ہمہ جہت شخصیت، ڈاکٹر ترنم صد یقی
ہمارے اطراف و اکناف میں بلند عزائم اور زندہ جذبوں سے ڈھلی چند ایسی شخصیات ضرور موجود ہوتی ہیں جن کے درد مند دل اور خدمت خلق کے جذبے ہمیشہ جواں رہتے ہیں ۔ سماج میں اصلاحات لانے اور فطرتِ خلق کے نافذ کردہ قوانینِ مساوات کے لزوم کے لیے رات دن خاموشی سے برسرِ پیکار رہتی ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی کے سروجنی نائیڈو سنٹر فار ویمنس اسٹڈیز کی ایکیڈمیشن اور ہمہ جہت شخصیت ترنم صدیقی صاحبہ ہیں ۔
آج گفت و شنید میں انہیں کے ساتھ ہوئی گفتگو کو قارئین کی نذر کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ قبل اس کے کہ ترنم صدیقی صاحبہ سے گفتگو کا آغاز ہو پہلے یہ بتاتی چلوں کہ ترنم صدیقی صاحبہ نے خواتین کے مسائل پر کافی کام کیا ہے۔ جن میں نمایاں فوجداری انصاف کے نظام پر یعنی (Criminal justice. system)
اور صنفی مساوات (Gender Justice) پر اور پھر’’ مسلم پرسنل لا میں خواتین کے حقوق کیا ہیں؟”۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے مسائل پر بھی کام کرتی رہی ہیں اور وہ ایک مصنفہ بھی ہیں ۔ ان کی شہر آفاق کتاب’’ مسلم پرسنل لاء میں مسلم خواتین کے حقوق”، ملک اور بیرون ملک بھی چھپ چکی ہے ۔ وہ خواتین کے لیے قانونی اور آئینی صلاح کار کے طور پر بھی کام کرتی ہیں ۔ وہ خواتین کے دیگر عمومی مسائل صحت، تعلیم، حقوق و انصاف پر بھی بہت فعال ہیں ۔
ای میگزین ہادیہ کے افتتاحی شمارہ کے صفحہ گفت و شنید کے لیے ترنم صدیقی صاحبہ کا انتخاب کا مقصد دراصل خواتین کی صفحوں میں ان نمائندہ خواتین شخصیات کو ابھارنا ہے جو رات دن ایک بہتر سماج کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود میں لگی رہتی ہیں ۔ آپ نے وکالت کی تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے بعد مسلم پرسنل لاء میں خواتین کے حقوق پر پی ایچ ڈی کی ہے تو آئیں، ترنم صدیقی صاحبہ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں ۔
سوال:میرا سب سے پہلا سوال ان سے یہ ہے کہ آپ نے اپنا میدانِ کار خواتین کے موضوع کو لے کر چنا اور مسلم خواتین کے مسائل پر کافی کام کیا ہے تو آپ کے سامنے کیا تجربات آئے۔
جواب: دیکھیے تجربات تو بہت کچھ سامنے آئے اور میں یہ کہوں گی کہ ہر تجربہ کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے۔ میں نے اپنا کام جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع کیا تو یہاں سیکھنے والے طلباء کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سے اساتذہ بھی ہیں جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن جب میں نے صنفی مساوات کے لیے عورتوں کے حقوق پر کام کیا تو اس سلسلے میں جب بھی میری مختلف مقامات پر متاثرہ خواتین کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے، یعنی کام کی جگہ ہراسانی Work place harassment کا سامنا کرنے والی خواتین کے حق و انصاف کی بات کرتے ہوئے یا آئین میں ان کے حقوق کی بات کرتے ہوئے، ہر جگہ مجھ سے یہی سوال کیا جاتا، خصوصاً مردوں کی جانب سے اکثر یہی سوال سامنے آتا کہ کیا یہ قرآن میں لکھا ہے؟ کیا آپ نے قرآن میں یہ پڑھا ہے؟ میں اگر کہتی بھی کہ میں تو خواتین کے حق و انصاف کی اور کام کے مقام پر ہراسانی(Work place harassment) کا سامنا کرنے والی خواتین کے آئینی حقوق پر بات کرنے آئی ہوں جو انہیں قانون کی جانب سے سے ملے ہیں، تب بھی وہ میری بات نہیں سنتے۔ پہلے میرا قرآن کا مطالعہ اتنا گہرا نہیں تھا میں نے ترجمہ سے قرآن نہیں پڑھا تھا۔ اس کے بعد میں نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا اسے پڑھا، ساری چیزوں کو سمجھا دیکھا اوراس کی گہرائی میں گئی اور اسلامی تعلیم کو جب قریب سے جانا، تب مجھے پتا چلا کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دئیے گئے ہیں ان میں بہت باریک باتوں کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ میں خود ان لوگوں سے سوال کرنے لگی جو علماء کہلائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر خلع کا معاملہ ہی لے لیں، میں خود ان سے سوال کرنے لگی کہ پہلی مرتبہ خلع کا حکم کب آیا تو وہ جواب نہیں دے سکے۔ یعنی لوگوں کو اسلامی تعلیمات کی گہرائی کا علم ہی نہیں ہے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور کی ایک خاتون کا واقعہ ہے کہ وہ خلع مانگنے لگیں وجہ پوچھی گئی تو معلوم ہوا کہ سب کچھ ٹھیک ہے مگر انہیں ایک مرتبہ اپنے شوہر کی، جب کہ وہ کچھ اور لوگوں کے درمیان تھے، جسمانی وضع قطع Physical appearanceاچھی نہیں لگی۔ آج کے دور میں کوئی اس طرح کے مسئلے پر خلع کا مطالبہ نہیں کرے گا پھر ہم خود اسے سمجھانے لگ جائیں گے کہ تم گذر کرلو۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔تو میرا یہ کہنا ہے کہ اسلام نے بہت سی باریک باریک باتوں یعنی لطیف جذبات کو بھی اہمیت دی ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پڑھتے نہیں، مطالعہ نہیں کرتے اگر ہم خود جاننے لگ جائیں گے تو کوئی ہمارے حق چھین نہیں سکے گا ۔ یہ تھے کچھ تجربات جو ہماری زندگی پر اثر انداز ہوئے۔

سوال:مسلم پرسنل لاء میں مسلم خواتین کے حقوق پر آپ کی کتاب ہے تو میرا یہ سوال یہ ہے کہ اس کتاب میں آپ نے کیا بتانے کی کوشش کی ہے کیاخواتین کو سماج میں ان کے حقوق مل رہے ہیں؟ اگر نہیں تو اس کے لیے کیا کیا قدم اٹھانے چاہیے ؟
