قرآنی آیات اور عورت کا رتبہ (قسط: ٢)
فضیلت کے پہلو سے مرد و عورت کی درجہ بندی اپنے آپ میں غیر اسلامی اور غیر انسانی بات ہے۔ اس درجہ بندی کو بیان کرنے کی چھوٹی برائی یہ ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کی خوبیوں کو گنایا جائے، لیکن اس کی بڑی برائی یہ ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کی خامیوں کو بیان کیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مرد کے اندر عورت کے مقابلے میں زیادہ جسمانی قوت، زیادہ ذہانت اور زیادہ دور اندیشی و سنجیدگی ہوتی ہے، تو اس دعوے پر گفتگو کی جاسکتی ہے، گو کہ اس طرح کے اطلاقی دعوے عام طور سے ثابت نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کم تر ہوتی ہے کیوں کہ وہ کم عقل، ناقص الخلقت اور ناسمجھ ہوتی ہے تو یہ بہت زیادہ منفی بات ہوتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ نہایت منفی طرز بیان مسلمانوں کے روایتی لٹریچر میں کہیں کہیں نظر آتا ہے اور جگہ جگہ ان کے رویوں میں غالب ہوجاتا ہے۔
حقوق وواجبات کا پیمانہ یکساں ہے
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیهِنَّ دَرَجَةٌ ‎ (سورۃالبقرة :٢٢٨]
(عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے)
قرآن مجید میں شوہر اور بیوی پر مشتمل اجتماعیت کی رہ نمائی کے لیے دو اہم اصول دیے گئے۔ ایک اصول یہ کہ بیوی کے حقوق اس کی ذمے داریوں کے بقدر ہوں گے اور اسے شوہر کی صواب دید پر نہیں چھوڑا جائے گا، بلکہ درست عرف ورواج کی روشنی میں طے کیا جائے گا۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رواج کو جتنا بہتر کیا جائے گا، گھریلو حقوق اور ذمے داریوں کی وضاحت اتنی ہی اچھی طرح سے ہوجائے گی۔ بہرحال عورت کے ساتھ حقوق و واجبات کے سلسلے میں مکمل عدل کا معاملہ کیا جائے گا۔ دوسرا یہ اصول دیا گیا کہ حقوق وواجبات کی عادلانہ تقسیم کے بعد مختلف درپیش معاملات میں، جن میں عرف ورواج کی رہ نمائی نہیں مل سکے، مرد کا اختیار عورت سے ایک درجہ زیادہ رہے گا۔ یہ دونوں اصول مل کر ایک ایسی عائلی اجتماعیت کا تصور دیتے ہیں جو دنیا کے ہر خطے اور ہر زمانے میں قابل عمل ہے۔ یہ اجتماعیت عدل پر قائم ہوتی ہے، اس کے پاس عرف ورواج کا مرجع بھی ہوتا ہے اور مسدود راستوں سے نکلنے کے لیے شوہر اور بیوی کے درمیان اختیارات اور ذمے داریوں کا کچھ فرق بھی ہوتا ہے۔
مفسر شیخ رشید رضا لکھتے ہیں:
اللہ تعالی نے مرد وعورت میں سے ہر ایک کے دوسرے پر حق کو مختصر عبارت میں بیان کردیا۔ فرمایا:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ
یہ مختصر جملہ انسانوں کی اصلاح کے لیے ایک رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نہایت عظیم بات ہے، مختصر ہونے کے باوجود اس میں وہ کچھ ہے جسے بیان کرنے کے لیے بڑی کتاب درکار ہوگی۔ یہ ایک کلی قاعدہ ہے جو کہتا ہے کہ عورت تمام حقوق میں مرد کے برابر ہے، سوائے ایک چیز کے جسے
وَلِلرِّجَالِ عَلَیهِنَّ دَرَجَةٌ
کہ یہ جملہ مرد کو ایک میزان دیتا ہے، اس سے اسے تمام احوال وظروف میں وزن کرتے رہنا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے۔ جب وہ اس سے کسی بھی چیز کا مطالبہ کرنے کا ارادہ کرے تو یہ بھی یاد کرلے کہ اس کے بالمقابل اس پر بھی اسی طرح کی چیز واجب ہوگی۔ اسی لیے ابن عباس ؓ اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں :
میں اپنی بیوی کے لیے بناؤ سنگھار کرتا ہوں، جس طرح میری بیوی میرے لیے بناؤ سنگھار کرتی ہے۔ یہاں مثل سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو مرد کو ملے بعینہ وہی عورت کو بھی ملے، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے درمیان حقوق کا برابری کی بنا پر تبادلہ ہو، عورت مرد کے لیے کچھ کرے تو مرد بھی اس کے مقابل میں اس کے لیے کچھ کرے، خواہ وہ بالکل وہی چیز نہ ہو لیکن اس کے ہم پلہ تو ہو۔
