مبارک ہو“۔
اسکرین پر دوست کی مسکراتی تصویر میرا دل جلا گئی۔۔ اب یہ کوئی بات تھی مبارکباد دینے والی؟ اور یہ کوئی وقت تھا کسی کے آرام میں خلل ڈالنے کا؟
میں نے ضبط کیا اور تحمل سے جواب لکھا ۔
”شکریہ، تمہیں بھی بہت بہت مبارک ہو۔ “
میرے جواب پر وہ یقیناً حیران ہوا ہوگا کیونکہ اسے عام طور پر اس طرح کے میسجز پر میرے رسپانس کی عادت نہیں تھی۔ بلکہ وقتاً فوقتاً میں اسے ان غیر ضروری و بے مقصد پوسٹس سے منع بھی کیا کرتا تھا۔
ان مبارکباد دینے والوں نے تو جینا حرام کیا ہوا تھا۔
مبارکبادیوں کا یہ سلسلہ چاند رات سے نہیں بلکہ رمضان کی آمد سے کئ دنوں قبل سے چل رہا تھا۔
”اڈوانس مبارکباد“ کے طور پر۔
پھر رمضان مبارک،شعبان مبارک۔ چاند مبارک ، سورج مبارک۔ جمعہ مبارک، سنیچر مبارک۔ اف! اف ! میں بھنا گیا تھا۔
ان مبارکباد دینے والوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہر لمحے کی مبارکبادیں دینے لگ جائیں۔
ستم یہ کہ ہر قسم کی تہنیتیں پیش کرنے میں میرا یہ دوست فیصل بڑا پرجوش رہتا تھا۔نماز کا نہ روزے کا، لیکن مبارکباد دینے میں اول اول۔
اسے سبق سکھانا اب بہت ضروری ہوگیا تھا اپنی میٹھی نیند پر میزائل چلانے والے کو میں ہرگز معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
صبح سحری کھاتے ہوئے میں نے میسج ٹایپ کیا۔
”دوسرے عشرے کی پہلی سحری مبارک ہو فیصل۔
اوہو، تمہیں بھی میرے یارا۔“
وہ بہت خوش ہوا۔
پھر صبح سات بجے جب رمضان میں عام طور پر لوگ سوئے ہوتے ہیں۔میں نے اسے میسج کیا لیکن اس نے دیکھا نہیں۔یقینا سورہا ہوگا۔لیکن میرا منصوبہ تو پکا تھا حالانکہ کسی کی نیند خراب کرنا مجھے بالکل پسند نہیں مگر اسے سبق سکھانا بھی ضروری تھا۔
سو اسے کال کیا۔اور دوسرے عشرے کی “پہلی اشراق” کی مبارکباد پیش کی۔
”ہاں ہاں ٹھیک ہے۔“
نیند میں ڈوبی آواز سے کہکر اس نے فون بند کر دیا تھا۔
دس بجے صبح اٹھ کر میں نے پہلا کام اسے کرنے کا ہی کیا۔
”عشرۂ دوم کی“ پہلی چاشت
” مبارک ہو۔“
اس نے سین کرلیا تھا مگر نو رسپانس۔
پھر ہر گھنٹے میں اسی حرکت کا اعادہ کرتا رہا۔
دوسرے عشرے کا پہلا زوال مبارک، پہلی ظہر مبارک، پہلی سہ پہر مبارک۔
یہاں تک کہ اس کی لجاجت بھری کال آگئ۔
”یہ کیا لگا رکھا ہے بھائی۔“
”کیوں بھئ رمضان ہے، میں تو بس مبارک ساعتوں کی مبارکباد دے رہا تھا۔ کیا دقت ہے۔“
”یار ، میں باس کے ساتھ میٹنگ میں ہوں تمہارے میسجز مجھے ڈسٹرب کررہے ہیں۔بس لے لی نا تمھاری نیک خواہشات ،اب بس کردو۔۔ باس واش روم گئے ہیں اس لیے موقع پاکر تمھیں کال کی ہے پلیز اب کوئی مبارکباد نہیں۔“
”فیصل!”۔ میں نے شاک کے عالم میں کہا –“تم مجھے مبارکباد کے لیے کیسے منع کرسکتے ہو یہ کوئی گناہ تو نہیں ہے۔“
وہ میری شرارت سمجھ گیا تھا لیکن چونکہ میٹنگ میں تھا اس لیے صبر کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
”میرے باپ کی توبہ جو تمہیں تمہاری شادی کی بھی مبارکباد پیش کی ہو تو۔“
میں نے ہنسی دبا کر فون بند کیا ۔ پھر ایک بے فکرا اور سرشار قہقہہ خارج کیا۔
اسے سبق مل چکا تھا۔اور مجھے آزادی۔
0 Comments