راہ ہدایت کے مسافر (قسط:2)
کچھ عرصہ بعد والدین نے خود ہی فرحان کو الگ گھر کا کہہ دیا۔ کیوں کہ جس ڈھب پر ان کی زندگی بسر ہورہی تھی، وہ طرزِ زندگی اب اہل خانہ کے لیے بالکل قابل برداشت نہ تھا۔ باہر کی ڈگری اور لیاقت کی وجہ سے فرحان کے لیے روزگار کے مواقع کم نہ تھے۔لیکن فطری آزاد طبیعت اور ’’یس سر‘‘ نہ کہنے کی عادت کی وجہ سے بابو والے محکموں سے تو ان کی نبھ نہ سکی، سو وہ ایک ریسرچ ادارے میں اچھے عہدے پر فائز ہوکر اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگے۔ گھر اور بچوں کو فرحان نے مکمل طور پر فاطمہ کے سپرد کر رکھا تھا۔ اپنی نسل کی تربیت کے مراحل میں وہ کمہار اور مٹی کے ان تین اَن گھڑ برتنوں (اولاد) کے بیچ کبھی نہ آئے۔
فاطمہ، فرحان کی دی ہوئی اس آزادی کو اپنے لیے اللہ کا خاص انعام سمجھتی تھی۔
٭٭٭
’’بھابھی! میری کچھ سہیلیاں آپ سے ملنا چاہ رہی ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں سو بسم اللّٰہ……..تو کب آرہی ہیں؟‘‘
’’دیکھیں بھابھی! اُن میں سے ایک نامی گرامی وزیر کی اہلیہ ہیں اور آپ کے گھر کا فرنیچر کچھ اچھا نہیں لگ رہا، میں کچھ فرنیچر لے آتی ہوں۔‘‘
’’جسے آنا ہے، اسے مجھ سے ملنا ہے یا میرے گھر کے فرنیچر سے دعا سلام کرنی ہے؟‘‘فاطمہ نے بہت تحمل سے کہا تھا۔
’’بھابھی! سمجھ میں نہیں آتا کہ سب کچھ افورڈ کرسکنے کے باوجود آپ لوگوں نےاتنا تھرڈ کلاس، فقیرانہ، پینڈو لائف اسٹائل کیوں رکھا ہوا ہے؟‘‘
فاطمہ کا چہرہ شدتِ جذبات سے سرخ ہوگیا، لیکن خاموش رہی۔
اگلے ہی دن زرین کا فون آگیا۔
’’فاطمہ! مہوش کا فون آیا تھا۔ بھئی ایک وزیر کا خاندان تم سے ملنے آرہا ہے، تھوڑی دیر کے لیے سیٹنگ چینج کرنے میں تمہیں کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’باجی میری عزت اور ذلت اللہ کے دین کی وجہ سے ہے، نہ کہ صوفوں قالینوں یا ڈونگوں چمچوں اور کڑچھوں کی وجہ سے۔ مہمان نوازی سے انکار تو نہیں کررہی۔‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ دعوت کا مینو کیا ہے؟‘‘
’’آلو گوشت، نان، سلاد، رائتہ اور میٹھے میں کھیر۔‘‘
’’کیا؟……..! آلو گوشت کا شوربہ! اتنی آؤٹ ڈیٹیڈ ڈش؟‘‘
’’استغفراللہ باجی! آپ نے آخری بار گوشت کب کھایا تھا؟‘‘
’’کل‘‘۔
یعنی کل کی ڈیٹ تھی تو پھر آؤٹ ڈیٹیڈ کیسے ہوگیا؟ ہمارے ملک میں اکثریت وہ طبقہ ہے، جس کو گوشت بڑی عید کے علاوہ نصیب نہیں ہوتا۔ زندگی امتحان ہے۔ اُسے امتحان سمجھ کر گزارا اور برتا جائے اور اپنے آپ کو جواب دہ سمجھا جائے تو اتنے چونچلوں کی گنجائش نہیں رہتی۔ سنت کے دائرے میں رہنا ہی سلامتی ہے باجی! اس کے علاوہ ہر راستہ تباہی ہے۔‘‘
زرین نے بے زاری سے فون بند کردیا۔ پتھر سے سر پھوڑنے کا آخر کیا فائدہ تھا۔
