اقوام متحدہ نے یہ دن 20نومبر کو رائج کیا، جس کا مقصد دنیا بھر کے بچوں کو درپیش مسائل کا سدِّباب اور بچوں کی فلاح و بہبود میں بہتری لانا طے ہوا تاکہ بچے معاشرے کے مفید شہری بن سکیں ۔
اگر ہم بغور جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بچے ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ ہیں، جہاں وہ کھیل کود، تفریح، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، وہیں جبری مشقت، اغوا براائے تاوان اور جنسی تشدد جیسے قبیح و گھناؤنے معاشرتی افعال کا بھی تسلسل کے ساتھ شکار ہیں۔
بھارت کے دستور میں بچوں کے تحفظ کے لیے دفعات موجود ہیں:
دفعہ 15 کی رو سے ریاست کو خواتین اور بچوں کے لیے خصوصی سہولتیں فراہم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
دفعہ 24 کی رو سے 14 سال سے کم عمر بچوں کو کسی بھی جوکھم بھرے کام کے مقام پر ملازمت سے روک ہے۔
دفعہ 39 (C) کی رو سے بچوں کے استحصال، اخلاقی اور مادی محرومی پر روک ہے۔
دفعہ 45 کی رو سے کم عمر بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی سہولت کی وکالت کی گئی ہے ۔
پانچ سالہ منصوبوں میں بچوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دی گئی ہے ۔ بہت سے ممالک بچوں کے حقوق کے حوالے سے موجود بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں، مگر خاطر خواہ عمل نہیں ہوتا۔ ملکی آئین میں قوانین ہونے کے باوجود ان پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی بچوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ بن کر رہ گیا ہے۔ آئے روز بچوں پر جنسی تشدد، ہراسانی اور قتل کی خبریں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اعلیٰ حکام نے نوٹس لے لیا ہے اور جلد مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ لیکن ایک واقعے کی بازگشت کانوں سے نہیں جاتی کہ دوسرا واقعہ سر اٹھاتا ہے۔
بچوں پر تشدد کے کئی اقسام ہیں۔ جیسے گھریلو تشدد، جنسی تشدد، بچے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دینا، آن لائن تشدد وغیرہ۔ گھر میں بچے پر جنسی اور دوسرے طریقے سے تشدد، سوتیلے ماں باپ یا گھر میں آنے والے دوست و احباب، گھر کے ملازمین، ٹیوشن ٹیچرز کی طرف سے ہوتا ہے، گھر کے باہر اجنبیوں سے، دوست یا پڑوسیوں سے۔
بچوں پر کسی بھی طرح کا تشدد ہو تو اس کے فوری اور طویل مدتی دونوں طرح کے شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، دماغی نشوونما متأثر ہوتی ہے، اعصابی و مدافعتی نظام کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے، بچوں میں ادراکی صلاحیت پروان نہیں چڑھتی،ذہنی صحت کے مسائل ہوتے ہیں، خود کو نقصان پہنچانے والے اقدامات میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے یا دیگر بچوں پر تشدد کرنے کا رجحان فروغ پانے کے خدشات بھی ہو سکتے ہیں۔ ملک عزیز میں بچے کل آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ رکھتے ہیں، لیکن ان کے مفادات کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی۔ آئے دن ان کے حقوق پامال ہوتے رہتے ہیں، حالیہ دنوں میں کوڈ -19 کا اثر بھی پڑا ہے ۔عالمی اقتصادی فورم رپورٹ 2020 کے مطابق کوڈ – 19کا اثر بچوں پر اس طرح پڑا کہ ان کی تعلیمی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئیں اور ان پر ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہے۔حالیہ اگست تک دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ بچے تعلیمی ادارے بند ہونے سے اب بھی متاثر ہیں ۔
یومِ اطفال منانے کا مقصد بچوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کا خاتمہ، ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام، ان کی اچھی صحت کا خیال اور بچوں سے محنت طلب کاموں کی روک تھام ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بچے قوم کے معمار اور مستقبل کے قائد و ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ ان کی اعلیٰ تعلیم اور اچھی تربیت ہی ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کا سبب ہے۔ ایک صحت مند اور تناور درخت ہی خوش ذائقہ پھل اور خوشبو دار پھول دے سکتا ہے-
1۔حفاظتِ دین
2۔حفاظتِ عقل
3۔حفاظتِ جان
4۔حفاظتِ نسب
5۔حفاظتِ مال
