ہم پہ دروازے کھلیں گے دانش و ادراک کے۔۔!
زمرہ : ادراك
رات کی سیاہی جب زمانے پر چھا جاتی ہے تو ہر آنکھ دیکھ اور سمجھ سکتی ہے لیکن جہل کی تاریکی، زمانے پر اور معاشرے پر چھائی ہو تو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جو قران مجید کو تدبر کا موضوع بناتی ہے ۔اس وقت مسلمانوں پر ہونے والی یلغار چاہے اندرونی ہو یا بیرونی اھل ایمان کی قران سے دوری کی جانب اشارہ کررہی ہے ۔
یہ ہمارا ایمان ہے کہ قران مجید کسی مخصوص گروہ یا قوم کے لیے نہیں بلکہ کرہ ارض پر موجود ہر فرد کے لیے یہ دستور سازگار ہوگا کیونکہ یہ خالق کائنات کا نظام ہے اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے جو اس کو سمجھ لے وہ لازما اس بات کا دل میں اقرار کرے کہ یہ کلام اللہ کی تاثیر ہے ۔
ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اس پیغام کو عام کریں اور اس طرح کریں کہ دعوت کے بغیر بھی لوگ عمل سے کہیں کہ یہی وہ نظام ہے جس میں انسانوں کے لیے فلاح ہے۔ ہمارے اسلاف کا کردار قران کے سانچے میں ڈھلا ہوا وہ شفاف کردار تھا کہ دیگر اقوام دیکھ کر ہی کھنچی چلی آتی تھیں۔
لیکن حیف کہ ہماری کمزوری، ہماری کوتاہی، اور قران سے دوری نے ہماری زبان کو مقفل کر رکھا ہے یا ہم اس حقیقت کو اپنے عمل سے بیان نہیں کرپارہے ہیں اس کے برعکس ہمارے معاشرتی رویے نے اسلام ہی پر حرف ریزی کا موقع فراہم کیا ہے ۔
اب بہترین موقع ہے کہ زندگی کے بچے ہوئے ایام کو ہم قران مجید کے غور و فکر اور عملی تصویر بننے میں صرف کریں ۔
آمدم برسر مطلب :
موقع رمضان کا ہے اور رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید اتارا گیا اور قران نظام حیات ہے۔شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ (القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر۱۸۵)
ترجمہ:رمضان وہ مہینہ ہے ، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے ، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے ، اُس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔
اس ماہ مبارک کو ہم پورے شعور و احساس کے ساتھ گزاریں ۔
روزۂ رمضان دراصل انسان کے دل کو تقویٰ سے معمور کرتا ہے انسان کو اپنی نفسانی خواہشات، مادی میلانات،اور موقع پرستی،نفسانی و مادی طمع ، دروغ گوئی، جیسے تمام امراضِ قلب پر قابو پانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور نہ صرف یہ کہ منفی اثرات شخصیت سے زائل کرتا ہے بلکہ انسان میں خدا خوفی، حق پرستی، بے لوثی، آخرت طلبی، مادی دنیا سے بے نیازی کی صفت پیدا کرتا ہے ۔
اسی کے مصداق ہے کہ کسان فصل اگانے سے پہلے اپنی زمین کو ہموار کرتا ہے اس سے جھاڑ جھنکاڑ نکال پھینکتا ہے زرخیز بناتا ہے، کھاد ڈالتا ہے۔ اور جب مٹی زرخیز ہوجاتی ہے، اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب یہ بہتر فصل کے لیے تیار ہے تو اس میں زمین کی نوعیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیج بوتا ہے ۔
بالکل اسی طرح رمضان کا مہینہ ایمان کی فصل کرۂ زمین پر اگانے کے لیے مومن کی طبیعت کو ہموار کرنے والا مہینہ ہے۔
انفرادی طور پر انسان کی طبیعت کو ہلکی پھلکی بناکر خود احتسابی، قوتِ برداشت، اور میلان کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرنا رمضان کا مقصد ہے اور ہر سال اس عمل کی تجدید کی جاتی ہے بقول صاحبِ خطبات کے ” رمضان کا مہینہ گویا یہ ایک ماہ کی ٹریننگ کا مہینہ ہے تاکہ گیارہ مہینے اس تربیت کا اثر باقی رہے۔ ” انفرادی عمل کے ذریعہ تطہیر کے اس عمل میں اللہ تعالی مدد فرماتا ہے جو اس حدیث سے واضح ہوتی ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِا
ابوھریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس شخص نے رمضان کا روزہ رکھا. ایمان اور احتساب کے ساتھ تو اللہ اس کے پچھلے صغیرہ گناہ معاف فرمادیتا ہے ۔
وہیں یہ اجتماعی عبادات کے ذریعہ اجتماعی آداب کے اصول و ضوابط اور حکمتوں کے ادراک کا موقع ہے ۔اور اسی طرح انسانی جان کو مادے پر فوقیت نہ دینے کی عملی پریکٹس رمضان میں آپ کو نظر آئے گی چونکہ اس ماہ میں امداد باہمی کا اجتماعی موسم بن جاتا ہے اس لیے اس ماہ کو ماہ مواساۃ بھی کہا جاتا ہے ۔
ابتداء ہی مادی بوجھل پن کو کم کرنے سے ہوتی ہے بسیار خوری (زیادہ کھانے کی عادت) انسان کو عرفان ِ ذات یعنی خود کو سمجھنے سے دور کردیتی ہے رمضان میں سب سے پہلے کھانے میں اعتدال پیدا کرنے کا اصول اسی لیے ہے کہ انسان خود سے قربت اختیار کرے تاکہ وہ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پاسکے.