غرض مرد وعورت حقوق واعمال میں ایک دوسرے کے مثل ہیں، اسی طرح وہ ذات، احساس، شعور اور عقل میں بھی ایک جیسے ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی مکمل انسان ہے، اس کے پاس عقل ہے، جس سے وہ اپنا برابھلا سوچتا ہےاور اس کے پاس دل ہے، جو اپنی پسندیدہ اور راس آنے والی چیز سے محبت کرتا ہے اور ناپسندیدہ اور راس نہ آنے والی چیز سے نفرت کرتا ہے۔ اس لیے یہ عدل نہیں ہے کہ ایک صنف دوسری صنف پر اپنی مرضی چلائےاور اسے غلام بناکر رکھے اور اپنے مفادات کے لیے اس کا استعمال کرے، خاص طور سے زوجیت کا معاہدہ کرنے اور مشترک زندگی کا آغاز کرنے کے بعد جس کی خوش گواری کے لیے شرط ہے کہ زوجین میں سے ہر ایک دوسرے کا احترام کرے اور اس کے حقوق ادا کرے۔(تفسیر المنار)
ایک درجہ زیادہ اختیار،کئی درجہ زیادہ ذمے داریاں
وَلِلرِّجَالِ عَلَیهِنَّ دَرَجَةٌ ۔
اس جملے میں درجۃ کا لفظ تو آیا ہے،لیکن اس کے ساتھ تفضیل یا اس کا ہم معنی کوئی لفظ نہیں آیا ہے، جو کہ دوسرے مقامات پر آیا ہے، جیسے
فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِینَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِینَ دَرَجَةً (النساء:95)
دراصل حقوق واختیارات میں کسی کو کچھ زیادہ حاصل ہو اور کوئی کسی سے برتر اور افضل ہو، دونوں میں فرق ہے۔ بعض لوگ اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھ سکے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بچے کی پیدائش وپرورش میں ماں کے کردار کی بار بار تعریف کی، رسول پاکؐ سے سوال ہوا کہ حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے، آپ نے تین بار فرمایا تمھاری ماں اور چوتھی بار فرمایا تمھارا باپ۔ لیکن دوسری طرف شریعت میں اولاد کا نسب باپ سے جوڑا جاتا ہے۔ الگ الگ جہتوں سے ماں اور باپ دونوں کی فضیلت ہے۔ ماں کی خصوصیات الگ ہیں اور باپ کی خصوصیات الگ ہیں۔ کسی ایک پہلو کو سامنے رکھ کر کسی ایک کو دوسرے سے برتر یا کم تر قرار دینا درست نہیں ہوسکتا ہے۔ بعض اہل علم نے بجا طور پر کہا ہے کہ اطاعت کے معاملے میں باپ کو فوقیت حاصل ہے اور خدمت کے معاملے میں ماں کو فوقیت حاصل ہے۔
وراثت میں بیٹے کا حصہ بیٹی سے دوگنا ہوتا ہے، دوسری طرف بیٹی کی اچھی پرورش کرنے پر زیادہ بشارتیں ملتی ہیں۔اس سب کے باوجود مقام ومرتبے کے لحاظ سے دونوں میں کوئی کسی سے برتر یا کم تر نہیں ہے۔
شوہر اور بیوی کے معاملے کو بھی اسی طرح دیکھنا چاہیے، شوہر کا اختیار ایک درجہ زیادہ ہے، لیکن اس بنا پر کوئی کسی سے برتر یا کم تر نہیں ہے۔
ولِلرِّجالِ عَلَیهِنَّ دَرَجَة
کی تفسیر کرتے ہوئے تفسیر جلالین میں مختصر مگر واضح الفاظ میں کہا گیا: ’’یہ حق میں فضیلت کا ذکر ہے، کہ شوہروں نے مہر اور خرچ پیش کیا تو بیویوں پر ان کی اطاعت واجب ہوئی۔‘‘
مفسر رشید رضا اس جملے کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یہ درجہ عورت پر ایک چیز واجب کرتا ہے اور مردوں پر بہت سی چیزیں واجب کرتا ہے، کیوں کہ یہ درجہ سرداری اور مصالح کی انجام دہی کا درجہ ہے۔ (تفسیر المنار)
اس کے مقابلے میں بعض مفسرین اس آیت کی تفسیر میں مردوں کو باکمال اور عورتوں کو ناقص وکم تر قرار دینا ضروری سمجھتے ہیں، حالاں کہ ان باتوں کا یہاں کوئی محل ہی نہیں ہے۔ ایک مفسر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اس طرف اشارہ ہے کہ مرد عورت سے افضل ہے، کیوں کہ مردانگی شرف اور کمال ہے، جب کہ نسوانیت خلقی اور طبعی نقص ہے۔ ‘‘
حقوق وواجبات کا پیمانہ یکساں ہے
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیهِنَّ دَرَجَةٌ ‎ (سورۃالبقرة :٢٢٨)
عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق
اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١