رونق بزم جہاں
نظم

رونقِ بزمِ جہاں ہے عورت
نور کیا نورِ جہاں ہے عورت

اس کی آنکھوں میں وفا کا کاجل
اس کے مکھڑے پہ حیا کا آنچل

رنگ بھرتی ہے کائنات میں بھی
رونقیں اس سے ہیں حیات میں بھی

جلتی بجھتی سی پھلجھڑی بھی ہے
وقت کے ہاتھ کی چھڑی بھی ہے

جس سے ٹھنڈک ملے وہ ایسی آگ
گنگنائے سبھی وہ ایسا راگ

پرتوئے شمس و قمر وہ شعلہ
درد و غم گنگنائے وہ نغمہ

آشیاں خود بنائے وہ بجلی
ایک طوفاں سنبھالے وہ کشتی

آگ میں جھونک دی گئی اکثر
ظلم سے پھونک دی گئی اکثر

پیٹھ پیچھے سے گولیاں کھائے
کوکھ میں ہی مار دی جائے

کوئی تازہ کلی تھی پھولوں میں
بیک کردی گئی تنوروں میں

اٹھ کھڑی ہو گئی ہے آج ایسے
ہاتھ میں انقلاب ہو جیسے

اس نے بدلے ہیں اپنے تیور آج
علم ودانش ہے اس کا زیور آج

خار رستے کے خود ہٹا لے گی
راستہ اپنا خود بنالے گی

راحتیں گل نثار کرتی ہیں
منزلیں انتظار کرتی ہیں

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