اورنگ زیب عالمگیر کے پانچ بیٹے (بہادر شاہ ،سلطان محمد اکبر، محمد اعظم شاہ ،کام بخش محمد سلطان )اورپانچ بیٹیاں (زیب النساء بیگم ،زینت النساء ، مہر النساء ، بدرالنساء ، زبیدۃالنساء) تھیں۔زیب النساءؒ اورنگ زیب کی سب سے بڑی بیٹی تھیں ۔ وہ ۱۵ فروری ۱۶۳۸ء میں پیدا ہوئیں ۔ اورنگ زیب کی اولاد میں سے زیب النساء بیگم سب سے زیادہ علم دوست اورجملہ علوم اسلامیہ میں یدطولیٰ رکھتی تھیں۔اس کے علاوہ مختلف علوم و فنون سے بھی دلچسپی رکھتی تھیں۔ زیب النساء بیگم ایک مایہ ناز ادیبہ،عالمہ، اور داعیہ تھیں ۔اس کے علاوہ فن قراءت اور خوش خطی میں بھی ممتاز مقام رکھتی تھیں۔ وہ انتہائی زیرک تھیں اور انھوں نے صرف دو سال تین ماہ میں قرآن مجید کا ناظرہ ختم کر لیا۔علامہ شبلی نعمانی ؒ لکھتے ہیں کہ جب زیب النساء پڑھنے کے قابل ہوئیں تو اورنگ زیب نے اس کی تعلیم کے لئے حافظہ مریم کو مقرر کیا جس نے حسب دستور سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم دی ،زیب النساء نے قرآن مجید حفظ کیا ۔کہا جاتا ہے کہ انھوں نے محض بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا ۔اورنگ زیب کی مسرت کی انتہا نہ رہی اور انھوں نے تیس ہزار اشرفیاں اس کی فاضل معلمہ کو صلہ میں عطا کیں ۔۱؎
اس کے بعد انھوں نے منتخب اساتذہ سے علوم اسلام کی تعلیم حاصل کی ۔ زیب النساء ہر وقت علم و آگہی کے حصول میں متحرک رہتی تھیں ۔ انھوں نے ملا اشرف صاحب سے فارسی و عربی کی درسی کتابوں کے علاوہ فقہ ،اصول فقہ، علم حدیث ،اور دیگر علوم بھی حاصل کیے۔اکیس سال کی عمر میں عربی اور فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل کر لیا تھا ۔علم و معارف سے محبت اور شغف انہیں اپنے والد اورنگ زیب عالمگیر کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے ملا ہے ۔علم و علماء سے ان کا بے لوث اورگہرا تعلق تھا۔علم اور اہل علم کی بہت قدر کرتی تھیں اور ان کے لیے علمی محفلیں منعقد ہوتی تھیں جن کی سرپرستی وہ خود کرتی تھیں ۔معروف مصنف محمد خیر رمضان یوسف نے اپنی مشہور کتاب ’المؤلفات من النساء ومؤلفاتھن فی التاریخ الاسلامی‘ میں ان کے علمی شغف اور ان کی علمی خدمات کا ذکر کیا ہے ۔محمد خیر رمضان لکھتے ہیں کہ :وقد یعد بسب انشغالھا بالعلم الی حب والدھا للعلم ولعلماء ۔ ۲؎
علوم اسلامی سے انہیں بے حد دلچسپی تھی اور اس میں انھوں نے کمال درجہ حاصل کیا تھا ۔اس کے علاوہ مختلف علوم و فنون میں انہیں زبردست درک حاصل تھا ۔انہیں فلسفہ ، منطق ، ریاضی سے بھی رغبت تھی ۔ اپنے محل میں انھوں نے ایک شاندار لائبریری قائم کی تھی جس میں ہر طرح کی کتابیں جمع کی گئی تھیں ۔ اس لائبریری سے بڑے بڑے علماء و ادباء مستفید ہوتے تھے ۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس لائبریری میں وہ علماء و فضلاء سے تصنیف و تالیف کا کام بھی کرواتی تھیں ۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء اور ادباء ان سے استفادہ کرتے تھے۔ زیب النساء خوش خطی میں خطوط لکھنے میں مہارت رکھتی تھیں، چونکہ فارسی ان دنوں سرکاری زبان تھی، اس لئے اس کو علمی کاموں کے لیے بھی بھرپور استعمال کیا ۔ زیب النساء انتہائی پرہیز گار اور پاکباز خاتون تھیں۔ شریعت کی پابندی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ خدا کے ساتھ ساتھ خلق خدا کے سے بھی محبت کرتی تھیں۔ بلکہ ان کا ہر وقت خیال بھی رکھتی تھیں ۔زیب النساء بیگم کو شاعری کا بڑا عمدہ ذوق تھا اور بچپن سے ہی شعر و شاعری کی طرف رجحان تھا ۔اس فن کو جلا بخشنے کے لئے استاد بھی مقرر کیا گیا ۔ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ نظم و نثر میں ملا سعید سے اصلاح لیتی تھیں۔فارسی زبان کی بہت ہی عمدہ شاعرہ بھی تھیں ۔
ان کا ایک شعر ملاحظہ فرمالیں :
برو طواف دلہ کن کہ کعبہء مخفی ست
کہ آن خلیل بنا کرد و این خدا خود ساخت
’’جاؤ کسی دل کا طواف کرو کہ جو پوشیدہ کعبہ ہے کیوں کہ اس مکہ کے کعبے کی بنیاد تو حضرت ابراہیم نے ڈالی تھی لیکن اس دل کے کعبے کو اللہ نے خود بنایاہے ۔ ‘‘
ان کے دیوان کا نام دیوان ِ مخفی ہے جو فارسی زبان میں ہے۔۶۳ سال کی عمر میں ۱۸۰۱ء میں ان کا انتقال ہوا اور ان کا مقبرہ لاہور میں ہے۔
تفسیری خدمات :
زیب النساء ایک عالم و فاضل خاتون تھیں ۔اس لیے فضلاء کی نہایت عزت و قدردانی کرتی تھیں ۔وہ ہر معنیٰ مں علم دوست خاتون تھیں ۔انھوں نے ایک محکمہ تصنیف و تالیف کے نام سے قائم کیا تھا اور ان کی نگرانی میں علماء و فضلاء نے بہت سی عمدہ کتابیں تالیف و تصنیف کیں ۔انھوں نے رقمِ کثیر صرف کرکے نہایت اعلیٰ کتب بہم پہنچائی تھیں اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے پاس اتنا علمی ذخیرہ ہوگیا تھا کہ اس زمانے میں ایسے کتب خانہ کی نظیر نہ ملتی تھی۔واقعی یہ عظیم الشان کام تھا۔۔علماء و فضلاء تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے تھے اور ان سے استفادہ کرتے تھے ۔۳؎
نیز شہزادی نے بے شمار علمی کتابیں ان محققین اور ادباء سے تصنیف کروائیں۔عربی تفاسیر کا دائرہ تفہیم واستفادہ علماء اور عربی دان طبقہ تک محدود تھا۔اس دور میں ایران کے علاوہ برصغیر میں مسلمانوں کی علمی اور سرکاری زبان فارسی تھی ،فارسی زبان میں تفاسیر لکھنے کی ضرورت محسوس کی گئی جس کے نتیجہ میں اعلیٰ پائے کی فارسی تفاسیر لکھی گئیں جس کا سلسلہ عہد اکبری سے شروع ہوا۔۴؎