جواب: میں بہت زیادہ تفصیل میں تو نہیں گئی ہوں لیکن میں نے اس کتاب میں جو کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ عورتوں کو بنیادی حقوق یعنی اپنے پرسنل رائٹس پتہ ہوں۔اس میں، میں نے شادی، مہر، طلاق، نان و نفقہ ان چار مدوں پر ہی بات کی ہے۔ اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورتوں کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ ہمیشہ مرد کی جانب سے طلاق دینے پر بات ہوئی ہے لیکن کبھی اس پربات نہیں ہوتی کہ ایکعورت اگر ناخوش ہوتو وہ کس طرح اس رشتے سے الگ ہوسکتی ہے ۔اسی طرح ایک بیوہ یا مطلقہ کی دوبارہ شادی کرانے کا رواج سماج میں رائج کرنے پر ایک خوبصورت سوسائٹی کا احیاء ہو سکتا ہے۔ عدت میں اس کو نان و نفقہ ملے، طلاق کے بعد والد، بھائی کی کفالت حاصل ہوجائے، اس کو گھر سے نہ نکالا جائے اور یہ تمام چیزیں سماج میں عام ہو جائیں ۔اس مقصد کے لیے میں نے اس کتاب میں پوری کوشش کی ہے۔ پڑھی لکھی خواتین کو یا آپ جیسے لوگوں کو پتہ ہوگا لیکن ہر جگہ خواتین کو یہ نہیں معلوم ہوتا۔ اسی لیے میں نے اسلام میں خواتین کے حقوق کو عام کرنے کے لیے یہ کوشش کی ہے ۔ اس کتاب کا اردو اور ہندی میں بھی ترجمہ ہوا ہے تاکہ سبھی لوگ اسے پڑھ سکیں۔
میرا اگلا سوال یہ ہے کہ آج کل خواتین کے ساتھ گھریلو تشددمیں اضافہ ہورہا ہے تو میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اس کی وجہ کیا ہے اور کیا پڑھے لکھے گھرانے کی خواتن بھی اس کا نشانہ بن رہی ہیں؟
جواب: پڑھی لکھی اور نا خواندہ جن کو ہم جاہل کہہ دیتے ہیں وہ بھی بہتر سمجھ رکھتی ہیں۔ دراصل تشدد یا گھریلو مظالم کئی طرح کے ہوتے ہیں ۔ معاشی طور پر ذہنی طور پر، یہاں تک کہ ڈگری یافتہ عورتیں جو کما کر لاتی ہیں وہ بھی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ان سے سب کچھ چھین لیا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو وہ بالکل خالی ہاتھ گھروں سے نکال دی جاتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تشدد کئی طرح کا ہوتا ہے اور ہر طبقہ اس کا شکار ہوتا ہے۔انہیں ٹارچر کیا جاتا ہے۔ ذہنی طور پر بھی پریشان کیا جاتا ہے اور ہم جب بات کرتے ہیں تو مظلوم کی بات تو کرتے ہی ہیں اور کرنی بھی چاہیے، مگر ظالم یا ظلم کرنے والے پر بات نہیں ہوتی بس جس پر ظلم ہوا اسی پر بات ہوتی ہے۔ میں یہ کہوں گی کہ اس پر بھی بات ہونی چاہیے اس کا بھی ہاتھ پکڑا جانا چاہیے ۔بعض اوقات جو ظلم کررہا ہے اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ظلم ہوا ہے یا غلطی
اس کی بھی ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے کئی تجربات بھی کیے ۔یعنی ہم نے جرائم پیشہ ، گھریلو مار پیٹ کرنے والے، شراب پی کر گھر میں تشدد برپا کرنے والے، جھگی جھونپڑی والے علاقوں کے 30مردوں کو لے کر ان کی ٹریننگ کی۔ ایک ماہ تک انہیں بتایا اور سمجھایا گیا ۔ ان کی کونسلنگ کی گئی اور پھر انہیں پولیس اسٹیشن سے سرٹیفکیٹ دلوایا گیا۔پولیس والوں کے ذریعہ انہیں انتباہ دیا گیا کہ اگرلوگ ان کے خلاف کسی جرم یا کرائم کی شکایت درج کرائیں تو ان کی شکایت کو سنا جائے گا اور اسے درج کیا جائے گا۔ سروے کنندگان نے مسلسل ایک سال تک اس علاقے پر نظر رکھی اور جب ایک سال کے بعد جائزہ لیا گیا تو یہ پایا کہ کرائم کافی کم ہوگیا۔ گھریلو تشدد کے واقعات بھی کم ہوگئے یعنی چور سے اگر یہ کہہ دیا جائے کہ چوکیداری کرو تو وہ زیادہ چوکنا ہوجاتا ہے۔ذمہ داری پاکر وہ خود ہی صحیح ہوجاتا ہے۔ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ ہمیشہ ایک ہی صنف پر کام ہوتا ہے دوسری پر بھی کام ہونا چاہیے ہمیں یہ چاہیے کہ ہم اپنی سوسائٹی کو برابر کے حق آور توجہ دیں تب جیسا چاہیں گے ویسے ہی سوسائٹی بنے گی اور ہم کو متناسب(Equal)سوسائٹی کی تعمیر کرنی چاہیے لوگ سوچتے ہیں کہ عورتیں حاوی ہوجائیں گی مگر ایسا نہیں ہے۔

سوال:اسی میں سے ایک سوال اور نکل رہا ہے کہ اس طرح کے بیداری لانے کے جو پروگرام کیے جارہے ہیں تو کیا اس سے تشدد میں کمی آرہی ہے یا پر اضافہ ہی ہورہا ہے اور ابھی اس عالمی وبا کے دوران بہت سے ایسے واقعات کی خبریں آئیں جس سے یہ لگا کہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: دیکھیے! ایسا تو دیکھنے کو ملا اور یہ خبریں بھی آئیں کہ مرد گھروں میں برتن مانجھ رہے ہیں، صفائی کررہے ہیں، مگر کتنے لوگوں نے برتن مانجھے اور صفائی کی؟ اور مانجھے بھی تو اپنی مرضی سے، مگر ایک خاتون جس طرح سے روٹین کے مطابق کام کرتی ہے گھر کے تمام لوگوں کو کھلا کر سوتی ہے ۔ چاہے وہ گھر کے باہر کام کررہی ہو یا گھر میں رہ کرکام کرتی ہو۔ اگر وہ آن لائن ویبینار اٹینڈ کررہی ہوتی تب بھی اس نے دروازہ کی بیل پر اور گھر کے کاموں پر توجہ دیتی ہے۔ مرد اگر گھر سے کام کررہا تھا تو وہ دروازہ بند کرکے بچوں کے کمرے میں داخلے سے روک کر کام کرتا تھا مگر ایک خاتون جب کام کرتی ہے تو سب کو ساتھ لے کر کام کرتی ہے اور اس کے باوجود یہ خبریں آئیں کہ چائے ملنے میں دیر ہوئی تو ہنگامہ اور مار پیٹ کی گئی جبکہ عورتیں سب کچھ کررہی تھیں ۔ کام کرتے ہوئے بھی لائن میں لگ کر راشن بھی لیتی ہیں کھانا بھی لیتی ہیں اور گھر آکر سب کو کھلاتی ہیں اور وہ سب سے آخرمیں کھانا کھاتی ہیں ۔ سفر کے دوران ان کو ریپ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس کو دہلی ویمنس کمیشن اور کئی این جی اوز نے بھی روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ہم کو بھی اپنے طور پر اس کو روکنے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے ۔ تب ھی سدھار ہوسکے گا۔

سوال: معاشرے میں خواتین ۔۔۔کی مانگ (Faminism)اور مساویانہ اختیارات کے حصول کا دباو (Gender justice)کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں اس پر آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب:دیکھیے فیمنسٹ صرف عورتیں ہی نہیں بلکہ مرد بھی ہوتے ہیں ہم حقوق کے نام پر یا برابری و مساوات کے نام پر تو وہ بنا کسی صنفی تفریق کے، کوئی بھی وکالت کریں گے تب یہ بالکل نہ دیکھیں کہ مرد ہے یا عورت تو جب بناکسی جنسی تفریق کے بات ہوگی تو یہ فیمینزم ہے۔ اس میں بات یہ نہیں ہوتی کہ صرف مردوں کو باہر جاکر کام کرنا چاہیے اور عورتوں کو نہیں یا صرف عورت ہی گھر میں کام کرے گی مرد نہیں۔ اگر مرد کوئی خادمہ نہیں رکھ سکتا تو کہا گیا ہے کہ آپ بھی برابر سے کام میں شریک ہوں۔ ایک بھائی کی یا شوہر کی حیثیت سے۔ نبی ؐ کے دور میں ہماری بہت سی خواتین جنگوں میں برابر شریک ہوتی تھیں۔