یہ بات اس وقت کھلے گی جب مسابقتی امتحان کی تیاری کرنے والے طلباء کے لیے دنیا کے ماہرین جو نظام الاوقات دیتے ہیں کچھ اس طرح ہے کہ رات میں جلدی سونا، علی الصبح جاگنا، وقت پر اٹھنا اور کھانا کھانے کے مخصوص اوقات کی پابندی لازم ہے تاکہ نظام انہضام کو بے وقت زحمت نہ دی جائے اور قوت ساری ذہن کے رَسا بننے میں صَرف ہو تو فہم وادراک کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ طالب علم اس طرح اپنے مقصد کو باآسانی حاصل کرسکتے ہیں وہ اپنے تحقیقی مسائل اور مشکل ترین تصورات کو سمجھ سکتے ہیں۔
گویا رمضان میں اللہ رب العالمین نے بندہء مومن کے غور وفکر کے لیے اس پہلو سے بھی سازگار ماحول تیار کیا ہے کہ وہ اس روحانی ماحول میں قرآن پر بہتر طریقے سے تدبر کرے۔یہ قرآن کو اس کے حق کے ساتھ پڑھنے بہترین موقع ہے۔
بشرطیکہ روزہ دار کو اس بات کا شعور ہو کہ رمضان کی عبادت کن مقاصد کے لیے رکھی گئی ہے۔؟رب کریم نے تقوی ، عرفان ذات اور خدا خوفی، جوابدہی کے احساس کے لیے رمضان کو انسان کے لیے ساز گار بنایا اس نہج پر سوچتے ہوئے مومن اپنی ذات کو سنوارنے کی جانب پیش قدمی کرسکتا ہے۔
جس بندہ پر اللہ کے سامنے بازپرس کا احساس اجاگر ہوتا ہے اس کا ذہن اللہ کے دین کے لیے وقت اور صلاحیت لگانے کے لیے نئی نئی جہتیں تلاش کرتا ہے، اس کا احساس اس کو لمحۂ موجود میں زندہ رکھتا ہے جمود اس پر طاری نہیں ہوتا،نہ اعضاء و جوارح کا جمود، نہ ہی افکار و نظریات و تخیل پر جمود۔۔۔اپنی مادی زندگی میں مست رہنے کی کیفیت سے وہ نکل آتا ہے اسے ہر گرزتا لمحہ دعوت فکر و عمل دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے گویا خود کلامی کررہا ہوکہ
” دم نہیں لیں گے تکمیل سفر ہونے تک ۔۔
جس طرح کسان کی کھیتی اسے اشارہ کرتی ہے کہ زمین کتنی فصل دے گی کونسی دوا لازم ہوگی ، کونسے خود رو پودوں کی صحبت سے فصل کو دور رکھنا چاہیے؟
اسی طرح بندۂ مومن کو بھی اپنی طبیعت اپنے میلان و رجحان کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ لیتا ہے کہ کونسی سرگرمیاں تضییعِ اوقات کا سبب بن رہی ہیں کونسے عوامل غیر محسوس طریقے سے اس کو اور اسکی نسلوں کو خدا بیزاری کی جانب لے جارہے ہیں وہ نہ صرف زمانے کے مکر و فریب سے آشنا رہتا ہے بلکہ زمانے سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے دین کا محافظ بننے لگتا ہے ۔اور یہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ وہ زمانے کی اس فریم میں اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے کس حد تک نفع بخش ہوسکتا ہے ۔
عبادت برائے عبادت نہ ہو بلکہ رمضان کے اختتام تک احساس ہوجائے کہ اللہ رب العالمین نے اس سر زمین پر اسے عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا ہے وہ اپنی حرکت وعمل کے لیے اپنی راہ متعین کرنے لگے۔
مقصد زندگی کا شعور، صلاحیتوں کا ادراک، اور زمانے کی چال کو سمجھ کر قرآن کی روشنی میں اپنی حکمت ِ عملی کو طئےکرنا۔
یہ احساس ہی دراصل مومن کا عظیم اثاثہ ہے۔
اس اثاثہ کی تلاش کے لیے رمضان بہترین موقع ہے ہم میں سے کوئی شخص اس موقع کو نہ کھوئے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