درس حدیث
زمرہ : النور
وَمَآ آتُکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَھٰکُم عَنہُ فَانتَھُوا۔
اسماء بنت زید انصاریہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا،، مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے سب کی سب خواتین وہی بات کہتی ہیں جو میں عرض کر لے آئی ہوں اور سب کی وہی رائے ہے جو میں عرض کرنا چاہ رہی ہوں۔ عرض یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو دونوں صنفوں کے لیے( مرد و عورت) رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی پیروی کرتے ہیں۔ لیکن ہم عورتوں کا حال یہ ہے کہ ہم پردوں میں رہنے اور گھروں میں بیٹھنے والی ہیں مرد ہم سے اپنی خواہش نفس پوری کریں اور ہم ان کے بچوں کے بوجھ بھی لا دیں پھریں، مرد ،جمعہ ،جماعت، جنازہ اور جہاد میں، ہر چیز میں ہم سے سبقت لے گئے۔ وہ جب جہاد پر جاتے ہیں تو ہم ان کے پیچھے گھر بار کی حفاظت کرتی ہیں اور ان کے بچوں کو سنبھالتی ہیں۔ تو کیا ان کے ساتھ ہم کو بھی اجر ملے گا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سننے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم لوگوں نے اس سے بہتر ہیں۔ خاتون کی تقریر سنی؟۔ جس نے اپنے دین کے بارے میں سوال کیا ہو؟ صحابہ نے قسم کھا کر انکار کیا کہ، نہیں! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماء رضی اللہ کی طرف متوجہ ہوئے، اور ارشاد فرمایا، اے اسماء! میری مدد کرو، اور جن خواتین نے تم کو نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ان کو میرا یہ جواب پہنچا دو کہ، تمہارا اچھی طرح سے خانہ داری کرنا ،اپنے شوہر کو خوش رکھنا، ان کے حالات کے ساتھ ساز گاری کرنا، مردوں کے ان سارے کاموں کے برابر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں۔ حضرت اسماءرضی، رسول اللہ کی یہ بات سن کر، اللہ کا شکر ادا کر کے خوشی خوشی لوٹ گئیں۔ درس حدیث کے عنوان سے اس حدیث کا انتخاب اس مقصد سے کیا گیا ہے کہ آج کے پرفتن دور میں اسلام کو باطل قوتیں جس طرح نشانہ بنا رہی ہیں وہ محتاج بیاں نہیں۔ ہر محاذ پر، ہر جگہ مختلف جماعتیں، تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں ان سے نبرد آزما ہیں۔ ان مختلف محاذوں پر جہاں مرد حضرات باطل قوتوں سے برسرپیکار ہیں وہی ہم خواتین بھی رسول اللہ کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں عمل پیرا ہو کر اسی اجر کی مستحق ہو سکتی ہیں۔ جس کی نشاندہی اس حدیث میں کی گئی ہے ۔جہاد کی مختلف صورتیں ہیں۔ میدان جنگ میں دشمن دین سے مقابلہ کرنا یہ اگرچہ کہ جہاد کا افضل ترین پہلو ہے لیکن اسی کے ساتھ ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ بھی ملتا ہے ،کہ تم جہاد اصغر سے اکبر کی طرف پلٹ رہے ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ جہاد اکبر کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،کہ اپنے نفس کے خلاف جہاد۔۔۔۔ اسی طرح اللہ کے دین کی اشاعت اور اقامت، اس کے احکامات کے سلسلے میں جدوجہد، نیکیوں کا فروغ اور حکم کرنا ،اور برائیوں کا سدباب بھی اسی کی تعریف میں آتا ہے۔ حدیث مذکورہ میں خواتین کو اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں شوہروں کے گھر کی حفاظت اور اولاد کی پرورش کو بھی جہاد ہی تعبیر کریں اور مردوں کے برابر اجر کی امید رکھیں ہمارےپاس عورت کے دائرہ کار کو لے کر عام طور پر غلط فہمی پائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ مگر اسلام میں عورت کے دائرہ کار سے مراد یہ ہے کہ عورت جہاں ہے ،جس حالت میں ہے،حد ود شریعت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرے، اس کی صلاحیتوں کو مسخ نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا میدان عمل بہت وسیع ہے جس کی دلیلیلیں ہم کو ہماری قرن اولی کی ماؤں کے اسوہ میں نظر آتی ہیں۔۔۔ امہات المومنین اور دیگر صحابیات نے گھر کی چار دیواری میں رہ کر ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کہیں حالات کے تقاضوں کے تحت وہ میدان جنگ میں پوری طرح اسلامی تعلیمات سے لیس ہو کر زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیگر خدمات انجام دے رہی ہے وہیں ضرورت پڑنے پر ، جنگی تدبیروں سے واقفیت کی بنا پر، میدان جنگ کے قلب میں گھس کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے رحمت اللعالمین سے محبت کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہیں۔،،، جہاں وہ اپنے وقت کی بہترین تاجر ثابت ہورہی ہیں تو وہیں اپنے وقت کی علوم و فنون کے ماہر بھی۔۔کہ۔۔ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے مسائل دریافت کرتے نظر آئے اور آسمان علم کے ستارے بنے اور اقامت دین کی جدوجہدمیں بے مثال تاریخ ر قم کی۔ قرن اولی کی خواتین ایک طرف شریعت کے غیر معمولی علم سے آراستہ ہو کر وقت کے خلیفہ کو ٹوک رہی ہیں تو دوسری طرف خود اپنے اورمؤمن خواتین کے پندار اور نسوانیت اور وقار کی حفاظت کے لیے سپر پاور رومیوں کے خلاف تنہاصنف نازک کی جماعت کو ساتھ لے کرجنگ کر رہی ہیں۔ اور ظالم کو ببےخوف، دو ٹوک انداز میں سرزنش کر رہی ہیں۔ موجودہ فتنوں کے دور میں ہر محاذ پر خواتین کو آگے آکر اپنی تاریخ دہرانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس پر فتن دور میں صنفِ اناث کے اندر بے حیائی اور عریانیت کا رجحان پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسی کے نتیجے میں حکومت وقت اس سے متعلق غیر ضروری ہمدردیوں کے ساتھ ایسے بل اور قانون پاس کر رہی ہے جو اس کے لیے بہت ضرررساں ھے اس کی شخصیت اس کے مقام اور مرتبے کی توہین ہے جو اسلام اسکو بحیثیت خاندان اور سماج کی اساس کے طور پر عطا کرتا ہے ۔خواتین کی بے راہ روی کی وجہ سے اس کی گود میں پرورش پانے والی نئی نسل شکوہ کناں ہے عریانیت کے اس ماحول میں عورت اگر اسلامی حدود کی پابند رہے اور اپنے آپ کو اغیار کے ذہنی فکری اور جسمانی استحصال سے بچائے رکھے تو یہ بھی جہاد کے زمرے میں شامل ہوگا۔ مسلم خواتین اپنی تحریر و تقریر اور عمل سے اسلام کی صحیح تعلیمات اور تصویر پیش کر کے اسی اجر کی مستحق قرار پا سکتی ہیں جو مردوں کو میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے لڑنے پر اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ نسل نو کی تعمیر اسلامی خطوط پر کرکے وہ اعلی درجات پر فائز ہو سکتی ہیں ۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس پر شاہد ہیں۔ سابق امیر جماعت محترم اور مربی مولانا سید جلال الدین عمری اپنی تحریر میں لکھتے ہیں۔۔۔، موجودہ دور عورت کو بے قید زندگی کی دعوت دیتا ہے جبکہ اسلام اخلاقی حدود و قیود کو اس کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ دونوں کی منزل بالکل آنکھوں کے سامنے ہے ہم اسلام کی غیور بیٹیاں ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس راہ میں جتنی کوششیں کر سکتی ہیں ان طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی ،اور اس کے لئے سد راہ بننے کی، کوششیں کرتی رہیں تاکہ ہم بھی جہاد فی سبیل اللہ کے اجر کی مستحق ہو سکیں۔
امہات المومنین اور دیگر صحابیات نے گھر کی چار دیواری میں رہ کر ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کہیں حالات کے تقاضوں کے تحت وہ میدان جنگ میں پوری طرح اسلامی تعلیمات سے لیس ہو کر زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیگر خدمات انجام دے رہی ہے وہیں ضرورت پڑنے پر ، جنگی تدبیروں سے واقفیت کی بنا پر، میدان جنگ کے قلب میں گھس کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے رحمت اللعالمین سے محبت کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہیں
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۱