ان میں دین کا ایک بہت بڑا مقصد نسب کی حفاظت ہے،جو کہ نکاح کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اگر نکاح کا عمل مفقود ہوجائے تو دین کا ایک بہت بڑا مقصد ادھورا رہ جائے گا۔ شریعت اسلامیہ نے حفاظتِ نسب کے ذریعے اللہ کے بندوں کو ان کے حقوق دلانے کا ایک بہترین انتظام فرمایاہے، تاکہ کوئی بچہ والدین کے پیار سے محروم نہ رہے، اسے باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا برابر ملتی رہے،اس کی اچھی تربیت کی جاسکے اور ساتھ ساتھ اس کے قریبی رشتہ داروں میں ایسے افراد موجود ہوں جو بچے کے درست رویے پر حوصلہ افزائی اور کوتاہیوں پر بروقت تنبیہ کرسکیں۔ اگر اس تصور کو نظر انداز کیا جائے تو بھلا بچہ کیا مستقبل سنوار سکے گا؟ اسے خیر و شر کا ادراک کون کرائے گا؟اسے معیاری تعلیم و تربیت کہاں سے دی جائے گی؟اسے ایک بھائی کا ساتھ اور بہن کی غم خواری کا احساس کون دلائے گا؟ یقیناً وہ ان محرومیوں کے سبب معاشرے میں سرکشی مچا کر دکھائے گا اور اپنی جہالت کا مخاطب ہر کس و ناکس کو بنائے گا۔
والدین پر بچوں کے سلسلے میں یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ جہاں بچوں کو اچھی زندگی کے لیے اچھی خوراک،عمدہ کپڑے اور زندگی کی دوسری اشیاء مہیا کریں،وہیں ان کی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا بھی بھرپور انتظام کریں۔نیز زندگی اور اس کے نشیب وفراز کے بارے میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے بچوں کو مستفید کریں تا کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ماہرین کے مطابق بچہ پیدائش کے بعد تربیت کے حوالے دو دور سے گزرتا ہے:
1۔بچپن کا دور:یہ دور ایک سال کی عمر سے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میں بچہ کے اندر براہِ راست تربیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی،کیوں کہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔
2۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور:اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیت کے لیے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھتا اور تعلیم و تربیت حاصل کرسکتا ہے۔
پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہیے اور اس عمر میں بچے کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کا حکم دینے میں سختی بھی نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کے لیے اچھا ماحول،پاکیزہ فضا اور مناسب دوست فراہم کرنا چاہیے؛تاکہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا رہے۔یہی وہ زمانہ ہے، جس میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرزِ عمل کو محفوظ کرلیتا ہے۔
دوسرے دور میں بچے کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہیے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہیے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہیے۔ نبی پاک ؐ نے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو، جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں نماز پر مارو جب وہ دس سال کے ہوں اور علیحدگی کردو ان کے درمیان خواب گاہ ہوں میں۔‘‘ (ابوداؤد) ان عمروں میں اگرچہ ان پر نماز فرض نہیں ہے، لیکن عادت ڈالنے کے لیے انہیں ابھی سے نمازی بنانے کی تاکید کی جارہی ہے۔
ایک دوسری روایت میں رسول اللہؐ کا ارشاد اس طرح مروی ہے کہ آپؐ نے میرے والد سے پوچھا:’’کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ سب لڑکے فرمانبرداری اور حسن سلوک میں برابر ہوں؟‘‘انھوں نے کہا:’’ ہاں، کیوں نہیں۔‘‘آپ ؐ نے ارشادفرمایا: ’’تب تو ایسا نہ کرو‘‘ (متفق علیہ)
یعنی تم بچوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہ لو گے اور برابری نہ کرو گے تو تمہارے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری میں بھی تمام بچے یکساں نہ ہوں گے، بلکہ جن بچوں میں محرومی کا احساس ہوگا اور وہ والدین کی طرف سے نا انصافی محسوس کریں گے، ان کے اندر والدین کی نافرمانی کا جذبہ ابھرے گا۔
ملکی آئین میں قوانین ہونے کے باوجود ان پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی بچوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ بن کر رہ گیا ہے۔ آئے روز بچوں پر جنسی تشدد، ہراسانی اور قتل کی خبریں،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔
0 Comments