نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج
بھا رت دیہاتوں کا ملک ہے۔ دیہات، اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتے ہیں۔ بھارت کی کل آبادی کا 72فیصدحصہ دیہاتوں میں رہتا ہے، 2011کی مردم شُماری اسے واضح کرتی ہے۔ قدیم بھا رتی ادب پران کے مطابق ایسی انسانی رہائش گاہ جس کے اطراف کی زمین ز راعت اور کاشتکاری کے لیے موزوں ہو، وہاں بسنے والی آبادی کا معاشی انحصار اسی پر ہو یا اس سے جڑے دوسرے پیشوں پر ہو، دیہات کہلاتا ہے۔
عام طور پر زراعت کرنے والے کو کسان کہتے ہیں۔ لیکن ماہرین نے اس کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ دیہات کے ایسے افراد جن کے پاس ایک ہیکٹر یا 2.47ایکر زمین ہو، کسان کہلاتے ہیں۔ اس سے زیادہ کے زمین کے مالک، زمین دار کہلاتے ہیں۔ 10سے 20 فیصد زمین داروں کے ماتحت 70فیصد زمین ہے۔ بھارت کی قومی آمدنی میں زراعت کا40فیصد حصہ ہے۔
آج ملک کی ریڑھ کی ہڈی کمزور سے کمزور ہو تی جا رہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ملک میں کسانوں کی صورتِ حال تشویش ناک ہوتی جارہی ہے۔ ملک میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں تقریباً ساڑھے سترہ ہزار کسانوں نے خودکشی کی ہے اور اسی طرح روز بروز یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔ 2015 تک ہر ایک لاکھ میں ایک اعشاریہ چار سے آٹھ اعشاریہ ایک، کسانوں میں یہ شرح دیکھی گئی ہے۔ آج مرکزی حکومت کسانوں کی فلاح وبہبود کے نام پر ان کا استحصال کر رہی ہے۔ اب تک ساہوکار ،کسانوں کے استحصال کے ذمے دار مانے جاتے تھے، مگر اب حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ کسانوں کی خودکشی کی وجوہات میں 1991کی پالیسی آف لیبرریلیشن ایکٹ کو شامل کیا گیا ہے۔فی الحال 2020میں بھارت کی پارلیمنٹ کےذریعے منظور کردہ تین زرعی بلوں کے ذریعے کسانوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ بھارت وہ ملک ہے جہاں عوام ،سماجی اصلاح اور اپنی بات منوانے کی غرض سے تحریکات چلاتی ہیں اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ آج بھارت میں کسان تحریک جاری ہے۔ 2020جون کے وسط میں حکومت ہند نے زرعی مصنوعات کی فروخت، ذخیرہ اندوزی، زرعی مارکیٹنگ اور زرعی اصلاحات معاہدے سے تین فارم آرڈیننس نافذ کیے، جسے مختلف کسانوں کے گروہوں نے کسان مخالف قوانین کے طور پر بیان کیا ۔
آج ملک بھرمیں 500 سے زائد کسان تنظیمیں اس کی مخالفت میں احتجاج کررہی ہیں۔ یہ احتجاج پرامن ہے، جس کا آغاز 9 اگست 2020 کو ہواتھا اور ابھی بھی جاری ہے۔فارم بلوں کی منظور ی نے کسانوں کو مشتعل کردیا اور وہ اپنے حقوق کی مانگ کے لیے پرامن احتجاج کررہے ہیں۔ایک بل 15ستمبر 2020کو لوک سبھا اور دوسرا 18 ستمبر 2020کو منظور ہوا تھا۔ بعد ازاں 20ستمبر2020کو راجیہ سبھا نے دو بل اور تیسرا 22ستمبر کو منظور کیا۔ 28ستمبر کو صدر ہند نے بھی ان پر دستخط کر کے اپنی منظور ی دے دی اور اب یہ بل قانون میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ یہ قوانین حسب ذیل ہیں:
1۔کاشتکار پیداوار تجارت (ترغیبات اور سہولیات)ایکٹ 2020
2۔مختلف قسم کے معاہدے (اختیار اور تحفظ) ویلیو انشورنس اور فارم سروس ایکٹ 2020
3۔ضروری اشیاء ترمیمی ایکٹ 2020
