تربیت ایسے بھی کی جاتی ہے

ابا جان! آپ کے ہاتھ کتنے سخت اور کھردرے ہوگئے ہیں لائیں میں اس پر تیل کی مالش کردیتی ہوں۔ ننھی فاخرہ اپنے والد کے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔امتیاز انور اپنی بچی کی پیاری باتوں سے جھوم اٹھا اس نے اسے گود میں اٹھالیا اور فرط محبت میں کہنے لگا۔
میری پیاری بچی اپنے ہاتھوں سے محنت و مشقت سے حاصل ہونے والی کمائی انسان کی بہترین کمائی ہوتی ہے۔۔اور رزق حلال کمانا تو عین عبادت ہے جس میں ہمیں اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ اسکی رحمت و برکت بھی نصیب ہوتی ہے۔۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے مجھے تمہاری طرح پیاری اور صالح اولاد عطا کی ہے۔۔ اچھا میری بچی مجھے کام کے لئے دیر ہورہی ہے اب میں نکلتا ہوں۔۔اس نے فاخرہ منیر اور زنیرہ تینوں بچوں کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اہل خانہ کو خدا حافظ کہ کر کام پر نکل گیا۔۔۔
شوہر کو کام پر رخصت کرنے کے بعد سمیہ اپنے بچوں کی جانب متوجہ ہوئی اور کہنے لگی” چلو بچو وضو کرکے تیار ہو جاو عربی ٹیوشن کے بچے اب آتے ہی ہوں گے۔منیر کل جو سورہ مع ترجمہ حفظ کرنے کے لئے دیا گیا تھا وہ تم نے یاد کرلیا نا؟
جی امی جان پورا یاد ہوگیا الحمدللہ۔۔
اور فاخرہ آپ نے وضو کے فرائض اور سنتیں یاد کیے؟
جی امی یاد کرلئے۔۔
اور زنیرہ بیٹی آج کوئی بہانہ نہیں چلے گا سورہ ماعون مکمل یاد ہو جانی چاہئے معانی اور مفہوم کے ساتھ۔۔سمجھ میں آیا ؟
امی جان کل آپ نے جو مفہوم بیان کیا تھا نا وہ مجھے یاد ہے۔۔اس سورہ میں یوم جزا و سزا کو جھٹلانے والے ان لوگوں کو تباہی و ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے جو یتیموں کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہیں فقرا و مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے اور نہ ہی انکی امداد کرتے ہیں اور نمازوں سے غفلت برتتے ہیں ریاکاری کرتے اور معمولی ضرورت کی چیزیں لوگوں کو دینے سے گریز کرتے ہیں
شاباش میری بچی۔۔ اس نے اپنی بچی کو گود میں اٹھاکر چوم لیا اور خوشی کے آنسو اسکے رخسار کو بھگونے لگے۔۔وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرنے لگی۔۔
سمیہ کا یہ روزمرہ کا معمول تھا صبح کی ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد وہ محلے کے بچوں کو معمولی اجرت پر عربی ٹیوشن پڑھاتی۔۔دوپہر کے وقت میں جب کچھ فرصت کے لمحات اسے میسر آتے تو وہ سلائی کڑھائی کا کام کرتی۔۔
وہ انتہائی ذہین محنتی اپنے رب کی شکر گزار اور صبر کرنے والی خاتون تھی ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتی اور خوش اخلاقی سے پیش آتی اسی لئے آس پڑوس کی ساری خواتین اسکی بہت عزت کرتی تھیں۔۔محلہ بھر میں سبھی اسے باجی کہہ کر پکارتے تھے۔۔گھر میں دو وقت کی روٹی ہی بڑی مشکل سے بن پاتی مگر تب بھی وہ غریبوں کی خبرگیری کرتی۔۔جو اس کے بس میں ہوتا امداد کرتی۔۔اور اپنی اولاد کو بھی یہی تلقین کرتی۔۔ایک رات جب بچوں نے اس سے واقعہ سنانے کے لئے کہا تو وہ کہنے لگی۔
میرے پیارے بچوں آج میں تمہیں اس عظیم خاتون اسلام کا واقعہ سناونگی جس کے جذبے کی تعریف اللہ تعالی نے قرآن پاک میں کی ہے جسکی رہتی دنیا تک تلاوت کی جاتی رہے گی
بچے بڑی دلچسپی سے سننے لگے
امی کون تھیں وہ خاتون؟ زنیرہ نے سوال کیا.
وہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ خاتون حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا تھیں جنھوں نے ایک رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی ضیافت کی اس حال میں کہ گھر میں صرف بچوں کے لئے ہی کھانا موجود تھا اور وہ کھانا انھوں نے بچوں کو بھوکا سلا کر مہمان کو کھلادیا اور اپنے شوہر کے ساتھ خود بھی بھوکی رہ گئیں۔۔، واقعی امی جان یہ تو بہت بڑی قربانی ہے۔۔
ہاں میرے بیٹے بہت بڑی قربانی ہے۔۔اس نے منیر کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔وہ مزید کہنے لگی” پیارے بچوں اللہ رب العزت بڑے قدردان ہیں وہ اپنے بندوں کی نیکی کو کبھی ضائع نہیں کرتے انھیں اسکا اجر و ثواب دنیا و آخرت دونوں جہان میں عطا کرتےہیں۔لہذاہمیشہ نیکی کرنی چاہئے چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اور اللہ کی خاطر اسکے بندوں سے حسن سلوک کرنا چاہئے۔۔
سبھی نے عزم کیا کہ وہ ان باتوں پر خلوص دل سے عمل کریں گے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بچے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔۔
امتیاز انور جو بڑی دیر سے ساری باتوں کو سن رہا تھا اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر کہنے لگا” مجھ پر شکر واجب ہے کہ اللہ نے مجھے نیک سیرت شریک حیات اور میرے بچوں کو بہترین تربیت کرنے والی ماں عطا کی ہے۔ سمیہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی” شکر تو مجھ پر بھی واجب ہے کہ اللہ نے مجھے آپکی صورت میں پاک باز نیک سیرت حلال رزق کمانے والا دیندار شوہر عطا کیا ہے۔۔
تم ٹھیک کہتی ہو ہم دونوں ہی اللہ کے ممنون و مشکور ہیں۔۔ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے وہ مزید کہنے
لگا”سمیہ میں کچھ پریشان سا ہوگیا ہوں۔
” کیا بات ہے فاخرہ کے ابو سب خیریت تو ہے نا؟اس نے تشویش ظاہر کی۔۔” عالمی وبا کے تناظر میں حکومت پھر سے لاک ڈاؤن کا اعلان کردے گی ایسا خیال ظاہر کیا جارہا ہے۔رمضان کریم کی آمد ہے

ماہ مبارک کے جو اضافی اخراجات ہیں وہ ہم کیسے پورا کریں گے یہی فکر مجھے اندر ہی اندر کھائےجارہی ہے۔۔سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔
دیکھیں اللہ پر تو کل کریں وہ بہترین کارساز ہے۔اپنے بندوں کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا اسی سے مدد مانگیں کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔۔میں نے کچھ رقم اپنی کمائی میں سے جمع کررکھی تھی سلائی کے کچھ مزید آڈر بھی مجھے ملے ہیں۔۔انشااللہ اس رقم سےہم بچوں کے لئے عید پر کپڑے بنوالیں گےاور ماہ مبارک کے اضافی اخراجات بھی پورے ہوجائیں گے۔
” اللہ کرے ایسا ہی ہوتمہاری دلجوئی سے دل مطمئن ہوجاتا ہے سمیہ اللہ تمہیں اچھا رکھے۔۔
کچھ دن بعد ماہ مبارک کا عشرۂ دوم چل رہا تھا۔۔صبح کے وقت سمیہ عربی ٹیوشن پڑھارہی تھی۔۔ایک بچے پر اسکی نظر پڑی جوکہ بہت غمگین نظر آرہا تھا”کیا بات ہے بیٹے فیصل کیوں اداس ہو؟ تمہاری امی تو ٹھیک ہے نا؟ یہ وہی فیصل تھا جس کے والد چھ ماہ پہلے عالمی وبا کی لپیٹ میں آکر دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔۔تب ہی سے اسکی ماں اور بڑی بہن لوگوں کے برتن مانجھ کر گزراوقات کررہی تھیں۔۔گھر میں آئے دن فاقے کی نوبت آن پڑتی۔۔سمیہ اکثر ان کی مختلف طریقے سے امداد کرتی۔۔آج اسے یوں اداس دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ انھیں کچھ ضرورت پیش آگئی ہے۔۔اس کے استفسار پر فیصل کہنے لگااس سال ہمیں عید کی خوشی نصیب نہیں ہونگی باجی۔
یہ تم سے کس نے کہا پیارے بچے؟
” امی کہہ رہی تھی کیونکہ انکو مالکن نے کام پر سے نکال دیا ہے دو روز سے انھیں بخار آگیا تھا اس لئے۔۔
بیٹے پریشان نہیں ہوتے اپنے معصوم ذہن کو یوں تھکاتے نہیں اللہ آسانی کرے گا فکر مت کرو چلو یہاں آو میرے پاس کل کا سبق سناو۔۔
وہ عربی کے بچوں کو رخصت کرچکی تھی۔۔منیر نے اس سے کہاامی جان آج میں نے پاس والی دکان میں بہت ہی خوبصورت شیروانی دیکھی ہے مجھے عید پر وہ ہی چاہئے۔۔۔
اور امی ہم دونوں بہنوں کو سلور کلر کا لانگ فراک چاہئے جس پر گولڈن زری کا کام ہے۔۔دونوں بہنیں یک زبان ہو کر کہنے لگیں۔۔
وہ بڑی دلچسپی سے اپنے بچوں کی باتیں سن رہی تھی پھر وہ اپنے بچوں سے نصیحت آمیز لہجے میں مخاطب ہوئی” پیارے بچوں کچھ دن پہلے میں نے تمہیں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا کا ایک واقعہ سنایا تھا تم میں سے کس کو یاد ہے۔۔
ننھی زنیرہ فوراً بول اٹھیہاں امی مجھے یاد ہے انھوں نے خود بھوکے رہ کر مہمان کو کھانا کھلایا تھا وہ ہی نا؟
” بالکل صحیح شاباش میری گڑیا اس واقعہ سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے۔۔
یہی کہ ہم ایک دوسرے کی ضرورت کو سمجھیں۔۔
ہمیشہ لوگوں کے کام آئیں
اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیں۔تینوں باری باری جواب دینے لگے۔
ماشااللہ بہت خوب! میرے بچے تو بہت سمجھدار ہیں۔بچوں اگر آج میں تم سے کچھ مانگوں تو کیا تم مجھے دو گے۔۔ تینوں حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور پھر فاخرہ کہنے لگی” امی ہمارے پاس تو آپ کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔آپکو ہم سے کیا چاہئے؟!
