درس قرآن
زمرہ : النور
القرآن – سورة نمبر 9التوبة آیت نمبر 111 أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اِنَّ اللهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ‌ ؕ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَيَقۡتُلُوۡنَ وَ يُقۡتَلُوۡنَ‌وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّا فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ وَالۡقُرۡاٰنِ‌ ؕ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسۡتَـبۡشِرُوۡا بِبَيۡعِكُمُ الَّذِىۡ بَايَعۡتُمۡ بِهٖ‌ ؕ وَذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡ

ترجمہ:

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ سورۃ التوبہ یا سورۃ البراءہ کی آیت نمبر 111 ہے جو کہ مدینہ میں 9 ہجری میں نازل ہوئی ۔اس کے زمانہء نزول پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ مدنی دورِ نبوت کا وہ زمانہ تھا جب کہ اسلام اپنی تعلیمات کے ساتھ پوری آن بان سے استحکام کے آخری مراحل عبور کررہا تھا ۔ صلح حدیبیہ کے بعد اور عرب میں جو پر امن ماحول میسر آیا تھا تو ایسے وقت میں یہ دعوت پوری قوت کے ساتھ پھیلی اور نتیجتاً اندرون اور بیرون عرب تک اپنے اثرات مرتب کیے۔جہاں اندرونِ عرب میں قدیم جاہلی نظام، اسلام کے آگے سپر انداز ہوا، وہیں غزوہء موتہ و تبوک کے نتیجے میں عظیم سلطنتِ روما ہمیشہ کے لیے روبہ زوال ہوگئی ۔ ایک طرف نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مسلسل جدوجہد رنگ لائی اور منظم سوسائٹی کا قیام ممکن ہو سکا ۔وہیں دوسری طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قربانیوں کے باوجود ایک قلیل گروہ سے کوتاہیاں سرزد ہوئیں ۔ان کے ایثار و خلوص اور اطاعت میں کمی یا تساہل کی بناء پر ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی پر اللہ رب العزت کی طرف سے ان اشخاص کے رویوں پر تنقید کی گئی ہے کہ ایمان کا محض زبانی اقرار مطلوب نہیں ہے بلکہ اللہ کی بخشی ہوئی مال و متاع اور اپنی جان اپنا وقت اپنی اولاد اپنی صلاحیتیں اور ہر وہ چیز جس کا براہِ راست تعلق تمہارے جان و مال سے ہے، سب کے سب خدا کے حوالے کردو۔ جیسا کہ یہ تمام امانتیں اسی کی ہیں ۔اگر ان امانتوں کو خدا کی مرضی کے خلاف، اپنی خواہشات کے مطابق صرف کروگے تو ایمان کا دعویٰ بے بنیاد ہوگا۔ اسی بات کو شفیق و مہربان رب نے سودے کا نام دیا ہے کہ انسان کی زندگی میں اسی سے تجارت اور نفع حاصل کرنا اولین ترجیح ہوتی ہے ۔خصوصاً دورِ حاضر میں جبکہ زندگی کا ہر میدان کمرشل سوچ سے لبریز ہے ۔ خاندانی، معاشرتی، سماجی، حکومتی، تعلیمی، حتیٰ کہ اخلاقی معاملات میں بھی ہر فرد چاہتا ہے کہ میں اگر کچھ دے رہا ہوں تو اس کا نعم البدل مجھے اضافے کے ساتھ ضرور ملنا چاہیے اور جلد ملنا چاہیے ۔ جو لوگ تجارتی معاملات کے ماہرین ہیں وہ اس آیت کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں کہ” اللہ نے خرید لیے ہیں مومنوں کے جان ومال، جنت کے بدلے میں “ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ خریدنے والا اور مومن بیچنے والا، بیچی جانے والی چیز جان و مال اور اس کے متعلقات…. اور بدلے میں معاوضہ، دنیا و آخرت اور جو کچھ اس میں ہے ان میں سب سے زیادہ، سب سے قیمتی شئے جنت!! “اشتری” کو “بیع” کے معنی میں لیا گیا ہے اور بیع کے لغوی معنی “خرید و فروخت ” کے ہیں۔ اور اصطلاحی معنی، “ آپس میں رضامندی سے مال کا مال سے تبادلہ کرنا” ۔ اللہ اور بندے کا تعلق جو قائم ہوتا ہے وہ ایمان کا تعلق ہوتا ہے لا الہ الا اللہ کے اقرار کے ساتھ یہ تعلق استوار ہو جاتا ہے کیونکہ جو شخص بھی یہ اقرار کرتا ہے وہ پورے شعور اور ذمہ داری کے ساتھ اقرار کرتا ہے اللہ کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالتا ہے، اب یہ محض دل کے عقیدے کا معاملہ نہیں رہ جاتا بلکہ باقاعدہ ایک معاہدہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اس معاہدے کو اللہ، تجارتی معاہدہ فرمارہے ہیں ۔ تجارتی معاہدہ کس طرح ہوتا ہے؟ • فریقین کا مطلب دو فریقوں کی ذہنی ہم آہنگی کی بنیاد پر • خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں ہی ضرورت مند ہوتے ہیں اور کوئی کسی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے اور دونوں کی موجودگی ہی میں سودا طے ہوگا ۔ • اسلامی اصولوں میں دونوں ہی کی نفسیات کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ • سودا اسی چیز کا جس سے دونوں واقف ہوں • شئے کی قیمت دونوں کی رضامندی سے متعین ہوگی ۔ • سامان یا قیمت حوالے کرنے کی مدت متعین ہوگی ۔
دونوں مکمّل طور پر راضی ہوں کوئی فریق دل میں شک و شبہ نہ رکھے ۔ • کسی چیز کو خریدنے کا مطلب ہے کہ خریدار اس چیز کا مالک ہوجائے، جب چاہے جس طرح چاہے اس کو استعمال کر سکتا ہے ۔ • جو مال یا سامان بیچا جارہا ہو بیچا ہو بیچنے والا خود اس کا مالک ہو کسی اور کا حق اس سامان سے وابستہ نہ ہو کہ بیچنے میں اس کی حق تلفی ہو ۔ قارئینِ کرام! غوروفکر کا مقام ہے ۔ فریقین میں ایک طرف رب العالمین و رب الناس ہے اور دوسری طرف خلق الانسانُ ضعیفاً ہے جی ہاں وہی انسان جس کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا اور جس کو عزت عطا کی گئی اور ساری مخلوق پر اس کو فضیلت و شرف بخشا گیا۔اس خدا کی مہربانی اور کرم کی بدولت اس کے لیے زمین میں خشکی و تری میں خلاؤں میں آسمان بنایا تاکہ اس کا چلنا پھرنا آسان ہوا ۔ قدرتی وسائل اس کے لیے مسخر کردیئے گئے اور زمین پر زندگی گزارنے اور اپنی بقا کے لیے اسے ایک نظام عطاء کیا گیا پھر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی دے کر اس کو اس قابل بنایا کہ زمین کے انتظامات درست کرے اور خدائی نظام کو خدا کی مرضی کے مطابق نافذ کرے ۔اب یہ سارا کام اطاعت کے دائرہ میں رہ کر ادا کرے اور اپنی آزادی کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرے تو وہ اس لائق ہے کہ اس معزز معاہدے کا فریق کہلائے جس کا دوسرا فریق ساری کائنات کا رب ہے اور اسی ہم آہنگی کی بنیاد پر یہ معاہدہ ترتیب پاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ خریدنے والا بے نیاز ہے وہ کائنات کے ذرے ذرے کا مالک و مختار اور قادر مطلق خدا ہے ۔ اس کی ذات حوائج و ضروریات سے مستثنیٰ ہے ۔ ہر آن اس کی عطاء کا فیضان جاری رہتا ہے وہ دینے والا خدا ہے ۔مگر بندہء ضعیف کو جو کہ اس کا ہر وقت محتاج ہے اس کو اس کی کمزوریوں اور تہی دامنی کے باوجود شریکِ معاہدہ رکھتا ہے ۔ • خدا کے اعلیٰ و برتر ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ اس ضعیف و ناتواں کی نفسیات کو ملحوظ رکھ کر معاہدہ کیا جارہا ہے کہ جو چیز بندے کی استطاعت و اختیار میں ہیں وہی اس کو مطلوب ہے ۔اگر وہ اپنی نفسیات یا اپنی مرضی کے مطابق مانگنے لگے تو یہ بندہء ناتواں کہیں کا نہیں رہ جائے گا ۔ • جان و مال اور ان سے متعلق ساری چیزیں مراد ہیں“ ان دونوں کو دونوں فریقین بخوبی جانتے ہیں اس سے اچھی طرح واقف ہیں”۔ • یہاں شئے ( جان و مال) کی قیمت خدائے عظیم و برتر کی مرضی سے طے ہے وہ جانتا ہے کہ بیچنے والے کے نزدیک کونسا معاوضہ اور کونسی کرنسی یاقیمت زیادہ وزن رکھتی ہے اور قیمت سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مال کتنا قیمتی ہے۔۔ جوہری ہی اصل ہیرے کی پہچان رکھتا ہے ۔لہذا ابنِ آدم کا اوّلین ہدف، جنت کا حصول ہے جو اس کے جان و مال کے بدلے بطور معاوضہ کے طور پر طے کیا گیا ہے ۔اس غیر معمولی منافع کو نظرانداز وہی کرسکتا ہے جس کی عقل میں فتور ہو۔ • سامان یا قیمت دونوں ہی کی ادائیگی کا وقت مقرر ہے کہ جان و مال اس عارضی زندگی میں خدا کی مرضی کے مطابق استعمال ہوں تو معاہدے کی رو سے زندگی کے خاتمے پر فوراً معاوضہ ادا کیا جائے گا ۔ • اور یہی ایمانِ کامل کی نشانی ہے کہ اپنے رب پر ایمان لانا غیب پر یقین کی حد تک ایمان رکھنا تب ہی یہ معاہدہ کارگر ہوگا • سامان اس وقت خریدا جاتا ہے جب مارکیٹ میں اس کی مانگ ہو اور مال خرید کر تاجر اس کا مالک ہو جاتا ہے پھر جیسا چاہیے اس کا تصرف کرے۔لہٰذا جب کنٹریکٹ سائن کر لیا ہے تو اب یہ جان و مال، یہ وقت، یہ صلاحیتیں، یہ فکر و خیال اپنے کہاں رہ جاتے ہیں یہ تو اب کسی اور کی امانت ہے ۔کوئی ہے جو اس کا مالک ہے ۔ اب اس پر اس کی گرفت اور اختیار ختم ہو گیا ہے اور اس سودے کو پورے شعور و یقین کے ساتھ ساتھ طے کیا گیا ہے ۔اب اس کی حیثیت معمولی ہرگز نہیں ہے کہ اس کو کوٹ کی طرح جب چاہے پہنو اور جب چاہے اتار دو ۔ • انسان کو جتنی چیزوں پر تصرف حاصل ہے اور جن چیزوں کو اس کی کفالت میں دیا ہے اسی کی ملکیت مانی جائے گی ۔وہ ساری کی ساری سامانِ تجارت میں شامل ہوں گی ۔ • وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے مارتے اور مرتے ہیں ۔ حالات کی مناسبت سے جو معرکہ بھی درپیش ہو اس میں پامردی دکھاتے ہیں اور مناسب تدبیر کے ساتھ معاملات کو صحیح رخ پر انجام دیتے ہیں ۔ یہ فقرہ ہر اس شخص پر چسپاں ہوتا ہے جو نظامِ حق کے غلبے کے لیے بہتر سے بہترین کوشش کرتا ہے اور اس کے بعد الذکر جدوجہد اول الذکر جدوجہد کے مقابلے میں” نورُٗ علی نور “ کی طرح ہوتی ہے ۔۔۔” اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس کے ہاتھ فروخت ہاتھ فروخت کردیتے ہیں “۔ ( البقرہ 267) غزوہ بدر کا معمولی سپاہی ترقی کرتا ہوا غزوہ موتہ و حنین میں کمانڈر بن جاتا ہے ۔صلاحیتوں کا ارتقاء ہوتا ہے ۔ بڑی مہارت سے اپنے کاموں کو صحیح رخ دیتا ہے اور نتیجہ خیز کام کرتا ہے ۔تو کوئی غزوہ خیبر میں بیمار ہونے کے باوجود قلعہ القموص کا پھاٹک اکھاڑ کر حیدر کرار کا لقب اختیار کرتا ہے ۔کوئی اپنی فیاضی کے باعث غنی کا لقب پاتا ہے اور کوئی بدلتے وقت اور حالات میں امت کے لیے قرآن کو جمع کرنے (ایک قرأت پر متفق) کرکے جامع القرآن کہلاتا ہے ۔ کوئی عمر فاروق جیسا انصاف کا علم بردار بن جاتا ہے کہ برائے نام مہذب دنیا اس کے طریقہء حکومت کو آئیڈیا لائیز کرکے اس کو اپنی آئین کا حصہ بناتی ہے تو کہیں شجاعت کے میدان میں اللہ کی تلوار کا لقب پانے والا غازی اسلامی مملکت کی حدود کی توسیع میں ہمہ تن مصروف ہوتاہے کہ جس کے نام سے اس وقت کے سپر پاور تھراتے تھے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے معاہدہ کا حق ادا کردیا ۔قابلِ مبارکباد ہیں وہ لوگ جنہوں نے عہدِ وفا کی ,ان کی زندگیاں” قل ان صلوٰتی و نسکی محیای ومماتی للہ رب العالمین کا نمونہ بن گئیں ۔ ایسے ہی سودا کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔یہی عہد پورا کرنے والوں کے لیے اللہ رب العزت نے توراۃ، انجیل اور قرآن کریم. میں جنت کا سچا اور پکا وعدہ کیا ہے اور اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے ۔ “ پس خوشیاں مناؤ” اہل ایمان سے کہا جارہا ہے ۔ خوشی تو اس وقت منائی جاسکتی ہے جب فریق ثانی یعنی مومنوں کو بھی یہ سودا بخوشی منظور ہو اور اپنے جان و مال کو کشادہ دلی کے ساتھ اللہ کی راہ میں قربان کرے ۔ تصور کیجئے! دنیاوی زندگی کے کئی کنٹریکٹ ہو یا سودے طے کرتے ہیں مگر کوئی سودا ایسا ہوتا ہے کہ انسان مدتوں سے اس کی تمنا کرتا ہے اور اس کی خوش نصیبی ہوتی ہے کہ وہ موقع زندگی میں آ ہی جاتا ہے تواس وقت اس کے قلب کی کیفیت قابلِ دید ہوتی ہے۔ جس مومن کی زندگی کی پہلی خواہش جنت کی طلب سے شروع ہوکر آخری خواہش اور تمنا بھی جنت کی طلب پر ختم ہوتی ہے پس انہیں چاہیے کہ وہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں ۔یہ سودا دراصل ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ جو کوئی آگ سے بچا لیا گیا ہے اور جنت میں داخل کردیا گیا پس وہ کامیاب ہوا۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہا نے لیلۃ العقبہ میں بیت کرتے ہوئے کہا کہ” اے، اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لیے اور اپنے لیے جو چاہے شرط منوالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے رب کے لیے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا اور اپنے لیے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان و مال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی کرنا۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا جب ہم یونہی کریں گے تو ہمیں کیا ملے گا؟ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جنت!! یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگے ۔ واللہ!! اس میں تو ہم بہت منافع میں رہیں گے ۔بس یہ پختہ بات ہے نہ ہم اس کو توڑیں گے نہ توڑنے کی جسارت کریں گے۔ اسی موقع پر اس آیت کا نزول ہوا۔ بخاری مسلم میں حدیث ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا اور جہاد کیا، رسولوں کی سچائی مان کر، اسے یا تو فوت کرکے بہشت بریں میں اللہ لے جاتا ہے یا پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے ( اور یہ بات اللہ نے اپنے ذمہ ضروری کرلی ہے) اللہ سبحانہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ صحت مند زندگی کی نعمت ہمیں میسر ہے ۔ایمان کی دولت سے ہم مالا مال ہیں، ہماری شعور و آگہی الحمداللہ ترقی پر ہے۔کیا اس آیت نے ہمارے دل کی کیفیت کو بدلا ہے کہ ہم زمانے کو بدل دیں ۔حالات و اصلاحات کا ایک نیا کارگر انداز اپنائیں اللہ کے عطاء کردہ وسائل و ذرائع کا بہترین استعمال کرنا سیکھیں اور انسانیت کے مسخ شدہ نظامِ زندگی کو تراش خراش کرکے صالح نظام کی شفاف تصویر زمانے کے سامنے پیش کریں ۔
خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں ہی ضرورت مند ہوتے ہیں اور کوئی کسی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے اور دونوں کی موجودگی ہی میں سودا طے ہوگا ۔
بخاری مسلم میں حدیث ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا اور جہاد کیا، رسولوں کی سچائی مان کر، اسے یا تو فوت کرکے بہشت بریں میں اللہ لے جاتا ہے یا پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے ( اور یہ بات اللہ نے اپنے ذمہ ضروری کرلی ہے)
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۱