تو عورت باہر کام کرکے آئے اور گھر میں بھی کام کرے یہ کہیں نہیں لکھا ہے اور پھر اس سے یہ توقع کہ وہ ہر کام بہتر طریقہ سے انجام دے اس کی چائے بھی اول ۔کھانا بھی اول ۔اور وہ بن سنور کر بھی اول ہی نظر آئے۔ تو یہ ساری چیزیں سماج میں ہم نے بنا رکھیں ہیں یہ ہم ہی طے کرتے ہیں۔ مصر میں عورتیں زمین جائیداد کھیتی باڑی سب سنبھالتی ہیں مرد گھر میں کام کرتے تھے۔ پہاڑی علاقوں میں عورتیں باہر کام کرتی ہیں اور مرد گھر میں رہتے ہیں تو ہم سوسائٹی کو جیسا تیار رکیں گے وہ ویسی ہی بنے گی۔ بیٹی سے باہر تھک کر آئے تو پانی خود پیئے بھائی باہر سے تھکا ماندا آئے تو بہن اسے پانی دے تو بہن تھکی نہیں ہوتی بھائی تھکا ہوا ہوتا ہے یہ سب ہم نے بنا رکھا ہے۔ بچوں کو ہم بچپن سے ہی اس طرح بنادیتے ہیں تو ہمیں بھائی کو اور شوہر کو ایسا بنانا ہے کہ وہ بھی کام کرے۔ ہم لڑکوں کے ہاتھوں میں بندوق اور لڑکیوں کو گڑیا کیوں دے دیتے ہیں۔ تو سوسائٹی سے یہ تفریق ہمیں کم کرنی ہوگی۔

سوال : تعلیمی میدان میں مسلمانوں اور خصوصاً مسلم خواتین کی کیا صورتحال ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی بتائیے کہ نا خوانداہ اور پچھڑی ہوئی خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہیے؟
جواب: تعلیم کے میدان میں مسلم خواتین کا اور مردوں کا فی صد کافی کم ہے۔ مسلمانوں میں ابھی تعلیم پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق بھی مسلمانوں کا تناسب کافی کم ہے بلکہ دلتوں اور آدی واسیوں سے بھی کم ہے اور دوسری رپورٹ کے مطابق بھی عیسائی اور دیگر مذاہب کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ یوں تو آپ کو دیکھنے میں ایسا لگے گا کہ مسلم لڑکیاں بہت تعلیم حاصل کررہی ہیں لیکن دوسروں کے مقابلے میں یہ کم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جب بارہویں پڑھ لیتی ہیں تو ان کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق قصبوں میں نے خود بھی جائزہ لیا کہ بچوں کی شادیاں جلدی اس لیے کردی جاتی ہیں کہ کالج دور ہوتے ہیں اور ان کو بہت دور چل کر جانا پڑتا ہے اور کبھی کبھی کچھ حالات خراب ہوتےہیں تو مسئلہ ہوتا ہے دراصل ہر وقت لڑکیوں کی حفاظت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ والدین یہ سوچتے ہیں کہ وہ ہماری ذمہ داری سے نکل کر دوسری کی ذمہ داری میں چلی جائے اور یہ بات کہہ چکی ہوں کہ ہماری سوسائٹی مظلوم کو ہی قصور وار ٹھہراتی ہے تو اعلیٰ تعلیم (ماہر ایجوکیشن) میں لڑکیاں نہیں جاپاتی۔ تب اگر ایسا ہے تو ان کو کوئی ہنر ( skill) سکھانا چاہیے تاکہ وہ اپنی معاشی ضروریات پوری کرسکیں ۔ ہم کو اس کے لیے قدم اٹھانا چاہیے اور یہ صرف مسلم لڑکیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ سب کا یہ مسئلہ ہے ایک پڑھی لکھی لڑکی پورے گھر کو پڑھاتی ہے اپنے کاموں کو سرکاری قانونی کاموں کو سمجھ سکتی ہے اچھی طرح سے Dealکرسکتی ہے جبکہ لوگ یہ جو سوچتے ہیں کہ لڑکے کو پڑھائیں لڑکی کیا کرے گی یہ صحیح نہیں ہے ۔ ہمیں ہر بچہ کو پڑھانا چاہیے اور وہ لڑکی ہو یا لڑکا ہو ہندو ہو یا مسلم ہو، سب کو پڑھانا چاہیے ۔ یہ سوچ کر کہ بچہ پڑھ لے گا تو سوسائٹی میں بہت سے لوگوں کا اس سے فائدہ ہوگا۔

سوال :اسلامی تعلیمات سے دوری اور اسلام میں خواتین کے حقوق اور ذمہ داریوں سے ناواقفیت، مسلم معاشرے پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟
جواب:دیکھے میں کوئی اسلامی اسکالر نہیں ہوں اس لیے اس کے جواب میں صرف یہ کہوں گی کہ اگر اسلامی سوسائٹی کی بات کرتے ہیں تو میں یہ کہوں گی کہ ہم ایک مردوں کی دنیا (man dominated society)میں رہتے ہیں۔ ہمیں قرآن بھی پڑھایا جاتا ہے تو عربی میں، ہمیں قرآن بھی اور دوسری چیزں بھی ہماری اپنی زبان میں پڑھانا چاہیے۔ قرآن کو بھی پڑھایا اور رٹایا جاتا ہے جبکک ہم کو زبان کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ہم debateبھی کریں تو اپنی زبان میں کریں ۔جب تک ہم جو پڑھ رہے ہیں اس کو سمجھیں گے نہیں اس وقت تک سوسائٹی میں اپنے حقوق کو ذمہ داریوں کو کیسے جانیں گے ۔۔۔اور اچھی اور بہتر سوسائٹی کیسے وجود میں آئے گی! تو ہم جو کچھ بھی پڑھیں، سیکھیں، سمجھیں وہ اپنی سمجھ کے ساتھ حاصل کریں۔

سوال: آئیڈیل اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کس طرح کی تحریکات کو فعال بنانے کی ضرورت ہے؟
جواب: آئیڈیل اسلامی معاشرہ کی بات کرتے ہوئے ہمیں آئیڈیل معاشرہ کی بات کرنی چاہیے جب معاشرہ آئیڈیل ہوگا تو وہ اپنے آپ ہی آئیڈیل مسلم، ہندو، سکھ اور جین معاشرہ بن جائے گا۔ سب سے پہلے تو اس کے لیے ہمیں اپنے بنیادی حقوق جاننے چاہیئں ہم کو کوئی حق دیتا نہیں بلکہ ہمیں حق لینا چاہیے اور جب بنیادی حقوق لینے ہوں تو ڈیوٹیز کو بھی جاننا ہوگا تو اس کے لیے تعلیم کا ہونا یعنی تعلیم یافتہ Educateہونا ضروری ہے ہمیں نہیں پتہ کہ Domestic Violenceگھریلو تشدد کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہی نہیں کہ سرکاری کیا اسکیمیں کیا ہیں کس طرح سے آگے بڑھنا چاہیے تو ان تمام چیزوں کے لیے تو تعلیم ضروری ہے ۔تب ہی ہم کچھ کرسکیں گے اور آئیڈیل اسلامی معاشرہ بنانے کے لیے تو ہمارے مرد حضرات کو بہت تکلیف ہوگی کیونکہ وہ اتنے حقوق تو عورتوں کو دے ہی نہیں سکیں گے جو اسلام نے انہیں دیے ہیں تو اس کی بات تو ابھی ہم نہ ہی کریں تو بہتر ہوگا۔ ہماری سوسائٹی میں لڑکی کا حق ہی نہیں دیا جاتا، نکاح کے موقع پر بس لڑکی کی طرف سے روایتی اعلان کردیا جاتا ہے کہ ہاں کردی گئی ہے ۔اس کا حق اس کو دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ یہ کہاں کی اسلامی تعلیم ہے اس سلسلے میں کہ اسلامی تعلیم کیا ؟ پہلے یہاں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔

سوال: آپ سماج میں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کررہی ہیں تو آپ یہ بتائیں کہ آپ کے پاس کس کس طرح کی خواتین رجوع کرتی ہیں ان کے مسائل عموماً کیا ہوتے ہیں؟ اس کے علاوہ موجودہ دور میں خواتین کو درپیش مسائل اور چیلنجز کیا ہیں؟
جواب:عورتوں کے ساتھ چاہے وہ کوئی بھی عورت ہو لیکن اس کو گھریلو مار پیٹ اور جھگڑوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے یہ بات کہی جائے کہ شادی کے بعد ایسا ہوتا ہے ۔ میں تو یہ بھی کہوں گی کہ ابھی بھی لڑکیاں صرف اس لیے چھوڑدی جاتی ہیں کہ انہوں نے ایک لڑکی کے بعد دوسری لڑکی پیدا کی اور اس کے لیے ان کی طلاق تک ہوجاتی ہے میرے پاس اسطرح کے کیس آئے ہیں اور ان کو سمجھانا پڑتا ہے۔ ان کی کونسلنگ کرنی پڑتی ہے ۔ اس طرح کے کیسس کے لیے دارالقضاء کا ہونا بہت ضروری ہے اور ایسی دارالقضاء ہو جہاں عورت بھی قاضی کے طور پر ہو اور وہ ماہر ہو۔ دین کی پوری معلومات رکھتی ہو ٹرینڈ ہوتو پھر مسائل حل ہوسکیں گے۔ تاکہ ہمارے گھریلو مسائل کورٹ میں نہ جائیں اور مسائل وہیں کے وہیں حل ہوجائیں گے۔ لیکن عورت قاضی ہوتو اسے ہر طرح کی معلومات حاصل ہوں۔مسلم پرسنل لا انڈین لا وغیرہ۔

سوال: آخر میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ کو اس وقت فعل مجرمانہ قرار دے کر سزا طے کردی گئی ہے اس سے مسلم خواتین کو اور مسلم سماج پر کیا اثر پڑے گا۔
جواب:دیکھیے ۔۔۔اس پر میں یہ کہوں گی کہ طلاق پر میں نے بہت کام کیا ہے لیکن جب اسے سزا سے جوڑ دیا گیا تو میں اس پر تھوڑا پیچھے ہوگئی۔ کیونکہ طلاق تو عورت کے باہر نکلنے کی سیل ہے راستہ ہے۔ طلاق تو جائز چیزوں میں سب سے نا پسندیدہ کہا گیا ہے۔ اس میں ایک بات تو یہ ہے کہ پہلے ہی ہمارے ہاں طلاق کو ہوا بنالیا گیا ہے ۔ اس میں بھی فوری تین طلاق تو ہے ہی نہیں۔۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ جس طرح کا طریقہ قرآن میں ہے اور اس پر صحیح طور پر عمل کیا جائے تو یہ اتنا لمبا طریقہء عمل ہے کہ اس پر سال سے زیادہ گزر جائے گا اور پھر بھی ساتھ نہ رہ سکے تو اسے اپنی بیوی کو چھوڑنا ہی ہوگا لیکن اس طرح کی پابندی عائد کرنے سے نقصان ہوگا اور کوئی بھی ظالم شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے گا ہی نہیں ۔میرے خیال سے یہ صحیح نہیں ہے۔

محترم قائرین ہمارے ساتھ ترنم صدیقی صاحبہ نے بہت ہی اہم معلومات شیئر کیں اور ہمارے سوالوں کا جواب دیا میں اپنی ہادیہ ٹیم کی طرف سے ان کا بہت بہت شکریہ ادا کرتی ہوں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۱