بیٹی صبح تم نے فیصل کو دیکھا وہ کتنا اداس اور پریشان لگ رہا تھا دراصل اسکی امی کے پاس پیسے نہیں ہے وہ بے سروسامانی اور تنگدستی کا شکار ہےاور وہ ہمارے پڑوسی بھی ہیں ایسے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انکی مدد کریں۔۔۔میں نے تمہارے کپڑوں کے لئے کچھ پیسے جمع کررکھے تھے اب میں چاہتی ہوں کہ ان پیسوں سے فیصل کی امی کی مدد کرلوں تاکہ عید کی خوشی میں وہ بھی ہمارے ساتھ رہیں۔۔۔
لیکن امی ہمارے کپڑوں کا کیا ہوگا؟
میرے بچوں تمہیں یاد ہے پچھلے مہینے تمہارے ماموں جان جب ہم سے ملنے آئے تھے تو وہ تمہارے لئے گہرے سبز رنگ کا ریشمی کپڑا لائے تھے میں اس سے بیٹے تمہارے لئے بہترین ڈیزائین کی شیروانی بناؤں گی جسے پہن کر تم شہزادے لگوگے اور میری بچیوں تمہارے لیے خوبصورت فراک سی دوں گی مجھےاس دکان پر موجود کپڑوں سے بھی بہترین ڈیزائین بنانے آتے ہیں۔۔۔اس نے پرسکون لہجے میں کہا۔
امی جان آپ ہمارے لئے بالکل ویسے ہی ڈیزائین کے کپڑے سی دیں گی نا؟ زنیرہ نے معصومیت سے پوچھا۔
ہاں میری بچی اس سے بھی بہترین ڈیزائین میں سی دونگی پکا وعدہ اور بچوں یاد رکھو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیواؤں اور مسکینوں کی مدد کرنے والوں کو بشارتیں سنائی ہیں۔حدیث مبارکہ میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہبیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو دن میں روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے۔(بخاری)
امی جان ہم ضرور وہ اجر و ثواب کمائیں گےکوئی بات نہیں آپ ہمارے لئے گھر ہی پر کپڑے تیار کرلیں ہم وہ ہی پہن لیں گے آپ اب جلدی ان کے گھر چلیں ہم وہ روپے انھیں دیں دے دیں گے۔منیر چلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اسکی دونوں بہنیں بھی ساتھ چلنے کو تیار ہوگئی۔۔سمیہ نے ان تینوں کو اپنی آغوش میں بھر لیا اسکی آنکھوں سے شکر اور خوشی کے آنسو چھلکنے لگے وہ دل ہی دل میں کہنے لگیاے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ تونے مجھے نیک اولاد عطا کی ہے بے شک صالح اولاد دنیا کی عظیم دولت ہے۔

بیٹی صبح تم نے فیصل کو دیکھا وہ کتنا اداس اور پریشان لگ رہا تھا دراصل اسکی امی کے پاس پیسے نہیں ہے وہ بے سروسامانی اور تنگدستی کا شکار ہےاور وہ ہمارے پڑوسی بھی ہیں ایسے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انکی مدد کریں۔۔۔میں نے تمہارے کپڑوں کے لئے کچھ پیسے جمع کررکھے تھے اب میں چاہتی ہوں کہ ان پیسوں سے فیصل کی امی کی مدد کرلوں تاکہ عید کی خوشی میں وہ بھی ہمارے ساتھ رہیں۔۔۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