بظاہر تو یہ قوانین کسانوں کی فلاح وبہبود کے مظہر ہیں، لیکن اس کے پیچھے پوشیدہ مقاصد کو کسان برادری اپنے لیے استحصال سمجھتی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانے کی غرض سے بھارت کی چند ریاستوں نے راکیش ٹکیٹ کی قیادت میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔ اس احتجاج میں پنجاب،ہریانہ، اترپردیش، کرناٹک، تامل ناڈو، اڑیسہ اور کیرالہ وغیرہ ریاستیں شامل ہیں۔
گزشتہ ایک سال سے کسان اپنے اس احتجاج کے دوران بہت سے مشکلات سے نبردآزما ہوئے اور آج بھی مختلف قسم کی تکالیف برداشت کررہے ہیں، لیکن ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ حکومت کے ساتھ متعدد مرتبہ مذاکرات بھی ہو چکے، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بلکہ حالیہ واقعہ نے سب کے رونگٹے کھڑے کر دیے جب ایک وزیر کے بیٹے نے کسانوں کو اپنی گاڑی سے روند ڈالا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی انسانیت سوز حرکت ہے، جس سے حکومت کا غرور اور عوام کی صورتِ حال واضح ہو تی ہے۔
رواں سال ستمبر میں موجودہ حکومت کے ذریعے منظور کیے گئے قوانین کے خلاف کسانوں اور حکومت کے مابین مذاکرات ہوئے، جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے۔اس دوران پنجاب، ہریانہ اور دیگر ریاستوں کے کسان وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہے اور بعض اوقات ٹرینیں روک کر بھی مطالبات منوانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم نومبر کے آخری ہفتے میں یہ احتجاج مزید منظم ہوا اور بڑی تعداد میں کسانوں نے دارالحکومت نئی دہلی کا رُخ کر لیا۔ البتہ انتظامیہ نے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روک دیا۔
اس دوران کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ جس کے بعد کسانوں نے ملک کے دیگر شہروں کو دہلی سے ملانے والی اہم شاہراہوں کو بلاک کر کے دھرنا دے دیا ہے اور مطالبات کی منظوری تک احتجاج ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
بھارت کی پارلیمان نے اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باوجود زرعی اصلاحات سے متعلق تین بل منظور کیے تھے۔حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا تھا کہ حکومت نے عجلت میں اپوزیشن کے تحفظات سنے بغیر بل منظور کرائے ہیں۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے نئ اصلاحات کو بھارت میں زرعی شعبے کی بہتری کے لیے سنگِ میل قرار دیا ہے، جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسے کسانوں کے حقوق پر ڈاکہ قرار دیا ہے۔
مذکورہ بل کے ذریعے زراعت میں نجی شعبے کے کردار کو بڑھایا گیا ہے۔ جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے کسان اپنی اجناس آزادانہ طور پر کھلی منڈیوں میں فروخت کر سکیں گے۔زرعی اصلاحات کے تحت نجی شعبوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ضروری اجناس کسانوں سے خرید کر مستقبل میں فروخت کے لیے ذخیرہ بھی کر سکتے ہیں۔ جب کہ اس سے قبل یہ حکومت خود کرتی تھی۔
نئے قوانین میں’کنٹریکٹ فارمنگ‘ کی اصطلاح بھی متعارف کرائی گئی ہے، جس میں خریدار کی ڈیمانڈ کے مطابق کاشت کار اجناس کاشت کریں گے۔ان اصلاحات سے اجناس کی فروخت، قیمت کے تعین اور ذخیرہ کرنے کے موجودہ قوانین کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
سب سے بڑی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ کسان اپنی اجناس مارکیٹ پرائز پر زرعی کاروبار سے وابستہ افراد، بڑے سپر اسٹورز اور آن لائن گروسری اسٹورز کو فروخت کر سکیں گے۔اس سے قبل کسان کم سے کم قیمت پر اجناس سرکاری گوداموں اور منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔
کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟
زرعی اصلاحات سے متعلق منظور کیے گئے تینوں بل فوری واپس لیے جائیں۔
زرعی اجناس کی امدادی قیمت سرکار متعین کرے اور وہی کسانوں سے اجناس خریدے اور اس عمل کو قانونی درجہ دیا جائے۔
اجناس کی امدادی قیمت سے متعلق ’سوامی ناتھ کمیشن‘ کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔
زرعی استعمال کے لیے ڈیزل کی قیمتوں میں 50 فی صد کمی کی جائے۔
کاشت کاری کے لیے بجلی کی کمرشیل قیمت مقرر کرنے کے بجائے جو فلیٹ ریٹ پہلے سے متعین ہیں، اسے ہی برقرار رکھا جائے۔
پورے بھارت میں کسان رہنماؤں پر درج کیے گئے مقدمات واپس لیے جائیں۔
ایئر کوالٹی کمیشن آرڈیننس 2020 فوری طور پر واپس لیا جائے۔
کسانوں کو تحفظات ہیں کہ قوانین میں تبدیلیوں سے سالہا سال سے اُنہیں حاصل سرکاری تحفظ ختم ہو جائے گا اور نجی شعبے کو کسانوں کا استحصال کرنے کا موقع مل جائے گا۔
ناقدین کسانوں کے بعض مطالبات کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ خاص طور پر ایئر کوالٹی کمیشن کے خاتمے کا مطالبہ، جو دارالحکومت نئی دہلی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
اس کمیشن کے تحت فصلوں کی باقیات جلانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد کو ذہن میں رکھ کر بنائے گئے ہیں اور ان کے نفاذ سے کسانوں کو منڈیوں میں’مڈل مین‘ سے نجات مل جائے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اجناس کی کم سے کم امدادی قیمت، یعنی مینیمم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) برقرار رہی گی، جب کہ منڈی کا نظام بھی چلتا رہے گا۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ مذکورہ قوانین ان چھوٹے کسانوں کی مدد کے لیے بنائے گئے ہیں، جو اپنی پیداوار کے لیے نہ تو سودے بازی کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
ان قوانین کے تحت کسان اپنی پیداوار کو منڈیوں کے باہر بھی ان لوگوں کو فروخت کر سکیں گے جو انہیں خریدنا چاہیں۔ وہ پرائیویٹ کمپنیوں سے بھی معاہدہ کر سکیں گے۔ اسے کنٹریکٹ فارمنگ کہتے ہیں۔
ان قوانین کے تحت کسان زرعی تاجروں یا نجی کمپنیوں کو مارکیٹ قیمتوں پر اپنی پیداوار کو فروخت کر سکیں گے۔ زیادہ تر کسان اپنی پیداوار حکومت کے زیرِ انتظام تھوک منڈیوں میں مقرر کردہ قیمت کے تحت فروخت کرتے رہے ہیں۔کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے اب بھی کوششیں جاری ہیں۔
بھارت کی کئی اپوزیشن جماعتیں، بشمول انڈین نیشنل کانگریس کسانوں کے اس احتجاج کی حمایت کر رہی ہیں۔

رواں سال ستمبر میں موجودہ حکومت کے ذریعے منظور کیے گئے قوانین کے خلاف کسانوں اور حکومت کے مابین مذاکرات ہوئے، جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے۔اس دوران پنجاب، ہریانہ اور دیگر ریاستوں کے کسان وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہے اور بعض اوقات ٹرینیں روک کر بھی مطالبات منوانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم نومبر کے آخری ہفتے میں یہ احتجاج مزید منظم ہوا اور بڑی تعداد میں کسانوں نے دارالحکومت نئی دہلی کا رُخ کر لیا۔البتہ انتظامیہ نے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روک دیا۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١