فاطمہ کی نند صاحبہ کو بہانہ بناکر وہ دعوت منسوخ کرنی پڑی، کیوں کہ انھیں اپنی عزت بہت عزیز تھی۔
فاطمہ پاکستان آتے ہی رات دن اللہ کے دین کی ہوکر رہ گئی۔ میاں اور بچوں کی ذمے داری، بچوں کی تربیت، دینی ذمے داریوں اور رشتے داروں کا بہت اچھے سے خیال، ان سب میں ایک خوب صورت توازن تھا، جو اجتماعیت کی زندگی نے سکھایا تھا۔
دونوں میاں بیوی نے پختہ عزم کیا تھا کہ رشتے داروں کی اُن محفلوں میں، جہاں اللہ کے احکامات کی نافرمانی ہوتی ہے،وہ ہرگز شرکت نہیں کریں گے۔ البتہ تمام رشتوں اور ان سے وابستہ ذمے داریوں کو وہ حتی الامکان خوش اُسلوبی سے نبھائیں گے۔ صلہ رحمی کرنے میں وہ تمام دور اور قریب کے رشتے داروں کا خیال رکھتے تھے۔ کسی کو مدد یاتعاون کی ضرورت ہو تو،وہ اس کا تعاون کرتے تھے۔ ایک طرف بھانجوں، بھتیجوں کی شادیاں اٹینڈ نہیں کیں تو دوسری طرف ضرورت مند رشتے داروں پر بغیر احسان جتائے اُن کی پردہ پوشی کرتے ہوئے خاموشی سے آسانیاں بانٹیں۔ معاشرت اور معیشت میں خوب صورت توازن قائم کرکے دکھایا۔ اُن کی زندگی قرآن کریم کی اِس آیت کے اصول کے تحت تھی کہ ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔‘‘
٭٭٭
فاطمہ باورچی خانے میں مصروف تھی کہ فرحان ہانپتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔فاطمہ کے پوچھنے پر کہنے لگے:
’’آج چند اوباش لڑکے، لڑکیوں کے کالج کے سامنے شور شرابا کررہے تھے۔‘‘
فاطمہ خوف زدہ ہوکر بولی:’’ تو کیا آپ نے………؟‘‘
’’ہاں ہاں بالکل، ان کے گاڑی کے شیشے نیچے کروائے اور گاڑی کی چابی نکال لی۔‘‘
وہ بولتے جارہے تھے اور فاطمہ سر سے پاؤں تک ممکنہ نیل اور زخموں کی تلاش میں مصروف تھی۔
’’یہ آپ مجھے سر سے پاؤں تک گھور کیوں رہی ہیں؟‘‘
’’جی! کچھ نہیں ویسے ہی،اچھا پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر کیا تھا، گریبان سے پکڑ کر سیٹ سے تھوڑا اوپر کیا اور خبردار کیا کہ تم لوگوں کی کھٹارہ کا نمبر میں نے نوٹ کرلیا ہے۔ اب اگر پھر کبھی یہاں تمہاری شکلیں نظر آئیں تو میرے ہاتھوں سے نہیں بچوگے۔‘‘
’’پھر ……؟‘‘
’’پھر کیا ہونا تھا،بھاگ گئے۔‘‘
فاطمہ کا سانس بحال ہوا۔
’’وہ چار لڑکے تھے، اگر آپ سے الجھ پڑتے تو؟‘‘
’’تو کیا ہوجاتا؟‘‘
’’جی کچھ نہیں۔‘‘ مزید کچھ کہنا اپنی عافیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔
عید کی آمد، آمد تھی۔بازار سے گزرتے ہوئے اچانک ایک دکان کے شیشوں سے کچھ نامناسب عید کارڈ لگے نظر آگئے۔سودا سلف میں سے وائپر نکالا اور سیدھا دکان میں داخل ہوگئے۔دکان دار ایک وائپر سے مسلح شخص کو اپنی طرف آتا دیکھ کر گھبرا گیا۔
’’یہ بے ہودہ کارڈ فوراً ہٹاؤ یہاں سے۔‘‘
پتا نہیں ان کی آواز میں کیا رعب تھا کہ دکان دار نے ہانپتے کانپتے سارے کارڈ ہٹاکر فوراً معذرت کی۔
’’جی آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
