ایک طرف جہاں سماج میں خواتین کا قدیم زمانے سے استحصال کیا جاتارہا ہے، ان کی عزت اور عصمت سے کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے اور ان کی عزت کو پامال کیا جاتا رہا ہے، تو وہیں دوسری طرف روشن خیال لوگوں نے ’آزادی‘ کے نام پر ان کو بازار کی زینت بنا دیا ہے، وہ گھروں میں محفوظ تھیں، انھیں راستوں اور بازاروں میں لاکر برہنہ کردیا ہے۔ آئے دن اخبارات کی سرخیاں خواتین پر ظلم و ستم کی داستانوں سے بھری رہتی ہیں۔
یہ بات حقیقت ہے کہ خواتین کی حقوق کی حفاظت اسی وقت ہو سکتی ہے، جب ان احکامات پر عمل ہو، جو فطری اور ایسی ہستی کے بنائے گئے ہوں جو تمام جہانوں کا مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کے نازل کردہ قوانین و احکامات کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنانے میں، انسانیت کو سوائے رسوائی کے کوئی چیز ہاتھ نہیں آئے گی۔
معروف عالم دین اور دانش ور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی یہ تصنیف اسی موضوع سے بحث کرتی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اسلام کے ان احکام و قوانین کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے، جو عورت کے تحفظ سے متعلق ہیں۔ ساتھ ہی ان غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی ہے، جو اسلام سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں۔
کتاب کے ابتدا میں موجودہ حالات سے متعلق صاحب کتاب لکھتے ہیں:
’’موجودہ دور میں ایک سماجی مسئلہ، جس نے ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر گمبھیر صورت اختیار کرلی ہے، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی اور عصمت دری ہے۔ وہ اپنوں اور پرایوں دونوں کی جانب سے زیادتی اور دست درازی کا شکار ہیں۔ کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ گھر ہو یا دفتر، پارک ہو یا بازار، ٹرین ہو یا بس، ہر جگہ ان کی عصمت پر حملے ہو رہے ہیں اور انھیں بے آبرو کیا جا رہا ہے۔ کبھی معاملہ عصمت دری پر رک جاتا ہے تو کبھی ظلم کی شکار خاتون کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی آبروریزی کی ہے، جس میں کئی نوجوان مل کر کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں، پھر بڑے درد ناک طریقے سے اسے قتل کردیتے ہیں۔‘‘(ص 7)
یوں تو آئے دن خواتین کے ساتھ عصمت دری اور جنسی استحصال کے واقعات دل دہلا دیتے ہیں، لیکن 2012ء کے نربھیا واقعہ نے بھی پوری انسانیت کا سکون کو ختم کردیا تھا۔ اسی طرح 2017ء میں لکھنؤ چنڈی گڑھ ٹرین میں بجنور کے قریب ہوئے ایک روزہ دار مسلم خاتون کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعے نے انسانیت کو شرمسار کرڈالا تھا۔گنتی کے صرف چند واقعات ہی عام لوگوں کے سامنے آتے ہیں، ورنہ روزانہ بے شمار لڑکیاں ظالموں کی ہوس کا شکار بنتی ہیں، جو اپنی اور گھر والوں کی آبرو کی حفاظت ظالموں کے خلاف شکایت درج نہ کرنے میں سمجھتی ہیں۔ ایسے مواقع پر انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے لوگ سامنے آتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اسلام میں زنا کی سزاکو بہت سخت کہتے ہیں، لیکن جب حالات ان کے ساتھ گزرتے ہیں تو انھیں اندازا ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات ہی بر حق ہیں۔ عصمت دری کے واقعات اور اسلامی سزائے زنا کے متعلق مولانا رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں:
’’یہ واقعات اب اتنی کثرت سے پیش آنے لگے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن انہی کے درمیان کبھی کوئی درد ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو عوام بیدار ہوجاتے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اس موقع پر ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں۔ مثلاً مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیاجاتا ہے، سخت سے سخت قوانین بنانے کی بات کہی جاتی ہے، کڑی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور مضبوط سیکورٹی فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو جوڈو کراٹا سیکھنے اور خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اطراف سے ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ زنا کی وہ سزا نافذ کی جائے جو اسلام نے تجویز کی ہے۔ اسی بات کو بعض لوگ ان الفاظ میں کہتے ہیں کہ سزائے زنا کے لیے عرب ملکوں جیسا قانون بنایا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبے ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں، جو اسلام کے شدید مخالف ہیں، جو اسلام پر اعتراضات کرنے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن چوں کہ انھوں نے کہیں سے سن رکھا ہے کہ اسلام زنا کرنے والے کو پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے، اور جرم کی سنگینی کی بنا پر یہ سزا ان کے دل کی آواز ہوتی ہے، اس لیے ان کے اندرون میں چھپی خواہش ان کی زبان پر آجاتی ہے اور وہ خواہی نہ خواہی اسلام کا نام لینے لگتے ہیں۔‘‘(ص 8)
اس کے بعد کتاب پاکیزہ معاشرت سے متعلق: پورے اسلامی نظام کا نفاذ ضروری ہے، صرف جنس کے ذریعہ خواہش پوری کی جائے، نکاح کی ترغیب اور اسے آسان بنایا جائے، تعددِّ ازدواج کی اجازت، اللہ ہر جگہ موجود ہے، جذبۂ حیا کا فروغ اور آخرت میں دنیا کے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا، جیسے اہم موضوعات سے بحث کرتی ہے۔
صاحب کتاب نے معاشرے کی پاکیزگی کے لیے چند احتیاطی تدابیر پیش کی ہیںاور بتایا ہے کہ یہ تدابیر افراد کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رکھتی ہیں اور جنسی جرائم کے تمام ممکنہ چور دروازوں کو بند کرتی ہیں۔ یہ تدابیر درج ذیل ہیں:
1۔ نگاہیں نیچی رکھی جائیں
2۔ نامحرم کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کی جائے
3۔ آزادانہ اختلاط پسندیدہ نہیں ہے
4۔ خواتین بغیر محرم کے سفرنہ کریں
6۔ لباس ساتر ہو اور
7۔ پردہ کا خصوصی خیال رکھا جائے
درج بالا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے خواتین کے خلاف جرائم میں کمی واقع ہوگی اور وہ خود کو محفوظ کریں گی، ان شاء اللہ۔ (ص 21تا 26)
کتاب کے آخر میں اسلامی احکام اور تعلیمات سے متعلق مولانا لکھتے ہیں:
’’معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کی یہ تعلیمات محض نظری نہیں ہیں، بلکہ ان پر عمل ہوچکا ہے اور دنیا نے ان کے اثرات کا اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ عرب کا معاشرہ فسق و فجور کے دلدل میں غرق تھا، برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا تھا، عصمت و عفّت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے، شراب ان کی گھٹّی میں پڑی تھی۔ اسلام کی ان تعلیمات کے نتیجے میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوگئیں، اخلاقی قدروں کو ان کے درمیان فروغ ملااور عورت کو عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ بعد کے ادوار میں جہاں جہاں ان تعلیمات پر عمل کیا گیا اور ان احکام کو نافذ کیا گیا وہاں سماج پر ان کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔ آج بھی جو لوگ سماج میں برائیوں کو پنپتا دیکھ کر فکر مند ہیں اور آبرو ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی سزا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے نافذ کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو انھیں پورے اسلامی نظام معاشرت کو قبول کرنا اور اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، تبھی مطلوبہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھی جاسکتی ہے۔‘‘ (ص 31)
اس کتاب کے مطالعے سے جہاں خواتین کو ان اسلامی احکام کا علم ہوتا ہے، جن پر عمل کرکے وہ برائیوں سے اور لوگوں کے شر سے محفوظ رہ سکتی ہیں، وہیں وہ اس بات سے بھی آگاہ ہوتی ہیں کہ انھیں ذاتی طور پر اپنے تحفظ کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ یہ کتاب خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق سے متعلق قیمتی معلومات کا خزانہ ہے۔ خواتین کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ خواتین کی حقوق کی حفاظت اسی وقت ہو سکتی ہے، جب ان احکامات پر عمل ہو، جو فطری اور ایسی ہستی کے بنائے گئے ہوں جو تمام جہانوں کا مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کے نازل کردہ قوانین و احکامات کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنانے میں، انسانیت کو سوائے رسوائی کے کوئی چیز ہاتھ نہیں آئے گی۔
