ہم ساتھ ، ہم قدم
اس کوویڈ کے دور میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنا تو دور اپنے سائے سے بھی خوف کھانے لگے ہیں ایک عجیب دور سے ہم گذر رہے ہیں کوئی کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں خوف کے سائے میں اپنے اپنے گھروں میں بند ہیں۔
فاروق آفس سے تھکا ہارا گھر لوٹا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے آواز لگائی روحی،کہاں ہو؟ ذرا پانی پلانا۔۔۔ بچوں کی آواز نہیں آ رہی تھی شاید وہ ہوم ورک کر رہے ہوں گے وہ یہ سوچتے ہوئے واش روم چلا گیا جب وہ نہا کر نکلا تو اس کی شریک حیات چائے کی ٹرے لیے کھڑی تھی۔ السلام علیکم! کیسی ہو۔؟ وہ شرارتی انداز میں پوچھنے لگا۔ آپ تو ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے کئی دنوں بعد ملے ہوں۔ یونہی! آپ کو چھیڑنے میں مزہ جو آتا ہے۔ وہ صبح کا اخبار اٹھا کر دیکھنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ چائے کی چسکیاں بھی لے رہا تھا۔ بہت دیر ہوئی روحی کی طرف سے جواب نہ پا کر اس نے سر اٹھا کر اسے وہ خاموش اپنی سوچوں میں مگن تھی ۔ ہیلو! میں آپ ہی سے مخاطب ہوں اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔ آں۔۔۔آں۔۔۔ کچھ نہیں۔ وہ ایکدم چونک اٹھی روزانہ اس کی عادت تھی کہ جب تک دن بھر کی روداد فاروق کو سنا نہ دیتی اسے چین نہیں پڑتا تھا اور آج وہ خاموشی کی انتہا پر تھی اور یہی بات فاروق کو حیران کیے دے رہی تھی۔ کچھ بتاؤ یار بات کیا ہے؟ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔ فاروق تم جانتے ہو آج ہمارے محلے میں کیا ہوا؟ وہ شروع ہوگئی تھی کیا ہوا؟ بتاؤ بتاؤ وہ چوکنا ہو کر سننے لگا وہ ہمارے گھر سے چار پانچ مکانات چھوڑ کرجومکان ہے ناں؟ جہاں شرماصاحب رہتے ہیں ان کے گھر بہت بڑا سانحہ پیش آیا ۔ کیسا سانحہ؟ تم نے اب تک مجھے بتایا کیوں نہیں؟ ارے آپ کل سے بزی تھے آج فرصت ملی ہے وہی تو بتانے جارہی ہوں سنا ہے ان کے گھر میں کرونا پازیٹیو ممبرز ہیں میں نے ممی جی سے بھی کہا کہ ان کی عیادت کرتے ہیں مگر انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا۔ سنو فاروق، چلو نا ہم چلتے ہیں خیر خیریت دریافت کرتے ہیں۔ پریشانی اس کے چہرے سے صاف جھلک رہی تھی فاروق نے اپنی بیوی پر محبت بھری نظر ڈالی وہ ایسی ہی تھی سب کی تکلیف میں تڑپنے والی سب سے ٹوٹ کر محبت کرنے والی اور سب کا خیال رکھنے والی۔ادھر آؤ! یہاں بیٹھو فاروق نے اسے اپنے قریب بٹھایا۔
دیکھو روحی ! اس کوویڈ کے دور میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنا تو دور اپنے سائے سے بھی خوف کھانے لگے ہیں ایک عجیب دور سے ہم گذر رہے ہیں۔ کوئی کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں خوف کے سائے میں اپنے اپنے گھروں میں بند ہیں۔ مگر فاروق! پریشان حال کی مدد کرنا بہت بڑی نیکی ہے اتنی انسانیت تو ہونی چاہیے ناں۔۔؟ وہ پھر سے اصرار کرنے لگی اچھا اچھا ٹھیک ہے۔اس نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا جلدی سے دوپٹہ اوڑھ لو ماسک لگا لو پھر چلتے ہیں۔ بچے کیا کر رہے ہیں؟ فاروق نے تسلی کرنی چاہی بچے ہوم ورک کر رہے ہیں امی ابو بھی وہیں ہیں۔ اچھا. کہتے ہوئے اس نے قدم آگے بڑھائے روحی بھی ساتھ ساتھ چلنے لگی انہوں نے دھیمےسے گیٹ بند کیا تاکہ بچے آنے کے ضد ہی نہ کریں اور. پیدل چلتے ہوئے روڈ پر آ گئے چند ثانیے بعد وہ شرما صاحب کی ڈور بیل بجا رہے تھے۔ *** کون ہے بھئ اس وقت؟ شرما صاحب کی آواز آئی۔ پھر جب انہوں نے گیٹ کھولا تو سامنے ان دونوں کو کھڑے پایا آداب انکل، میں فاروق ہوں۔ یہاں قریب ہی کے گھر میں رہتا ہوں پہچانا آپ نے؟ نمستے انکل، میں مسز فاروق ہوں روحی نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرایا کدھر آئےہیں آپ لوگ؟شاید آپ کو پتا نہیں کہ ہم لوگ کرونٹائن ہیں ایسے میں آپ لوگوں کی آمد کسی اچنبھے سے کم نہیں ہے لوگ احتیاط کررہے ہیں انہوں نے راز دارانہ کہا ہم لوگ محض انسان دوستی کے ناطے آپ سب کی خیریت دریافت کرنے آئے ہیں اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم یہاں بیٹھ کر بات کریں۔ فاروق نے صحن میں پڑی کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جی۔۔۔ جی۔! انہوں نے ہچکچاتے ہوئے انھیں اندر آنے کا راستہ دیا۔ ہاں انکل بتائیے گھر میں کیا ہوا ہے؟ آنٹی دکھائی نہیں دے رہی ہیں فاروق نے استفسار کیا۔ لمبی سانس بھرتے ہوئے شرما صاحب کہنے لگےبیٹا، شانتی دیوی یعنی آنٹی کو چند دنوں سے بخار تھا پھر بہو کو بھی سردی بخار ہو گیا یہ دونوں اپنے ایک عزیز کی شادی میں گئے تھے اس کے بعد ہی ان کی طبیعت بگڑ گئی میں زمینوں کے کام کے سلسلے میں اپنے آبائی گاؤں گیا تھا واپس آ کر انہیں ہاسپٹل لے گیا ان کی ٹیسٹ رپورٹ آنے پر معلوم ہوا کہ انھیں کرونا ہوا ہے پھر میں نے اپنا ٹیسٹ کروایا مگر رپورٹ نیگیٹیو آئی ڈاکٹر نے انہیں ہوم کورانٹائن ہونے کو کہا ہے اس لئے وہ دونوں اوپر کی منزل میں ہیں خود بھی ابھی ابھی ریکور ہوا ہوں جیسے ہی یہ خبر محلے میں پھیلی تب سے میں بے حد پریشان ہوں اس وبا میں لوگ احتیاط بھی کررہے ہیں اور تنہائی سے بھی طبیعت گھبراتی ہے ۔ وہ کہتے کہتے سانس لینے کو رکے ان کی آنکھوں میں نمی صاف جھلک رہی تھی روحی نے آگے بڑھ کر مگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور شرما صاحب کی طرف بڑھایا۔ ’’انکل، آپ پہلے پانی پی لیں،انشاءاللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا آنٹی اور بھابھی جلد ہی ٹھیک ہوجائیں گی حوصلہ رکھیں روحی نے انہیں دلاسہ دیا۔ ہاں بیٹا جی! تم لوگ ضرور دعا کرنا میرا بیٹا روہت بھی یہاں نہیں ہے ورنہ مجھے اتنی پریشانی نہیں ہوتی وہ امریکہ میں رہتا ہے بہو ہمارے ساتھ رہتی ہے ادھر روہت بھی بہت پریشان ہو رہا ہے مسلسل اس کے کالز آرہے ہیں رشتے دار چاہ کر بھی ملنے آ نہیں سکتے لوگوں کا رویہ بھی اپنی جگہ درست ہے بیٹا لیکن میری طبیعت بھی سوشل ہے سب کی یاد بھی آرہی ہے اب شرما صاحب اپنے آنسو روک نہ سکے اور زار و قطار رونے لگے۔ فاروق نے انہیں جی بھر کے رونے دیا تاکہ ان کا دل ہلکا ہو سکے مگر روحی ضبط نہیں کر پا رہی تھی اس کا دل چڑیا کی طرح نرم تھا کچھ دیر بعد شرما صاحب سنبھلے اور اپنے چہرے کو ٹشو پیپر سے پونچھتے ہوئے کہنے لگے۔ فاروق جی میری آدھی عمر گزر گئی بال سفید ہوگئے مگر ایسے دن میں نے کبھی نہیں دیکھے کوئی اپنا نہیں، کوئی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں دودھ والے نے دودھ لانا بند کردیا ، ملازمہ نے کام پر آنے سے انکار کر دیا گھر میں کھانے کا سامان نہیں ہے۔