’’میں پھر چکر لگاؤں گا۔‘‘
وائپر کارڈ پر رکھتے ہوئے، وہ اِس لہجے میں بولے کہ دکان دار کو محسوس ہوا کہ اگلی بار شاید دکان کا نام و نشان ہی نہ رہے گا۔
غرض اللہ کی نافرمانی جہاں ہورہی ہو، وہاں فرحان’ لڑادے کسی بلا سے مجھے‘ کے مصداق جھپٹنے کے لیے تیار رہتے۔ اشارہ ملنے کے انتظار میں گاڑی میں تھے کہ ایک گاڑی اشارہ توڑتے ہوئے گزرگئی۔
اشارہ ملتے ہی فرحان نے گاڑی کا پیچھا کیا اور آگے جاکر گاڑی کو رکوایا۔
’’جی کیا مسئلہ ہے؟ آپ ہمارا پیچھا کررہے ہیں، جیسے ہم کوئی مجرم ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈرائیو نے گاڑی کے اوپر رکھیPolice کی تکون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جانتے نہیں ہو، کون ہیں ہم؟
’’میں بہت اچھے طریقے سے آپ کو جانتا ہوں کہ آپ کون ہیں؟
’’اشارہ کیوں توڑا ؟‘‘
بے خوف ، نتائج سے بے پرواہ ایک بابا، بلا بن کر ٹوٹنے کو تیار تھا۔
’’اگر تم لوگ قانون توڑنے لگوگے، قانون کی رکھوالی کا دعویٰ کرنے کے باوجود تو پھر باقی قوم کا اللہ ہی محافظ ہے۔‘‘
پھر دیکھنے والے دیکھ رہے تھے اور وردی والا معافی تلافی اور آئندہ غلطی نہ کرنے کی یقین دہانی کرارہا تھا۔
فاطمہ کو ان کی اس بے خوفی سے کبھی کبھی خوف بھی محسوس ہوتا، لیکن غلط بات برداشت کرنا فرحان کے بس سے باہر تھا۔ فاطمہ کو پورا یقین تھا کہ روز قیامت نہی عن المنکر کا ایوارڈ اِن شاء اللہ فرحان کو ملے گا۔
فرحان کے اندر غیرت، بہادری، محنت اور دنیا سے بے نیازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ فاطمہ کو حتی الامکان بازار کے دین بیزار ماحول سے دور رکھا۔ صحیح معنوں میں چادر اور چاردیواری کا تحفظ فراہم کیا۔ تینوں بچے: اشعر، معاذ اور عبداللہ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ تعلیمی میدان میں بھی ٹاپ پر رہے۔ تینوں نے بالترتیب فارمیسی، انجینئرنگ اور طب کا انتخاب کیا۔ بچے بھی والدین کا پر تو تھے۔ شیر کے بچے بھی شیر ہی ہوتے ہیں۔ تینوں نے ابھی تعلیم کے اختتامی مراحل میں تھے کہ دنیا بھر سے طاغوت اور کفریہ طاقتیں، ایک اسلامی مملکت پر ٹوٹ پڑیں۔ فاطمہ نے اب تک چھوٹی موٹی مزاحمتوں کا سامنا کیا تھا، لیکن جس قرآن کو کم و بیش تین دہائیوں سے وہ پڑھ اورسنارہی تھی، اب اس پر عمل کا وقت تھا۔(جاری ہے)
دونوں میاں بیوی نے پختہ عزم کیا تھا کہ رشتے داروں کی اُن محفلوں میں، جہاں اللہ کے احکامات کی نافرمانی ہوتی ہے،وہ ہرگز شرکت نہیں کریں گے۔ البتہ تمام رشتوں اور ان سے وابستہ ذمے داریوں کو وہ حتی الامکان خوش اُسلوبی سے نبھائیں گے۔
Comments From Facebook

1 Comment

  1. .Dr Sheeba

    Umda tehreer ??ae Allah hum sabko hidayat ata farma

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١