ریحان کا جذبہ
ریحان پچھلے کئی دنوں سے محسوس کر رہا تھا کہ اس کے پیارے استاد شفقت حسین سر، پریشان لگ رہے ہیں۔ آ ن لائن لیکچر میں پڑھاتے پڑھاتے وہ کہیں کھو جاتے ہیں، محلہ کی مسجد میں وہ بوجھل قدموں کے ساتھ آتے ہیں اور نمازیوں کے چلے جانے کے بعد بھی دعا میں ہاتھ اٹھائے دیر تک بیٹھے رہتے ہیں۔ کہیں راستے میں ملتے اور ریحان انہیں سلام کرتا تو بے خیالی میں جواب دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ریحان کئی دنوں تک اسی کشمکش میں مبتلا رہا کہ وہ اپنے پسندیدہ استاد کی پریشانی کا پتہ کیسے لگائے؟ اور اسے کیسے دور کرے؟ شفقت سر اس کے پسندیدہ استاد تھے۔ ان کی عمر پینتیس سے چالیس کے درمیان ہوگی۔ ان کے چہرے سے سنجیدگی و متانت جھلکتی تھی۔ وہ ساتویں جماعت سے اسے اردو پڑھا رہے تھے۔ ان کے پڑھانے کا انداز ہی تھا، جس کی بدولت ریحان اردو زبان میں غیر معمولی دل چسپی لینے لگا تھا۔ وہ ان سے اردو کے بارے میں سوالات کرتا تو تسلی بخش جوابات پا کر اس کی دلچسپی مزید بڑھ جاتی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ کچھ مہینوں بعد شفقت سر ریحان کے محلے میں ہی منتقل ہوگئے۔ ریحان اور شفقت سر کے تعلقات بہتر ہوتے گئے۔ اب اسکول کے علاوہ راستوں اور مسجد میں بھی ریحان اور شفقت سر کی ملاقات ہوجاتی۔ اکثر ان دونوں کی گفتگو کا موضوع اُردو زبان و ادب ہوتا۔ ان کی ایما پر ریحان نے اُردو اخبارات اور رسائل پڑھنا شروع کر دیے اور اس اردو پر اس کی پکڑ مضبوط ہو گئی۔ اب وہ اپنے ہم جماعتوں کے مقابلے اچھی اردو بول لیتا تھا۔ اردو میں اس کے نمبر بھی بہتر آنے لگے تھے۔ شفقت سر کی رہنمائی میں دھیرے دھیرے اس نے اردو ادب اور شاعری کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ ضرور اردو ادب میں پی ایچ ڈی کرے گا۔ صرف دو سال کے عرصے میں ریحان میں یہ تغیر لانے والے شفقت حسین سر تھے، جو آج کل پریشان تھے۔
ایک دن ریحان ایک کلاسیکی ناول لیے شفقت سر کے گھر پہنچا۔ اسے ناول کے کچھ جملوں کا مطلب سمجھنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس کی یہ دشواری شفقت سر دور کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ اس سلسلے میں ان کی مدد لے چکا تھا۔کتابوں کے لین دین کے سلسلے میں بھی وہ شفقت سر کے گھر کئی دفعہ جا چکا تھا۔ شفقت سر بھی مطالعہ کے شوقین تھے۔ ان کے گھر میں چھوٹی سی لائبریری بھی تھی جہاں اردو اور انگریزی کی کتابیں سلیقے سے رکھی ہوئی تھیں۔ وہ اور ان کے گھر والے بڑے ملنسار تھے۔ سر کے گھر میں ان کے علاوہ بیوی، دو بچے اور بیمار والدہ رہائش پذیر تھے۔ مسلسل آنے جانے سے وہ تمام بھی ریحان کو پہچاننے لگے تھے۔
برآمدے سے گزر کر ریحان دروازے کے قریب پہنچا تو اس نے اندر ہونے والی گفتگو سنی اور اس کے قدم رک گئے۔
’’گھر میں راشن ختم ہو گیا ہے۔ کب تک میں دکان دار سے ادھار مانگتی رہوں گی؟ ‘‘اب اس نے بھی صاف جواب دے دیا ہے۔
’’اماں کی دوائیں بھی ختم ہوگئیں ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا، پیسوں کا انتظام کیسے کروں؟ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول انتظامیہ بھی تنخواہ نہیں دے رہی ہے۔‘‘ یہ شفقت سر کی درد بھری آواز تھی۔ان کی اداسی بھری آواز سن کر ریحان کو بہت دکھ ہوا۔بہو اور بیٹے کی گفتگو سن کر شفقت سر کی والدہ کراہنے لگیں۔