معروف عالم دین اور دانش ور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی یہ تصنیف اسی موضوع سے بحث کرتی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اسلام کے ان احکام و قوانین کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے، جو عورت کے تحفظ سے متعلق ہیں۔ ساتھ ہی ان غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی ہے، جو اسلام سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں۔
کتاب کے ابتدا میں موجودہ حالات سے متعلق صاحب کتاب لکھتے ہیں:
’’موجودہ دور میں ایک سماجی مسئلہ، جس نے ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر گمبھیر صورت اختیار کرلی ہے، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی اور عصمت دری ہے۔ وہ اپنوں اور پرایوں دونوں کی جانب سے زیادتی اور دست درازی کا شکار ہیں۔ کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ گھر ہو یا دفتر، پارک ہو یا بازار، ٹرین ہو یا بس، ہر جگہ ان کی عصمت پر حملے ہو رہے ہیں اور انھیں بے آبرو کیا جا رہا ہے۔ کبھی معاملہ عصمت دری پر رک جاتا ہے تو کبھی ظلم کی شکار خاتون کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی آبروریزی کی ہے، جس میں کئی نوجوان مل کر کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں، پھر بڑے درد ناک طریقے سے اسے قتل کردیتے ہیں۔‘‘(ص 7)
یوں تو آئے دن خواتین کے ساتھ عصمت دری اور جنسی استحصال کے واقعات دل دہلا دیتے ہیں، لیکن 2012ء کے نربھیا واقعہ نے بھی پوری انسانیت کا سکون کو ختم کردیا تھا۔ اسی طرح 2017ء میں لکھنؤ چنڈی گڑھ ٹرین میں بجنور کے قریب ہوئے ایک روزہ دار مسلم خاتون کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعے نے انسانیت کو شرمسار کرڈالا تھا۔گنتی کے صرف چند واقعات ہی عام لوگوں کے سامنے آتے ہیں، ورنہ روزانہ بے شمار لڑکیاں ظالموں کی ہوس کا شکار بنتی ہیں، جو اپنی اور گھر والوں کی آبرو کی حفاظت ظالموں کے خلاف شکایت درج نہ کرنے میں سمجھتی ہیں۔ ایسے مواقع پر انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے لوگ سامنے آتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اسلام میں زنا کی سزاکو بہت سخت کہتے ہیں، لیکن جب حالات ان کے ساتھ گزرتے ہیں تو انھیں اندازا ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات ہی بر حق ہیں۔ عصمت دری کے واقعات اور اسلامی سزائے زنا کے متعلق مولانا رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں:
’’یہ واقعات اب اتنی کثرت سے پیش آنے لگے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن انہی کے درمیان کبھی کوئی درد ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو عوام بیدار ہوجاتے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اس موقع پر ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں۔ مثلاً مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیاجاتا ہے، سخت سے سخت قوانین بنانے کی بات کہی جاتی ہے، کڑی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور مضبوط سیکورٹی فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو جوڈو کراٹا سیکھنے اور خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اطراف سے ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ زنا کی وہ سزا نافذ کی جائے جو اسلام نے تجویز کی ہے۔ اسی بات کو بعض لوگ ان الفاظ میں کہتے ہیں کہ سزائے زنا کے لیے عرب ملکوں جیسا قانون بنایا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبے ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں، جو اسلام کے شدید مخالف ہیں، جو اسلام پر اعتراضات کرنے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن چوں کہ انھوں نے کہیں سے سن رکھا ہے کہ اسلام زنا کرنے والے کو پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے، اور جرم کی سنگینی کی بنا پر یہ سزا ان کے دل کی آواز ہوتی ہے، اس لیے ان کے اندرون میں چھپی خواہش ان کی زبان پر آجاتی ہے اور وہ خواہی نہ خواہی اسلام کا نام لینے لگتے ہیں۔‘‘(ص 8)
