دامنِ صدف….
ہر بوند کی قسمت میں کہاں !!
زیبا نے بہت حسین و خوبصورت خدوخال پائے تھے ۔ ۔۔گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے سبب گھر بھر کی چہیتی اور صفدر علی کی تو جیسےجان تھی۔ صفدر علی بیٹی کی ہر خواہش پوری کرتے یہاں تک کے بےجا ضد بھی ہنستے ہوئے مکمل کرتے۔ انہیں اپنی اس لختِ جگر سے بے پناہ محبت تھی۔ والدین کی بےجا محبتیں اور لاڈ پیار نے زیبا کو بہت مغرور ، ضدی بنادیا تھا۔ دسویں جماعت میں قدم رکھا تو ایک لڑکے سے عشق ہوا اور سال کے اختتام تک یہ عشق جنون میں تبدیل ہوگیا۔جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں تھی۔کہتے تو سنا تھا کہ عشق ذات پات اونچ نیچ نہیں دیکھتا۔ زیبا نے یہ بات ثابت کر دکھایا کہ محبت کا جنوں کیا ہوتا ہے اور چٹان نما خاندان کو کس طرح پل بھر میں ریت کے ذروں کی طرح بکھرجانے پر مجبور کردیتاہے۔ امتحان کے آخری دن اس نے اپنی ضروری چیزیں اکٹھا کرلیں۔۔۔۔۔امی کے لاکر سے چند زیورات بھی نکال لیے اور رات چہل قدمی کے بہانے بھائی کے ساتھ باہر چلی گئی۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے وہ باہر سےلوٹی۔۔۔۔۔۔واپسی میں اس نے بھائی سے کہا۔ “بھائی آپ اوپر جائیں۔۔۔میں گیٹ پر تالہ لگاکر آتی ہوں۔” اس نے آہنی گیٹ کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ کھلا چھوڑدیا۔کیونکہ جب بھی گیٹ کھلتا تو آواز کرنے لگتا تھا۔۔۔جس سے افرادِ خانہ سمجھ جاتے کہ کسی نے گیٹ کھولا ہے۔ زیبا نہیں چاہتی تھی کہ گیٹ کے کھلنے سے آواز پیدا ہو۔۔۔ساڑھے تین بجے جب مکین گہری نیند میں ڈوبے تو اس نےاپنا تیار شدہ بیگ اٹھایا ، دبے قدموں سے چلتی ہوئی آہنی گیٹ تک پہنچی اور گھر سےباہر قدم رکھ دیا !! یہ اس کی زندگی کا نیا سفر تھا۔۔۔۔راہیں کس موڑ پر جارہی تھیں۔۔۔منزلِ مقصود پُرخار ہوگی یا گل زار؟؟؟ اس بات کا اس نادان لڑکی کو کوئی اندازہ نہ تھا۔ ہر سمت اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ تاریخ گواہ ہے ! تاریک شب کی چادر تلے ان باریک گلیوں میں کئی داستانیں جنم لیتی رہیں۔۔۔کسی نے کامیابی کی راہ پر قدم بڑھایا تھا تو کوئی ذلت و رسوائی کی ردا اوڑھ کر تاعمر کرب کی کھائی میں گرتا چلا گیا !! آسمان آنکھیں پھیلائے حیرت وغم سے اس نادان کو تکنے لگا۔۔۔ٹمٹماتے تارے اپنا چہرہ بادلوں کی اوٹ میں چھپاکر سسک اٹھے ۔۔۔گلی کی سنسان راہ کسی بے بس کی طرح خموشی کی چادر تلے آنسو بہاتی چلی گئی ۔فضاؤں نے بلک کر دہائی دی “کوئی تو آگے بڑھ کر صفدر علی کی ، اس عزت کو فنا ہونے سے روک لے۔۔۔۔” لیکن دہائی کی رسائی کسی کے سماعت تک نہ ہوپائی۔ گلیاں جو اپنےدامن میں ایسی کئی داستانیں چھپائی ہوئی سسک رہی تھیں ایک اور داستان کے بوجھ پر کراہ اٹھیں۔ پھر کہیں سے ایک دیوہیکل آواز ان بےچین گلیوں میں گونج اٹھی ۔۔۔محبت اور جنگ میں سب جائز ہے !! “یہ عاشقوں کا بے معنی فلسفہ ہے، یہ عزت دار گھرانوں کے لیے آتشِ فتنہ ہے ۔۔۔کوئی تواس فلسفے کو کتابوں سے کھرچ کر نکال دے۔۔۔ ذہنوں سے نوچ پھینکے۔۔۔” “ہاہاہا۔۔۔” جواب میں دیوہیکل قہقہہ گونج اٹھا!! کچھ ہی فاصلے پر ، پروانہء شمع، بےچینی سےانتظار کرتاہوا کھڑا تھا۔۔۔۔ جب زیبا وہاں پہنچی تو اس کے پژمردہ چہرے پر فتح سے لبریز مسکان پھیل گئی ۔دنوں کے قدم ملے ہاتھوں نے ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کیا۔۔۔ دور کہیں چاند بدلیوں کی آغوش میں دم توڑگیا۔۔۔۔۔ بہانہ ملا نہیں کہ ہر سمت اندھیرا چھا گیا۔ “ اف یہ اندھیرا ! ”زیبا نے جھرجھری لی “ایک نیا سورج ابھرےگا، جو صرف روشنی پھیلائےگا اور اس سورج کا نام محبت ہوگا ”۔محبوب نے سرگوشی کی اور زیبا کے وجود کو سہارا دیتے ہوئے گاڑی میں بٹھالیا…. اور زیبا مزید اندھیروں میں گم ہوگئی
حسب معمول صبح زیبا کی والدہ چائے کا مگ تھامے اس کے کمرے میں آئیں ۔۔۔۔۔۔زیبا کا خالی بستر پاکر آواز دیتی ہوئیں باہر چلی آئیں۔۔۔۔چالیس منٹ کے اندر سب کو پتا چل گیا کہ گھر اور خاندان کی لاڈلی خاندان کے چہرے پر رسوائی کی سیاہ چادر پھینک کر کسی عاشق کے ساتھ فرار ہوچکی ہے ۔۔۔ گھر اور گلی میں ایک کہرام سا مچ گیا۔ یک لخت آنکھوں کا نور اجڑ جانے پر بابا پر سکتہ طاری ہو گیا ۔۔۔بدن میں روح کسی طائر بسمل کی طرح تڑپتی ہوئی رہائی کی دہائی دینے لگی۔ والدہ نے پڑوسیوں کے سوالات سے تنگ آکر خود کو کمرے میں بند کرلیا ۔بھائیوں نے چہرہ چھپانے کی کوشش میں گھر سے فرار حاصل کرلی۔ زام سے پہلے گھر ویرانے کی شکل اختیار کرچکا تھا۔سورج کی کرنوں نے زمین کو بوسہ دیتے ہوئے دلوں کو اس خبر سے اور پژمردہ کردیا کہ زیبا ایمان کو پیروں تلے روند کر گمراہی کے راستے پر گامزن ہوگئی !!۔ ڈھائی سال بعد زیبا کی زندگی میں ایک ننھی سی کلی نے مسکراہٹ بکھیری تو وہ سوچ میں ڈوب گئی کہ “ اس ننھی سی جان کے کان میں اذان دے یا۔۔۔۔۔؟” دل میں خیال آیا کہ بابا کو فون کرکے بلوالے تاکہ وہ بچی کے کان میں اذان دے سکیں ۔۔۔۔لیکن ہمت نہیں ہوئی ۔ جذبات کی رو میں بہہ کر کیے جانے والے فیصلے ایسےزخم بن جاتے جوکبھی مندمل نہیں ہوپاتے بلکہ وقت کے ساتھ یہ زخم ایک دن ناسور کی شکل اختیار کرتے ہوئے انسان کو لحد تک پہنچا کر ہی سانس لیتے ہیں۔ اس طرح جانے انجانے میں کیے گئےگناہ کی سزا انسان تاعمر بھگتنےپر مجبور ہوجاتا ہے !! زیبا کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ شروع کے دن تو نئی محبت کے نذر ہوئے ۔ معمولات تو تب بگڑتے چلےگئےجب محبت اور جنون میں کمی واقع ہوئی۔ دھیرے دھیرے حالات ، پیچیدگیوں کا رخ اختیار کرنے لگے۔ وقت کے ساتھ زیبا کواپنی بھول اور غلطی کا احساس شدت سے ہونے لگا۔ زیبا اس گیلی لکڑی کی مانند ہوگئی جو جلتی کم ہے اور دھواں زیادہ دیتی ہے۔غم کا دھواں ! کئی بار ایسا ہوتا کہ زیبا دل کے سکون اور روح کی تازگی کے لئے دو زانو ہوکر عبادت کی نیت سے بیٹھتی توکئی لمحات بیت جاتے لیکن دل کی بےکلی کو قرار نہ آتا۔ یہ کس قسم کی عبادات تھیں؟ جس سے نہ روح کو تازگی میسر ہوتی اور ناہی قلب کی ویرانی میں سکون کے بادل برستے !! تب وہ بے بسی سے سسک اٹھتی۔ کوئی آہ رب تک نہیں پہنچتی اورکوئی راہ والدین کی دہلیز تک نہیں جاتی۔۔کیونکہ رب سے ناطہ اور والدین سے رشتہ اسی نے توڑا تھا۔ گردشِ ایام میں قید وقت نے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے بیٹی کو جوانی کی دہلیز اور اسے بوڑھاپے کی چوکھٹ پر لاکھڑا کیا… لیکن سوچ کی ایک سوئی ہمیشہ ایک سوال پر رکی رہی کہ کیا پانے کے لیے کیا کھویا؟؟؟ لا متناہی اذیت میں زیبا ہمیشہ کی طرح اس دن بھی بےچینی و بےقراری کے عالم میں تڑپتی رہی۔۔۔سینے میں سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔۔۔آنکھوں کے سامنے بار بار والدین کا چہرہ گھومنے لگتا۔۔۔آخر درد اور تکلیف سے نڈھال ہوکر بیٹی کے کمرے میں چلی آئی۔ قریب پہنچی تھی کہ سماعت سے قرآن کی چند آیات ٹکرائیں ۔ وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن دوڑ کر بیٹی کے قریب آئی۔ بیٹی نے خوف زدہ نگاہوں سے ماں کو دیکھا دوسرے ہی پل کتاب کو دونوں ہاتھوں سے اپنی پشت پر چھپا لیا۔ “تمھیں یہ کہاں سے ملی ؟” بیٹی سہم گئی۔ “جواب دو؟” “ممی میرے ایک دوست عبدل ہیں جنھوں نے یہ کتاب مجھے تحفہ دی ہے “ تاریخ دوہرائی جارہی تھی۔۔۔لیکن ۔۔۔۔لیکن۔۔۔ نئی تاریخ اب جو تاریخ بننے کو تیار تھی اس کے دامن میں سیاہی نہیں بلکہ نور کا وہ سیلاب تھا جس کے تئیں رب العالمین نے صرف کامیابیاں چھپا رکھیں تھیں۔ “عبدل کون ؟” “کیا تم اس کو پسند کرتی ہو؟” “یہ کیسا سوال ہے ممی؟” “وہ ایک عام انسان ہے !!” “ تو ؟ “ زیبا کے لہجے میں بےچینی کا ایک طوفان مچل اٹھا ۔ “ممی آپ کیا کہہ رہی ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔” “میں چاہتی ہوں تم عبدل سے شادی کرلو” “کیا؟؟” “ ہاں “ یہ کہتے ہوئے زیبا بری طرح ہانپنے لگی۔ “ممی آپ پاگل ہوگئیں؟ “ “کامیابی صرف ایمان کی روشنی سے حاصل ہوگی !!”زیبا ہانپتی ہوئی بولی “تو آپ نے اس روشنی کو روند کر اندھیروں کو کیوں اپنایا؟” “میری بدنصیبی نے مجھے اندھا کردیا تھا۔ ” میں اس شخص سے دغا نہ کر سکی” “تو کیا آپ کائنات کے رب سے دغا کرسکتی ہیں؟؟” “کبھی سوچا ہے پاپا کی محبت تو چڑیا کی چونچ میں سمانے والا ایک بوند تھی !! رب العالمین کا پیار…. میٹھے پانی کا دریا !! “ بھلا ایک بوند کی مٹھاس کی خاطر آپ نے پورے دریا کو زہر آلود کیسے کرسکتیں۔؟ تعجب ہوتا ہے آپ کی عقل پر۔۔۔۔۔؟” دامنِ صدف۔۔۔ہر بوند کی قسمت میں کہاں !زیبا کے منھ سےخوف ودہشت بھری چیخ نکلی اور وہ آنکھیں پھیلا کر کرسی پر گرگئی۔۔۔۔۔اس کا جسم ٹھنڈا ہوچکا تھا۔۔۔۔۔واقعی ایک قطرہ مٹھاس کی خاطر اس نے رحمتوں کے دریاکو زہر آلود کرلیا تھا۔ نیا سفر شروع ہوچکا تھا۔۔۔۔۔دنیا میں ہی الہی کا غضب ناک قہر کا آغاز ہوچکا تھا۔۔۔ گھر کے تمام افراد اسے آگ کے حوالے کرنے کی تیاری کررہے تھے ۔۔۔بیٹی وحشت سے آنکھیں پھیلا کر ماں کا انجام دیکھنے لگی۔وجود پر لرزہ طاری ہوگیا۔وہ دھیرے سے اٹھی۔ کمرے کا دروازہ بند کرتی ہوئی میز کی دراز سےقرآن نکالا اور اسے سینے سے لگالیا۔۔۔۔اس نے کانپتے وجود کے ساتھ فون اٹھایا۔ عبدل ! مجھے آج اور ابھی اسلام قبول کرنا ہے !! زندگی کے اس نئے سفر میں مجھے آپ کا ساتھ چاہیے!! “
“ممی میرے ایک دوست عبدل ہیں جنھوں نے یہ کتاب مجھے تحفہ دی ہے ‘‘ تاریخ دوہرائی جارہی تھی۔۔۔لیکن ۔۔۔۔لیکن۔۔۔ نئی تاریخ اب جو تاریخ بننے کو تیار تھی اس کے دامن میں سیاہی نہیں بلکہ نور کا وہ سیلاب تھا جس کے تئیں رب العالمین نے صرف کامیابیاں چھپا رکھیں تھیں۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۱