ہاتھ پیلے ہوتے ہوتے رنگ پیلے ہوگئے
برصغیر میں جہیز کی روایت اور مسلم معاشرے کی تنزلی
برصغیر میں عام طور پر دلہن والوں کو بیٹی سمیت ڈھیر سارا“ جہیز”بھی دینا پڑتا ہے باوجود، اس عمل کی متواتر حوصلہ شکنی بھی کی جاتی رہی ہے کیونکہ جہیز کی یہ فرسودہ روایات، نہ صرف اسلامی تعلیمات کی منافی ہیں بلکہ ایک مضبوط اسلامی معاشرے کی تشکیل کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ان روایات کی بھینٹ چڑھنے والی بے شمار بیٹیوں کی اندوہناک کہانیاں بھی اپنی الگ طویل داستانیں رکھتی ہیں ۔آئیں جانتے ہیں جہیز کی روایات اصل میں کب سے شروع ہوئی اور اس کی وجہ سے مسلم معاشرہ کس قدر تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے ۔
آنگنوں میں دفن ہوکر رہ گئی ہیں خواہشیں ہاتھ پیلے ہوتے ہوتے رنگ پیلے ہوگئے ( اظہر فراغ)
جہیز خوری پر حال ہی میں پاکستان فیشن ہاؤس کے علی ذیشان نے اپنا نیابرائیڈل کاؤچر (Bridal Couture) (عروسی ملبوسات ) متعارف کراتے ہوئے” جہیز خوری “کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک منفرد مہم چلائی ۔ مختصر دورانیے کی ویڈیو میں کوئی بھی ڈائیلاگ نہیں دیا گیا تھا ، تاہم ویڈیو کی منظرکشی کچھ اس طرح شاندار طریقے سے کی گئی تھی کہ دیکھنے والا اسے سراہے بغیر رہ نہیں سکتا۔ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ دو بوڑھے والدین ایک خالی ریڑھی (گاڑی) کو کھینچ کر قریب لاکر کھڑا کر دیتے ہیں اور پھر اپنی دلہن بنی بیٹی کو وہ ریڑھی سونپ دیتے ہیں۔ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ والدین دلہن بنی بیٹی کو ریڑھی سونپنے سے قبل اس ریڑھی میں ڈھیر سارا جہیزبھرتے ہیں اور پھر جہیز سے لدی ریڑھی کے اوپر دولہے کو بٹھایا جاتا ہے۔ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ نئی نویلی دلہن جیہز سے لدی ریڑھی اور جہیز کے اوپر بیٹھے دولہے کو کھینچتے ہوئے والدین کا گھر چھوڑتی ہے ۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جہیز سے لدی ریڑھی کو کھینچنے والی دلہن نے علی ذیشان فیشن ہاؤس کی جانب سے متعارف کرائے گیے برائیڈل کاؤچر ”نمائش “کو پہن رکھا ہوا ہے “ جہیز خور“یکے خلاف شعور اجاگر کرنے کی مذکورہ مختصر ویڈیو کو کافی سراہا گیا اور لوگوں نے اسے شیئر کرتے ہوئے“ جہیز خوری بند کرو“ اور جہیز پر پابندی لگاؤ سمیت“ نمائش“ لگانا بند کرو جیسے ہیش ٹیگز بھی استعمال کیے۔جہاں اکثریت نے اسے سراہا اور جہیز جیسی لعنت کے خلاف آواز اٹھائی وہیں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے ان مشکلات کی طرف نشاندہی بھی کی جن کا سامنا مردوں کو شادی کے لیے کرنا پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ ذیشان علی کو بھی بہت ہی مہنگے عروسی ملبوسات بیچنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا. جبکہ یہ بھی سماج میں بڑھتی ہوئی ایک نئی لت ہے اور اس بحث کو ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔ اگر ہم حقیقت سے کام لیں تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ جہیز ہمارے معاشرے میں صدیوں سے رائج ایک فرسودہ رسم ہے جس کی وجہ سے معاشرے کا ہر ایک طبقہ متاثر ہوتا ہے بہت سے غریب اور متوسط گھرانوں کی بیٹیاں اپنی شادی کا انتظار کرتی رہتی ہیں یا ان کے والدین اپنی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ اٹھا کر بچی کی شادی کر دیتے ہیں، جس میں یا تو ان کی زندگی بھر کی تمام جمع پونجی صرف ہو جاتی ہے یا باقی تمام عمر وہ ان قرضوں کو اتارنے میں لگا دیتے ہیں۔ اس شادی کے لیے امیر اور بالائی متوسط طبقے کے معاملات ذرا مختلف ہیں وہاں لڑکی والے جہیز کی استطاعت تو رکھتے ہی ہیں لیکن اس سے پہلے وہ یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ کہیں یہ سودا گھاٹے کا تو نہیں ہے۔ جہاں جہیز کے بھوکے لڑکی کو کم اور معاشی حیثیت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح بعض طبقات میں معاشی برابری سب سے پہلے دیکھی جاتی ہے جس کا دباؤ متوسط گھرانے کے لڑکوں پر رہتا ہے اور شادی کے بعد بھی مسلسل ایک خاص طرز زندگی کو اپنائے رکھنے کا بوجھ بھی رہتا ہے. لیکن اس کی شرح معاشرے میں یقینا جہیز سے متاثر شدہ خاندانوں کے مقابلے قدرے کم ہے۔ ایک بات جو تمام طبقات میں یکساں ہے وہ یہ کہ شادیوں کی تقریبات میں بے جا نمائش کا رجحان ، عروسی ملبوسات، کھانا، سجاوٹ، جہیز غرض یہ کہ جہاں جہاں پر گنجائش ہو، وہاں بےجا نمائش کی جاتی ہے۔ لوگ اپنی معاشی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں. جہاں جہیز کے معاملے میں زیادہ تر والدین قصوروار ہوتے ہیں، وہیں دونوں فریقین بھی اس کی خواہش شدت سے کرتے ہیں۔ نمائش کرنا ایک ایسا جرم ہے جس کے مرتکب سبھی ہوتے ہیں والدین، دولہا، دولہن، بہن بھائی رشتہ دار عزیز و اقارب بلکہ بعض اوقات پورا معاشرہ ہی ان روایات کو زندہ رکھتا ہے ۔اصولی طور پر یہ تمام رجحانات اور روایات قابل مذمت ہیں اور صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے بھی انہیں روکنا چاہئیے ۔معاشرے میں سرایت کر چکے ان رویوں کو برداشت کرنے یا سراہنے کی بجائے ان کو سختی سے نہ صرف رد کیا جائے بلکہ اسلامی تعلیمات اور روایات کو عام کرتے ہوئے شادی کے نام پر دین لین پر مشتمل اس سودے بازی کے خلاف سخت قوانین بھی بنائے جائیں اور نکاح کو آسان بنانے کی تمام راہیں سنت رسول کی مطابق ہموار بنی رہے ۔
ہمارے ہاں شادی بیاہ کی بیشتر رسومات ہندوانہ کلچر سے مستعار لی گئی ہیں کیونکہ برصغیر میں مسلمانوں کی فتوحات اور آمد سے پہلے ہندوئوں کا راج تھا جو ان گنت خداؤں کے پجاری اور کئی طرح کی رسومات میں جکڑے ہوئے تھے ۔ حتی کہ بے شمار ہندوؤں کے اسلام میں داخل ہونے کے باوجود ان کے ہندوانہ کلچر کے اثرات ان کی زندگی سے محو نہ ہوسکے اور بے شمار قبیح رسومات اور فضول روایات مسلسل ان میں رواج پذیر رہیں۔ اگرچہ مسلمانوں نے ہمیشہ اسلامی تشخص کا امتیاز برقرار رکھنے کی ہی کوشش کی لیکن تہذیب و تمدن، معاشرت اور ثقافت میں جب ترقی ہوتی ہے تو دولت و ثروت کی فراوانی ہونے لگتی ہے۔ بچے کے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک نئی نئی رسوم اور طریقے ایجاد ہوتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ مہد سے لے کر لحد تک کئی رسومات ہونے لگتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی اس کا سلسلہ باقی رہتا ہے۔ ہندوستان میں زیادہ تر مغل فرمانروا شہنشاہ اکبر اور دکن میں سلطان محمد قلی قطب شاہ نے مسلمانوں اورہندوؤں کو آپس میں ملانے، اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے اور یگانگت کی فضاء قائم کرنے کے لیے بہت سی ہندوانہ رسومات کو آپس میں ملالیا تھا۔ یکجہتی پیدا کرنے کی خاطر تمام ہندوانہ رسومات اختیار کرلیں، نکاح اور شادی کے موقعہ پر رسم، مہندی، رتجگا، منجھے اور بری وغیرہ جن کا اسلامی تہذیب یا مسلمانوں سے کہیں دور تک واسطہ نہ تھا ان سب کو شامل کر لیا ۔ انہی رسومات میں سے ایک رسم جہیز کی تھی چونکہ ہندو، لڑکیوں کو اپنی جائیداد میں سے حصہ نہیں دیتے تھے اس لئے شادی کے وقت اکٹھا ہی جو میسر ہوسکا جہیز کے نام سے لڑکی کے حوالے کردیا۔ ہندوؤں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی آہستہ آہستہ اس رسم کو اپنالیا حتی کہ جہیز شادی کا جزو لاینفک بن گیا اور غریب والدین کے لیے مستقل درد سر بن گیا ۔جس نے اب آسان دین کے آسان احکام میں اتنی تنگی پیدا کردی کہ بظاہر اس سے چھٹکارا پانا ، ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ دراصل ہندوستان کے جو غیر مسلم، اسلام میں داخل ہوئے ان میں سے اکثر و بیشتر کی دینی تربیت نہ ہوسکی۔ اس وجہ سے ان میں دینی تعلیمات، عقائد و اعمال کا فقدان رہا لہذا انہوں نے جہالت کی وجہ سے ہندوؤں کے بعض مذہبی اور سماجی رسموں کو برقرار رکھا مثلاً جہیز دینا اور بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھنا، بیساکھی اور بسنت کے میلے، نیز ہندوؤں کے شادی بیاہ کے کم و بیش تمام رسوم کی پابندی جیسے، منگنی، تیل چڑھانا، مہندی اور سہرا بندی کی رسومات ، باجے، ناچ گانے و دیگر خرافات پر اسی طرح عمل پیرا ہیں جیسے ہندو ان رسومات کو ادا کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کی شادیوں میں اگر کوئی فرق رہ گیا ہے تو وہ مولانا صاحب سے نکاح پڑھوانے اور ولیمے کا فرق ہے اور کوئی مزید فرق باقی نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے بقول: وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود سچ بات تو یہ ہے کہ جہیز کی یہ روایت نہ یہود میں ہے نہ نصاریٰ میں ہے بلکہ یہ خالص ہندوانہ روایت ہے۔ جہیز کی تاریخ پر نظر ڈالنے اور ہندوستان میں ہندوؤں کے اندر جہیز کی روایت کی ابتداء کو جاننے کے لیے ہم نے ڈاکٹر علیم خان فلکی صاحب سے بات کی جو ہندوستان میں جہیز سے پاک معاشرے کی اختراع کے لیے ایک“ سوشیو ریفارمز سوسائٹی “(Socio-Reforms-Society) نامی تنظیم چلاتے ہیں ۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ“ جیسے کہ سب جانتے ہیں جہیز دینا یا لڑکی کو تحفے تحائف دینے کی رسم کی ابتداء سب سے پہلے ہندوازم سے شروع ہوئی ہے۔ میں دو مثالیں دیتے ہوئے جو کہ ان کے بھگوانوں نے قائم کی تھیں، یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہندو سماج میں جہیز کی روایات کہاں سے ملتیں ہیں “۔ “ اس کی پہلی مثال یہ ہے کہ رام کی بیوی سیتا کا جو جہیز تھا اس میں سونا، چاندی، ہاتھی، گھوڑے، جائیدادیں اور اس کے ساتھ ساتھ دلت غلاموں کا ایک جتھا جن کو پہلے شودر کہتے تھے، ان سب کو جہیز میں دیا گیا تھا ۔ تاریخ میں سیتا کے جہیز کی مستند روایات ملتی ہیں، اس میں جو سب سے اہم بات درج ہے اس کے مطابق سیتا کا باپ جو بیٹی کی شادی میں ایک طویل جہیز کی فہرست حوالہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ“ میں نے اپنی بیٹی کو اتنا بڑا جہیز تو دیا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ قیمتی میری بیٹی کا کردار ہے جو میں، آپ کو دے رہا ہوں ۔“ اور دوسری مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر علیم خان فلکی صاحب کہتے ہیں“ دوسری مثال ان کے لارڈ شیوا کی ہے جس کی پہلی پتنی جو“ ستی ” تھی، وہ جل کر مر گئی تھی، یعنی وہ خودکشی کرکے مر گئی تھی، جس کے غم میں شیوا پاگل ہو کر جنگلوں میں نکل چکا تھا ۔اس کے بعد ان کے سارے بھگوانوں نے جمع ہو کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ستی کو دوبارہ جنم لینا ہوگا، اسی طرح ستی پاروتی کی شکل میں جنم لینے کے بعد شیوا کو لبھا کر جنگل سے واپس لے آتی ہے اور جب ان کی شادی ہوتی ہے تب ان کے سارے بھگوان، اور اس زمین پر موجود تمام انسان،شیر، ہاتھی، گھوڑے بھی بارات میں شامل ہوتے ہیں ۔ہندو شاستروں کے مطابق اس سر زمین پر جو سب سے بڑی بارات تھی وہ لارڈ شیوا کی بارات تھی”۔ “ اس کے بعد سے ہی بارات کی روایت چل پڑی اور یہ روایت ہندو سماج میں مقدس مانی جاتی ہے اور ان کے دھرم میں ایک سنت کی طرح مروّج ہے ۔ جبکہ عربی زبان میں” بارات “ کا لفظ ہی نہیں ہے ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور یونانی زبان سے نکلا ہے ” ۔ “ ان کے جو ویدانت ہیں اس میں تین طرح کی دکھشنا کا ذکر ملتا ہے ۔ ایک“ گرو دکھشنا” ، دوسری“ ایشور دکھشنا “ اور تیسری“ ورو دکھشنا ” ہے ۔“ ورودھو دکشنا” کے معنی ہیں دلہے کو کچھ نہ کچھ تحائف دینا ہے اور اسی کو“ کنیا دان” کہا جاتا ہے ۔ کنیا یعنی لڑکی کو ہی دان یعنی خیرات کردینے کے ہیں ۔ لڑکی کے ساتھ اس کے تمام مال و اسباب معہ اپنے والد کی جائیداد سے ملنے والے حصے کو بھی دے دیا جاتا ہے، تاکہ وہ باپ کے مرنے کے بعد دوبارہ واپس لوٹ کر نہ آئے ۔اس کے لیے وہ شادی کے لیے نکالی جانے والی کنڈلی سے پہلے ہی باپ کی جائیداد سے ملنے والے مال کی مقدار طے کر لیتے ہیں ۔ اسی لیے کہ ہندو ازم میں بیٹی کے لیے وراثت کے نظام میں بالکل حصہ نہیں ہے ۔ باپ کی وراثت میں بیٹی کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے ۔اسی لیے شادی میں ہی سب کچھ دے دیا جاتا ہے” ۔ “ پھر اس کے علاوہ اُس زمانہء قدیم میں ہندوستان کی تقریباً آبادی، قبائلی طرز کی زندگی گذارا کرتی تھی ۔جہاں ان کا گذر بسر، جانوروں کا شکار کرنے اور ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ جمانے اور ان کے مال لوٹنے جیسے مشاغل پر مشتمل تھا ۔اس قبائلی خانہ بدوش زندگی کی عارضی جھونپڑ پٹیوں میں جب ایک فرد کا اضافہ ہوتا تھا یعنی شادی کے بعد جب ایک فرد کا اضافہ ہوتا تھا تو ان کے پاس اس کی ضروریاتِ زندگی کے سامان موجود نہیں ہوتے تھے اور وہاں طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنا اپنا بستر اور سامان خود ہی لے کر سفر کیا کرتے تھے اس لیے جب لڑکی دوسرے گھر جاتی تھی تو اپنا بستر وغیرہ ساتھ لے کر جاتی تھی” ۔ اسلام کیا کہتا ہے
