خوش اسلوبی سے وراثت کی تقسیم
شریعت اس کی بھی اجازت دیتی ہے کہ وراثت کے مستحقین میں سے کوئی اگر اپنی آزاد مرضی سے، بغیر کسی دباؤ کے، اپنا حصہ مکمل یا جزوی طور پر چھوڑنا چاہے یا کسی دوسرے مستحق وراثت کو دینا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔
سوال:
میرے شوہر کا چند روز پہلے انتقال ہوا ہے۔ وارثین میں میرے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ دونوں کی شادی ہو چکی ہے۔ وراثت میں ایک گھر ہے۔اسے ہم نے بہت مشکل سے شوہر کی زندگی میں زمین خرید کر بنایا تھا۔ اب اسے فروخت کرکے دونوں بچوں کو حصہ دوں تو ہم بے گھر ہوجائیں گے اور ہمارے لیے دوسرا کوئی مکان خریدنا ممکن نہیں ہوگا۔
کیا میں بیٹے کو گھر دے کر بیٹی کو اس کے حصے کے بہ قدر پیسہ ادا کرنے کی وصیت کر سکتی ہوں؟ میں بیٹے کے حق میں اپنے حصے سے دست بردار ہو کر اس گھر کو باقی رکھنا چاہتی ہوں۔ بیٹی کے حصے کی قسط میرا بیٹا ہر ماہ صرف پانچ ہزار روپے ہی دے سکتا ہے۔ اس کی تنخواہ کم ہے۔ کیا یہ طریقہ شرعی اعتبار سے قابل قبول ہے؟
جواب:
کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی ملکیت کی تمام چیزیںنقد رقم، مکان ، دکان، مالِ تجارت ،زمین جائیداد وغیرہ اس کے قریب ترین رشتے داروں میں تقسیم کی جانی چاہییں۔ ورثہ میں اگر صرف بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہو تو بیوہ کا آٹھواں حصہ ہوگا۔ باقی کے تین حصے کیے جائیں گے۔ دو (۲) حصے لڑکے کو اور ایک(1) حصہ لڑکی کو دیا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں بیوہ کا حصہ 12.5%، بیٹے کا حصہ 58.3%اور بیٹی کا حصہ 29.2%ہوگا۔
وراثت کی تقسیم جلد ہونی چاہیے۔ بغیر کسی معقول عذر کے اسے ٹالنا مناسب نہیں۔ تقسیم وراثت میں تاخیر کرنے سے مختلف مسائل سر ابھارتے ہیں اور بعض مستحقین کے دلوں میں کدورت اور شکایت پیدا ہوتی ہے۔ البتہ اگر مستحقین وراثت کسی معقول وجہ سے اس کی تقسیم کو کچھ دنوں کے لیے ٹالنا چاہیں تو اس کی اجازت ہے۔
شریعت اس کی بھی اجازت دیتی ہے کہ وراثت کے مستحقین میں سے کوئی اگر اپنی آزاد مرضی سے، بغیر کسی دباؤ کے، اپنا حصہ مکمل یا جزوی طور پر چھوڑنا چاہے یا کسی دوسرے مستحق وراثت کو دینا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔
وراثت میں اگر کوئی مکان ہو تو مستحقین کے درمیان اس کے حصے تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ اسے فروخت کر دیا جائے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم تقسیم کر لی جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی قیمت نکال لی جائے، پھر کوئی ایک مستحق پورا مکان لے لے اور دوسرے مستحقین کو ان کے حصوں کے بہ قدر رقم ادا کردے۔
آپ نے جو صورت لکھی ہے کہ مکان چھوٹا ہے، اسے بڑے ارمانوں سے آپ کے شوہر نے تعمیر کیا تھا اور اسے فروخت کرنے کی صورت میں آپ کے بیٹے اور آپ کے لیے دوسرا مکان خریدنا ممکن نہیں تو ایسی صورت میں شرعی اعتبار سے یہ طریقہ قابلِ عمل ہے کہ مکان کی مالیت نکال لی جائے اور اس میں سے بیٹی کا حصہ (29.2%)اس کو ادا کر دیا جائے۔ آپ اپنا حصہ اپنے بیٹے کو ہبہ کر سکتی ہیں۔ بیٹی کی مرضی سے یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس کا بھائی قسطیں مقرر کرلے اور ہر ماہ ایک قسط ادا کر دیا کرے۔
مستحقینِ وراثت اگرہم دردانہ طور پر کسی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہوگا اور خوش اسلوبی سے وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

3 Comments

  1. محمد افضل لون ولد عبد الرحمن لون سرینگر کشمیر

    بالکل صحیح۔ یہ سب سے بہترین اور اچھا طریقہ ہے

    Reply
  2. مزمل بھائی

    میرا ماننا ہے کہ اس طریقے میں بیٹی کے ساتھ ظلم لازم آتا ہے ، کیوں کہ اس کے حصے کے 29 فیصد حصےکو حاصل کرنے میں اسے سالوں لگ جائیں گے اور اس کو کچھ معتدبہ بھی فائدہ حاصل نہ ہوگا سوائے اس کے کی اپنی مالکانہ جاگیر/رقم کو حاصل کرنے میں اسے تاخیر ہوئی۔
    اس کی ایک بہتر صورت یہ ہوسکتی ہے ہے کہ گھر کا 29 فیصد حصہ لڑکی کا ہو جائے اس کے نام کا ہو جائے آئے اور لڑکا اس کو کو کرائے کی قیمت دے اور مزید اس سے تھوڑے تھوڑے ٹکڑے مکان کے خریدتا جائے۔ اس سے لڑکی کی ملکیت بھی کامل ہوگی گی کی لڑکا بھی بھی ظلم سے محفوظ رہے گا

    Reply
    • محمد یعقوب خان

      لڑکی کی مرضی سے ہوسکتا ہے. بصورت دیگر نہیں ہوگا

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١