ریحان اب پورا ماجرا سمجھ چکا تھا۔ اس نے اخبار میں پڑھا تھا کہ لاک ڈاؤن میں اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔ اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ بظاہر خوش باش نظر آنے والے شفقت سر بھی اس مصیبت سے دوچارہوںگے۔ اندر خاموشی چھاگئی۔ ریحان آگے بڑھا اور دروازے پر دستک دی۔
’’آجاؤ!‘‘ شفقت سر کا جواب ملا اور وہ گھر میں داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر شفقت سر خوش ہوگئے۔ انہیں بھی اپنے قابل طالب ِعلم سے بہت لگاؤ ہوگیا تھا۔ ان کی بزرگ والدہ کا چہرہ بھی خوشی سے کھِل اٹھا۔ انہیں ریحان میں اپنے بیٹے شفقت کا بچپن دکھائی دیتا تھا، اس لیے وہ ریحان کو بہت چاہنے لگی تھیں۔
ریحان کی دشواری شفقت سر نے فوراً حل کردی۔ ریحان نے ان کی باتیں اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیں۔ اس نے سر سے اجازت طلب کی۔ شفقت سر نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’اِتنی جلدی کہاں چلے؟ چائے پیتے جاؤ۔‘‘ ان کی والدہ بھی اصرار کرنے لگیں۔ لیکن اسے سر کے مالی حالات کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اس نے معذرت کی اور چلا آیا۔
گھر آکر ریحان دوڑا دوڑا اپنے کمرے میں گیا اور الماری میں رکھی اپنی پاکٹ منی گننے لگا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دکانیں اور ہوٹل وغیرہ بند تھے، جس کی وجہ سے ریحان اپنا جیب خرچ استعمال نہیں کر پایا تھا۔ اس نے پیسے گنے، کل دو ہزار روپے نکلے۔ اسی وقت کمرے میں ریحان کی والدہ رحمت النساء بیگم داخل ہوئیں۔ وہ شہر کی معروف کالج میں معاشیات کی پروفیسر تھیں۔ اُنہوں نے ریحان کو پیسے گنتے دیکھا توقدرے فکر مند ہوئیں۔ریحان سے دریافت کیا تو ریحان نے انہیں سارا ماجرا بتا دیا۔ وہ ریحان کی استاد کے تئیں محبت اور مدد کا جذبہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے اپنی طرف سے ریحان کو تین ہزار روپے دیے۔ ریحان کے والدراشد صاحب ایک کمپنی میں منیجر تھے۔ انہیں اپنے اکلوتے بیٹے کے نیک ارادے کی خبر ہوئی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے پانچ ہزار روپے دے کر ریحان کی ہمت افزائی کی۔ اپنے والدین کی جانب سے مدد اور حوصلہ افزائی پا کر ریحان بہت خوش ہوا۔ اس کے پاس دس ہزار کی بڑی رقم جمع ہوگئی تھی، جو شفقت سر کی مدد کے لیے کافی تھی۔ اس نے تمام پیسے سنبھال کر ایک باکس میں رکھے اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ محلے میں گھپ اندھیرا ہوچکا تھا۔ ریحان گھر سے نکلا اور دبے پاؤں شفقت سر کے گھر پہنچا۔ برآمدے میں تھوڑی روشنی تھی ۔ ریحان کو پتہ تھا کہ شفقت سر کے گھر والے ساڑھے دس بجے تک سو جاتے ہیں، لیکن شفقت سر ساڑھے گیارہ بجے تک مطالعہ میں غرق رہتے ہیں۔ ریحان نے پیسوں کا بکس دروازے کے پاس رکھا اور شفقت سر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’کون ہے؟‘‘ گہرے سناٹے میں شفقت سر کی بھاری آواز گونجی۔ ریحان اپنے گھر کی طرف دوڑ گیا۔
اس رات ریحان اور شفقت سر، دونوں سکون کی نیند سوئے

اس نے اخبار میں پڑھا تھا کہ لاک ڈاؤن میں اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔ اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ بظاہر خوش باش نظر آنے والے شفقت سر بھی اس مصیبت سے دوچارہوں گے۔ اندر خاموشی چھاگئی۔ ریحان  آگے بڑھا اور دروازے پر دستک دی۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١