ام الدرداء ؓ۔ ذکر وفکر کی معراج
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
صحابی جلیل ابوالدرداءؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنی گھریلو ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ دن کی ہر ساعت کو عبادت الٰہی اور ذکر الٰہی میں مصروف رکھتے تھے۔ نبی ﷺ کی صحبت نے ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دیا تھا ۔ آپ کی زوجہ محترمہ أم الدرداء ؓ بھی اسی رنگ میں رنگ گئی تھیں‏۔ اللہ کا ذکر ان کے پورے وجود میں رچ بس سا گیا تھا ۔دیکھنے والے حیرت کرتے تھے کہ گھریلو زندگی کی ہزارہا مصروفیات کے باوجود آخر انہیں اتنی یکسوئی کیسے حاصل ہوتی ہے۔
ابوالدرداء ؓ کی زوجیت میں دو أم الدرداء آئیں ، ایک أم الدرداء الکبری ؓ اور دوسری أم الدرداء الصغری ؒ ۔ پہلی کی حصے میں شرف ِ صحابیت آئیں اور وہ رضی اللہ عنہا کی مستحق قرار پائیں اور دوسری خیرالقرون کے پائیدان پر متمکن ہوکر تابعیہ قرار پائیں ۔
مشہور تابعیہ أم الدرداء کا اصلی نام ہجیمہ بنت حی الوصابیہ تھا ، جو قبیلہ حمیر کےایک سردار کی بیٹی تھیں ‏۔ ابو الدرداء کے انتقال کے بعد امیر معاویہ ؓ نے ان کے پاس نکاح ثانی کا پیغام بھیجا ، مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے میں آپ کی زوجیت میں آکر مال وجاہ کی مالک بن سکتی ہوں ، مگر میں آخرت میں ابوالدرداءؓ کی معیت کی ہی طالب ہوں۔ ابوالدرداءؓ کا مقام آپ کی نظرمیں پہلے بھی عظیم تھا ۔ حدیث کی روایت میں وہ ہمیشہ ان کا نام لینے سے کتراتی تھیں اور یہ کہتی تھیں کہ “ حدثنی سیدی ‘‘ یا “ سمعت عن سیدی ‘‘ ، جو صحابیء رسولﷺ کے تئیں ان کے عزت و احترام کا مظہر ہے۔
ام الدرداء دمشق اور اطراف میں اپنے علم و فضل اور زہد و ورع کی وجہ سے بہت معروف تھیں ۔ دور دور سے لوگ آپ سے حدیث نبوی سننے کے لیے قصد کیا کرتے تھےاور جب وہ قرآن پڑھ کر سناتی تھیں تو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی گفتگو میں وہ تاثیر ودیعت کی تھی کہ آپ کی گفتگو کے سحرسے سخت دل لوگ زارو قطار رونے لگتے تھے اور محفل حدیث آہ وبکا کا منظر پیش کر رہی ہوتی تھی۔
مشہور تابعی عون بن عبداللہ ؒ جو خلیفہ راشد حضرت عمر بن العزیز ؓ کے بہت قریب تھے اور ان کے بچوں کی تربیت پر مامور بھی تھے، فرماتے ہیں کہ ایک دن فہم قرآن کی مجلس ذرا طویل ہو گئی، میں نے أم دالدرداء سے عرض کیا کہ ہم لوگ آپ کے آرام کا بھی خیال نہیں رکھ پاتے اور مسلسل استفسارات کرتے رہتے ہیں ‏، کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ حسب ضرورت درس میں وقفہ کردیا کریں ۔ ام الدرداء نے عرض کیا ،” تم کیسے یہ سوچ سکتے ہو کہ ان ایمان افروز مجلسوں سے میں اکتا جاؤں گی؟ یہی مجلسیں تو ہماری راحت کا ذریعہ ہیں، دل کا سکون اسی میں پنہاں ہے ، اس میں روح کی غذا اور قلب کی صفاء ہے“۔
عام طور پر انسانوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ عبادات کے تعلق سے افراط وتفریط کے شکار ہو جاتے ہیں۔ رجوع الی اللہ کی کیفیت میں جب اضافہ ہوتا ہے ، تو مصلے سے چمٹے رہتے ہیں ، فرائض و سنن کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی اسی قدر اہتمام ہوتا ہے ۔ مگر جب شیطانی غلبہ ہوتا ہے یا نفس کی پیروی شروع ہوجاتی ہے ، اس وقت فرائض میں بھی کوتاہی کا صدور ہونے لگتا ہے۔ لیکن اللہ کے خاص بندے اس کمزوری سے مستثنی ہوتے ہیں ۔ ام الدرداء ؒ کا تعلق بھی اس قبیل سے تھا ‏۔ مشہور تابعی مہران بن عبداللہ ؒفرماتے ہیں کہ” میں جب بھی ام الدرداء کی خدمت میں حاضر ہوا ، انہیں یا تو عبادت میں مشغول پایا ، یا پھر قرآن وحدیث کے موتی بکھیرتے پایا“ ۔ ان کی خدمت میں ہر وقت علم حدیث کی طالبات حاضر رہا کرتی تھیں، جو صرف ان سے علم حدیث پر اکتفا نہیں کرتی تھیں ، بلکہ ان محافل میں ان کے تزکیہ کا وافر سامان بھی ہوتا تھا ۔ گاہے بہ گاہے شب بیداری کا وہ اہتمام ہوتا کہ ایسا لگتا یہ مجالس صرف اہل دنیا کے لیے نہیں ہیں بلکہ آسمان سےچنندہ مخلوقات بھی استفادے کی غرض سے حاضر ہوگئی ہیں ۔مشہور راویء حدیث یونس بن میسرہ نے أم الدرداء کے بارے میں فرمایا ،” علم حدیث کی اس مجلس میں عورتوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی حاضر ہوتے تھے ، رات کے وقت ہم مسجد کا رخ کر لیا کرتے تھے اور عورتوں کی محفل عبادت گاہ میں تبدیل ہوجاتی تھی ۔ وہ پور ی رات قیام لیل کے لیے وقف ہو جاتی تھی ، فجر کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پیروں پر ورم آگیا ہو، مگر بعد نماز ظہر پھر وہی مجلس جم جاتی تھی ۔
ام الدرداء ؒ کی ان روحانی اور علمی مجلسوں سے جب ہم آج کی مجلسوں سے مقابلہ کرتے ہیں ، تو ہمیں بعد المشرقین نظر آتا ہے ۔آج بھی شب بیداری ہوتی ہے ، مگر اللہ کے حضور نہیں بلکہ طاغوت کے آلہ کار بن کر، کتنی ہی ہماری مائیں بہنیں ہیں ، جو فحش لٹریچر ، حیاسوز ڈراموں ، سیریئلوں اور فلموں پر اپنی راتوں کو سفید کرتی ہیں۔۔۔ کیا جدید سہولیات اور آلات کو ہم نیک مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔ سوچئے، اور ذرا تنہائی میں سوچئے!!
جرح وتعديل كے امام یحیٰ بن معین ؒ بیان کرتے ہیں کہ جب ابوالدرداء ؓ کا انتقال ہوا ، تو أم الدرداء کچھ بھی جزع فزع نہیں کیا ، بلکہ استقامت کی تصویر بنی کھڑی رہیں اور میت کی طرف رخ کرکے کہا،” اے نفس مطمئنہ تو اپنے رب کی راہ لے ، میں بھی اپنے رب کی رضا کے لئے اپنے مصلی کا رخ کرتی ہوں “۔ صبر کے اس اعلیٰ ترین اظہار کا موقع ان کی زندگی میں یہ پہلی بار نہیں تھا، بلکہ اس سے قبل بھی کسی نے ان کے منہ سے کوئی آواز نہیں سنی، جب ان کے ہاتھ میں ہی ان کی نوزائیدہ بیٹی نے دم توڑدیا اور جنت کی راہ لی۔
علم وفقہ اور زہد و تقویٰ کے ان اعلیٰ مراتب پر فائز ہونے کے باوجود أم الدرداء ؒ نے تواضع کا چادر اوڑھ رکھی تھی ۔ مشہور تابعی ابراہیم بن ابی عبلہ نے ایک بار ان سے دعا کی درخواست کی ، تو أم الدرداء نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ کب سے میں اس بات کی اہل ہو گئی کہ میں دوسروں کے لیے دعائیں کروں؟
ام الدرداء ؒ کا قرآن سے بڑا گہرا تعلق تھا ۔ قرآن ان کے خلوت میں رفیق تھا ، تو دوسری طرف ان کے جلوت میں قرآن فہمی کے دروس ہوتے تھے ۔جس میں اکابرین، تابعین، شریک ہونا اپنے لیے شرف سمجھتے تھے ‏۔ سعید بن عبد العزیز دمشقی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک بار أم الدرداء دمشق سے بیت المقدس کی طرف عازمِ سفر تھیں ۔راستے میں انہوں نے سلیمان بن عبید اللہ سے خواہش ظاہر کی کہ وہ تیز آواز سے قرآن سنائیں ۔جب وہ قرآن پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے، “ أَفَحَسِبتُم أَنَّمَا خَلَقنَاكُم عَبَثًا وَأَنَّكُم إِلَينَا لاَ تُرجَعُونَ (المؤمنون: 115)
تو دیکھا کہ وہ زارو قطار رو رہی ہیں اور ان پر غنودگی کی کیفیت طاری ہے ۔
یہ ہیں ہمارے اسلاف، اور یہی ہیں ہمارے رول ماڈل ۔ مگر ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم اپنے حقیقی رول ماڈل کو پہچان نہیں پا رہے ہیں ۔ حوادثِ زمانہ نے ایسی گرد اڑائی ہے کہ اصلی ہیرے نقلی نظر آتے ہیں اور پالش شدہ پتھر ہیروں کے دام بِک رہے ہیں ۔
اللہ راضی ہو ان سعید روحوں سے ۔
اللہ توفیق دے ان کی اتباع کی۔
عام طور پر انسانوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ عبادات کے تعلق سے افراط وتفریط کے شکار ہو جاتے ہیں۔ رجوع الی اللہ کی کیفیت میں جب اضافہ ہوتا ہے ، تو مصلے سے چمٹے رہتے ہیں ، فرائض و سنن کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی اسی قدر اہتمام ہوتا ہے ۔ مگر جب شیطانی غلبہ ہوتا ہے یا نفس کی پیروی شروع ہوجاتی ہے ، اس وقت فرائض میں بھی کوتاہی کا صدور ہونے لگتا ہے
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۱