اس کے بعد کتاب پاکیزہ معاشرت سے متعلق: پورے اسلامی نظام کا نفاذ ضروری ہے، صرف جنس کے ذریعہ خواہش پوری کی جائے، نکاح کی ترغیب اور اسے آسان بنایا جائے، تعددِّ ازدواج کی اجازت، اللہ ہر جگہ موجود ہے، جذبۂ حیا کا فروغ اور آخرت میں دنیا کے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا، جیسے اہم موضوعات سے بحث کرتی ہے۔
صاحب کتاب نے معاشرے کی پاکیزگی کے لیے چند احتیاطی تدابیر پیش کی ہیںاور بتایا ہے کہ یہ تدابیر افراد کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رکھتی ہیں اور جنسی جرائم کے تمام ممکنہ چور دروازوں کو بند کرتی ہیں۔ یہ تدابیر درج ذیل ہیں:
1۔ نگاہیں نیچی رکھی جائیں
2۔ نامحرم کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کی جائے
3۔ آزادانہ اختلاط پسندیدہ نہیں ہے
4۔ خواتین بغیر محرم کے سفرنہ کریں
6۔ لباس ساتر ہو اور
7۔ پردہ کا خصوصی خیال رکھا جائے
درج بالا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے خواتین کے خلاف جرائم میں کمی واقع ہوگی اور وہ خود کو محفوظ کریں گی، ان شاء اللہ۔ (ص 21تا 26)
کتاب کے آخر میں اسلامی احکام اور تعلیمات سے متعلق مولانا لکھتے ہیں:
’’معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کی یہ تعلیمات محض نظری نہیں ہیں، بلکہ ان پر عمل ہوچکا ہے اور دنیا نے ان کے اثرات کا اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ عرب کا معاشرہ فسق و فجور کے دلدل میں غرق تھا، برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا تھا، عصمت و عفّت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے، شراب ان کی گھٹّی میں پڑی تھی۔ اسلام کی ان تعلیمات کے نتیجے میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوگئیں، اخلاقی قدروں کو ان کے درمیان فروغ ملااور عورت کو عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ بعد کے ادوار میں جہاں جہاں ان تعلیمات پر عمل کیا گیا اور ان احکام کو نافذ کیا گیا وہاں سماج پر ان کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔ آج بھی جو لوگ سماج میں برائیوں کو پنپتا دیکھ کر فکر مند ہیں اور آبرو ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی سزا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے نافذ کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو انھیں پورے اسلامی نظام معاشرت کو قبول کرنا اور اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، تبھی مطلوبہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھی جاسکتی ہے۔‘‘ (ص 31)
اس کتاب کے مطالعے سے جہاں خواتین کو ان اسلامی احکام کا علم ہوتا ہے، جن پر عمل کرکے وہ برائیوں سے اور لوگوں کے شر سے محفوظ رہ سکتی ہیں، وہیں وہ اس بات سے بھی آگاہ ہوتی ہیں کہ انھیں ذاتی طور پر اپنے تحفظ کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ یہ کتاب خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق سے متعلق قیمتی معلومات کا خزانہ ہے۔ خواتین کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
معروف عالم دین اور دانش ور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی یہ تصنیف اسی موضوع سے بحث کرتی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اسلام کے ان احکام و قوانین کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے، جو عورت کے تحفظ سے متعلق ہیں۔ ساتھ ہی ان غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی ہے، جو اسلام سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہیں۔
ویڈیو :
آڈیو:
Comments From Facebook
0 Comments