دوائی نہیں ہے گھر سے نکلتا ہوں تو لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور کترا کر نکل جاتے ہیں میرے اپنے سگے بھائی نے اپنے گھر کا گیٹ بند کر لیا ہے میں نے فون کرکے کہا کہ کچھ ناشتہ وغیرہ بھجوا دو مگر کوئی جواب نہیں آیا آس پاس کے لوگ سب گھر لاک کر کے اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ فضا میں بھی کرونا ہوتا ہے ہم یہاں نہیں رہ سکتے ہمارا اپنا کوئی نہیں ہے،کوئی نہیں۔ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تھا شکوہ زباں پر آ ہی گیا ۔ دونوں میاں بیوی سکتے کے عالم میں بیٹھے سن رہے تھے بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے کچھ لمحے خاموشی رہی بالآخر فاروق نے سکوت کو توڑتے ہوئے کہا انکل!ہم آپ کے اپنے ہیں آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں دکھ کی اس گھڑی میں ، میں اور میری فیملی آپ کے ساتھ ہے۔ بالکل انکل، آپ پریشان نہ ہوں ہمت رکھیے وہ ہے نا سب کی سننے والا روحی نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ہاں بھگوان سلامت رکھے اسی کا تو سہارا ہے وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہنے لگے اچھا انکل دواؤں اور سامان کی لسٹ دیجئے میں لے آتا ہوں۔فاروق نے اٹھتے ہوئے کہا، شرما صاحب نے لسٹ فاروق کے حوالے کی اور پھر سے کرسی پر بیٹھ گئے۔ روحی نے جھاڑو سنبھالی شرما صاحب منع کرتے رہ گئے۔ مگر وہ نہ مانی تھوڑی ہی دیر میں پورے گھر کی صفائی ہو چکی تھی۔ فاروق ضرورت کے سامان کے ساتھ لدا گھر میں داخل ہوا بریڈ جام ، پھل، میڈیسن سب کچھ لے لایا تھا۔ بھگوان تم دونوں کا بھلا کرے سکھ شانتی دے تشکر آمیز اندازمیں شرما صاحب نے کہا۔ اچھا انکل ہمیں اجازت دیں اور ہاں ناشتے اور کھانے کی آپ فکر نہ کریں روحی بنا دے گی اور میں آفس جانے سے پہلے آپ کو دے کر جاؤں گا بس آپ آنٹی اور بھابھی کا خیال رکھیے گا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک کال کیجیئے گا۔ وہ انہیں کہتا ہوا آگے بڑھا اور شرما جی کو محسوس ہوا کہ یہ ان کا اپنا بیٹا ہے۔ *** اسی طرح دن گزرتے گئے اور روحی پر کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا تھا مگر وہ نازک سی لڑکی بنا ماتھے پہ شکن لائے سارے کام بڑے خوش اسلوبی سے کرتی جا رہی تھی روزانہ ناشتہ لنچ اور ڈنر پابندی سے شرما صاحب کے گھر بھیج رہی تھی فون پر خیر خیریت بھی دریافت کرتی اور انہیں ہمت دلاتی رہتی تھی۔ آج سنڈے تھا اور روحی کے لیے بہت مصروف دن تھا بچوں کے یونیفارم، گھر کے سارے کپڑوں کی دھلائی،اور پھر فرمائشی کھانا بھی بنانا تھا۔ چنانچہ وہ صبح ہی سےکچن کے کاموں میں لگی تھی واشنگ مشین چل رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ گھر کی صفائی بھی دوپہر کے لیے اس نے باسمتی چاول بھگوئے ناشتے میں پوری بنانے کے لئے آٹا گوندھا یہ بچوں کی فرمائش تھی اتنے میں ڈور بیل بجی۔ اس نے وہیں کچن کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو شرما انکل اپنی فیملی کے ساتھ گھر میں داخل ہورہے تھے اس کی خوشی و حیرت کی انتہا نہ رہی جلدی سے ہاتھ دھوئے اور تولیہ سے پونچھتے ہوئے ہال میں آئی۔ ہیلو انکل ،آنٹی! کیسے ہیں آپ سب؟‘‘خوشدلی سے ان کا استقبال کرنے لگی۔ فاروق بچے مما اور ابو سب وہیں آگئے اور ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ بیٹا جی! ہم آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرنے آئے آپ سب نے ہمارا اتنا خیال رکھا۔ شانتی دیوی ممنون انداز میں کہنے لگیں۔ وہ روحی بیٹا! آج Sunday ہے ناں! ہم نے سوچا کہ فاروق،بچے گھر پر ہی ہوں گے وہیں چل کر سب مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی بہو کو اشارہ کیا جو اپنے ساتھ ناشتہ لے کر آئی تھی وہ فوراً اٹھی اور باسکٹ روحی کو تھما دی۔ ارے انکل اس کی کیا ضرورت تھی۔ اچھا ہے روحی! دوپہر کا کھانا تم بنا لینا۔ زبیر احمد (فاروق کے والد) نے مسکراتے ہوئے کہا۔زبیر صاحب! آپ بہت لکی ہیں اتنے اچھے بیٹا بہو آپ کو ملے ہیں۔ ہماری بہت زیادہ مدد کی ہے شکریہ کہنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جب اپنوں نے نگاہیں پھیرلیں تب یہ دونوں ہی میرے اپنے بن کر میرے ساتھ کھڑے تھے۔ شرما صاحب کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔ بھگوان انہیں سلامت رکھے بری نظر سے بچائے۔شانتی دیوی نے ہاتھ اٹھا کر دعا دی۔ ’بس انکل آنٹی آپ ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں یہ تو ہمارا فرض ہے کیونکہ ہم سب ایک ہی تو ہیں ایک آدم کی سنتان اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن ایسا نہیں ہوتا کہ خود تو پیٹ بھر کھا کر سوئے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔ اس کے علاوہ پڑوسیوں کے اور بھی بہت سے حقوق اسلام میں بتائے گئے ہیں ہم نے تو بس ان پر عمل کی کوشش کی ہے ورنہ الله تعالیٰ ہم سے پوچھتا کہ تمھارے پڑوسی مشکل میں تھے تو تم نے ان کی خبر گیری کیوں نہیں کی اور پھر بیمار کی عیادت اور تیمارداری کی تو خاص تاکید ہے اسلام میں اصل چیز ’’محبت‘‘آپسی بھائی چارہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ نبھانا چاہیے تب ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بغض، نفرت، عداوت سب کچھ بھلا کر ساتھ رہنے میں ہی مزہ ہے یہی اسلام کی تعلیمات بھی ہیں۔ اب آپ ہی دیکھیئے دو الگ الگ فیملیز اس وقت ایک Happy Family لگ رہی ہیں۔ ہے ناں۔۔؟ کہتے کہتے روحی کھل کھلا کر ہنس پڑی۔ ہاں ہاں بالکل چلو اسی خوشی میں آج مزیدار سی بریانی ہوجائے۔ فاروق نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’ہاں آج کا سنڈے سپیشل ہونا چاہیے۔ بالکل بالکل۔ ساتھ میں کھیر بھی شرما صاحب نے مداخلت کی اور ممی آئسکریم بھی۔بچوں کی طرف سے فرمائش آئی۔ اور وہ مسکراتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئی۔ آج خوشیاں اس سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔
شاید آپ کو پتا نہیں کہ ہمارے گھر کرونا کیس ہوئے ہیں لوگوں نے گھر آنا تو دور فون پر بات کرنے کو تیار نہیں ایسے میں آپ لوگوں کی آمد کسی اچھنبے سے کم نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے بڑے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