زیب النساء بیگم نے بھی اس دور میں ایک اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تفسیر کبیر کا فارسی زبان میں ترجمہ کروایا۔وہ چاہتی تھیں فارسی زبان میں قرآن مجید کی ایک ایسی تفسیر ہو جو مستند ہو اور عام فہم بھی ہو ۔انھوں نے امام رازی کی تفسیر مفاتیح الغیب المعروف بہ تفسیر کبیر کا اہل علم سے ترجمہ کروایا ۔اس تفسیر کا آغاز انھوں نے ۱۶۷۰ء سے شروع کروایا اور اس کی تکمیل ۱۶۷۷ء میں ہوئی ۔ انھوں نے اس کو نو جلدوں میں مکمل کیا۔ تفسیر کبیر بہ اعتبار جامعیت وتفصیل اول درجہ کی ہے ۔مگر زیب النساء کے زمانہ میں اس کے ترجمہ کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی لیکن شہزادی کی وسیع نظر نے اس کی کمی کو محسوس کر کے اس کام کا بیڑا اٹھایا۔امام رازی ؒکی تفسیر کا ترجمہ انھوں نے فارسی زبان میں کروایا۔ اس تفسیر کے بارے میں خیر رمضان یوسف لکھتے ہیں :ولا یبدو ان تفسیرھا ھذا با لفارسیہ مثل دیون شعرھا ۔ ولم اتمکن من التحقق فی الامر۔۴؎
انھوں نے یہ تفسیر شیخ صفی الدین ولی قزوینی ؒ سے فارسی زبان میں کروائی ۔مآثر عالمگیری مصنفہ محمد ساقی مستعد خان کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب کے دور حکومت میں ملاصفی الدین اردبیلی کشمیری نے شہزادی زیب النساء کے حکم سے تفسیر کبیر کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا، اور اس کا نام زیب التفسیر رکھا جو بعد میں زیب التفسیر کے نام سے مشہور ہوا ہے۔ ۵؎
یہ تفسیر کئی جلدوں پر مشتمل ہے ۔اس تفسیر کی پانچویں جلد کا قلمی نسخہ برٹش میوزیم میں محفوظ ہے اور اس کا ایک نسخہ بوڑلین لائبریری آکسفورڑ میں محفوظ ہے اور سورہ انفال تا سورہ یوسف کی تفسیر پر مشتمل ہے ۔۵؎ ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ یہ تفسیر اب نایاب ہے اورصرف چٹھے حصے کا بعض کتب خانوں میں اس کا پتہ چلتا ہے ۔
حوالہ جات
۱؎ حکیم مظفر حسین دہلوہی ،نواب زیب النساء بیگم
(لاہور :حکیم رام کشن بک مرچنٹ تارکشان ،۱۹۲۰ء)،ص:۹
۲؎ خیر رمضان یوسف ، المؤلفات من النساء ومؤلفاتھن فی التاریخ الاسلامی ،
(بیروت ،دار ابن حزم ،۲۰۰۰)،ص ۴۴:
۳؎ حکیم مظفر حسین دہلوہی ،نواب زیب النساء بیگم
(لاہور :حکیم رام کشن بک مرچنٹ تارکشان ،۱۹۲۰ء:ص: ۴۰
۴؎ خیر رمضان یوسف ، المؤلفات من النساء ومؤلفاتھن فی التاریخ الاسلامی ،
(بیروت ،دار ابن حزم ،۲۰۰۰)،ص: ۴۴
۵؎ ڈاکٹر علاء الدین خان، عہد اورنگ زیب میں علماء کی خدمات ،
(نئی دہلی : البلاغ پبلیکیشنز ،۲۰۱۳ء)،ص:۱۷۵
زیب النساء بیگم ایک مایہ ناز ادیبہ،عالمہ، اور داعیہ تھیں ۔اس کے علاوہ فن قراء ت اور خوش خطی میں بھی ممتاز مقام رکھتی تھیں۔ وہ انتہائی زیرک تھیں اور انھوں نے صرف دو سال تین ماہ میں قرآن مجید کا ناظرہ ختم کر لیا۔
Comments From Facebook
0 Comments