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ شادی لڑکے اور لڑکی دونوں کی ضرورت ہے یعنی دونوں کی زندگی شادی کے بغیر نامکمل ہے ۔یہی وہ علامت ہے لڑکا طالب ہے اور لڑکی مطلوب ہے۔ لیکن مرد مہر دیتا ہے اور عورت لیتی ہے کیونکہ مرد تو قوّام ہے ۔ پھر مہر کوئی لڑکی کی قیمت نہیں ہے بلکہ یہ علامت ہے، ٹوکن ہے۔ یہاں تک کہ جس کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں تھا اس کو چند سورتیں اپنی بیوی کو یاد دلانے کی نصیحت کی گئی تھی ۔یہاں لڑکے کو اس لیے مہر کا پابند کیا گیا ہے کیونکہ وہ طالب ہے اس کا ایک نیا گھر بسنا ہے جبکہ لڑکی پر اور لڑکی والوں پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا جاتا ہے کیونکہ والدین تو ایک لڑکی کو پال پوس کر، تعلیم و تربیت کرتے ہوئے اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ایک نئے خاندان کی تعمیر میں اہم رول ادا کرسکے۔ جہیزاور بارات کی نحوست نے دین اور امّت کو کتنا نقصان پہنچایا، آیئے ایک نئے زاویہ سے جائزہ لیتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ آج کے معاشرے میں لوگوں نے رسم و رواج کو قائم رکھنے کی کوشش میں اسلام کے احکاماتِ نکاح کو کتنا نقصان پہنچایا، بلکہ تباہ کرکے رکھ دیا۔ ڈاکٹر علیم خان فلکی صاحب کہتے ہیں“ شادی کے لئے دوسرے مذاہب یا کلچرز میں اتنا کافی ہے کہ مرد ، مرد ہو یعنی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہو۔ چاہے وہ بوڑھا ہو، شرابی ہو ، چورہو، جہاں بھی لڑکی کے ماں باپ اس کو شادی کروا دیں عورت کو اسی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، مرنے تک اسی کو بھگوان سمجھ کراُس کی پوجا کرنی ہے، جس گھر میں عورت کی ڈولی جائے وہاں سے اس کا ڈولا اٹھنے تک اسی گھر میں قید رہنا ہے، جیسا بھی سلوک اس کے ساتھ کیا جائے برداشت کرنا ہے۔ لیکن اسلام نے عورت کو اس جہنّم سے باہر نکالا اور عورت کو جینے کی آزادی دی۔ اس کو شوہر کے انتخاب کا حق دیا، مہر فِکس کرنے کا اختیار دیا، سب سے بڑا اختیار یہ دیا کہ جب تک شوہر اس کے ساتھ انسانیت اور پیار سے رہے، وہ اس کا ساتھ دے سکتی ہے، اگر مرد نے اپنا رویّہ بدلا اور اس کو کمزور سمجھ کر اس کا استحصال کرنا شروع کیا تو عورت اس سے فوری خلع لے سکتی ہے۔ اسی طرح ، جس طرح اگر عورت سرکشی کرے تو مرد اس کو طلاق دے سکتا ہے۔ اسلام نے اس قدر شاندار اصول دیا ہے کہ جب تک پیار ہے ساتھ رہو، ورنہ خوشی خوشی الگ ہوجاؤ، اور اپنی زندگی نئے سرے سے بسالو۔ عورت کو یہاں تک آزادی دی گئی کہ مرد اگر طلاق دیتاہے تو اسے قاضی کے سامنے وجہ بیان کرنی ہوگی، لیکن اگر عورت خلع چاہتی ہے، اور قاضی کو سبب بتانا نہیں چاہتی تو قاضی، عورت کو مجبور نہیں کرسکتا۔ سبحان اللہ۔ کیا دنیاکا کوئی قانون عورت کو اتنا بڑا مقام دے سکتا ہے؟ لیکن افسوس ، صد افسوس کہ ہم نے ساتویں صدی میں کلمہ پڑھ کر اسلام تو قبول کیا تھا، لیکن ہمارے اذہان، جو کل تک برہمن شاستر کو ماننے والے تھے، آج تک وہی ہیں۔ ہم نے عورت کو وہ مقام ہی نہیں دیا جو اسلام نے دیا تھا۔ عورت کو جتنے اختیارات اسلام نے دیئے تھے، وہ سارے کے سارے جہیز کی رسم نے ایک ایک کرکے چھین لیے ۔ آج عورت وہیں کھڑی ہے جہاں اسلام سے پہلے کھڑی تھی۔ جب عورت کو معلوم ہے کہ اس کی شادی کے لیے ماں باپ کو گھر بیچنا پڑتا ہے، کیا وہ مرد کی ذرا سی بھی نافرمانی کرنے، طلاق یا خلع لینے کی ہمت کرسکتی ہے؟ وہ سوائے ایک لونڈی بن کر رہنے کے اور کچھ نہیں کرسکتی۔ اس کو پتہ ہے کہ اگر مرد سے الگ ہوگی تو پھر دوسرے مرد سے شادی کے لئے اس کے ماں باپ کے پاس بیچنے کے لئے کچھ نہیں ہوگا“۔ ڈاکٹر علیم خان فلکی صاحب مسلم معاشرے میں جہیز کے ناسور سے ابھرنے والے اثرات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “کیا یہ نقصان کافی نہیں ہے کہ عہدِ حاضر کی شادیوں کی تقاریب اور رسم و رواج خلافِ شریعت ہیں۔ النکاح من سنّتی کے تقاضوں کی بالکل اُلٹ ہیں؟ ان کی وجہ سے عذابِ الٰہی تو نازل ہونا ہی تھا وہ شروع ہوچکا ہے۔ اگر ان نقصانات پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو آئندہ چند سالوں میں یہ قوم ہریجنوں سے بھی بدتر اخلاقی اور معاشی حالت کو پہنچنے والی ہے۔ عذاب الٰہی کی چند صورتیں ملاحظہ فرمایئے اور اس کی صداقت کیلئےاخبارات پڑھئیے یا ٹی وی نیوز دیکھیئے یا اپنے اطراف کے لوگوں سے پوچھئے کیا یہ ہورہا ہے یا نہیں؟ ذیل میں مزید کچھ تفصیلات پیش ہیں ۔ 1.غربت و افلاس میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ ہر تیسرا آدمی ایسا ملتا ہے جو کہتا ہے ہمارے والد کا فلاں جگہ ایک پلاٹ یا گھر تھا، بڑی آپا کی شادی کے وقت فروخت ہوا۔ اگر آج ہوتا تو اتنے لاکھ کا ہوتا( گویا اگر وہ ہوتا تو آج ہمارا خاندان بجائے نوکری کی غلامی کرنے کے کاروبار کررہا ہوتا۔) 2. خوشی سے خرچ کرنے والوں کا فیصد بمشکل دس ہے۔ باقی وہ ہیں جو اگر یہ جھوٹ نہ کہیں کہ وہ بھی خوشی سے ہی کررہے ہیں تو ان کی بیٹیوں یا بہنوں کی شادی مشکل ہوجاتی ہے۔اور ایسی خوشی سے کرنے کیلئے انہیں یا تو گھر یا سامان فروخت یا رہن کرنا پڑرہا ہے یا قرض، سود، چندہ، زکوٰۃ مانگنا پڑرہا ہے یا پھر کمائی کیلئے غیر اخلاقی ذرائع مجبوراََ اختیار کرنا پڑتا ہے ہیں جیسے جھوٹ، رشوت، چوری، زمینوں پر قبضے، دھوکہ، ظلم اور خیانت وغیرہ۔ 3. رسول اللہ ﷺ نے تجارت کرنے والے کیلئے بشارت دی ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رزق کے دس دروازے رکھے ہیں جن میں نو تجارت کرنے والے کیلئے ہیں۔ تجارت کیلئے سرمائے یعنی Capital کی ضرورت پڑتی ہے۔ سرمایہ سارا بہنوں کی شادی پر خرچ ہوچکا ہوتا ہے اسلئے بھائی بے چارے معمولی کام کرنے پر مجبور ہیں جن سے گھر چلنا تو درکنار خود ایک آدمی کا گزر ممکن نہیں ہوتا۔ جب یہ بھائی اپنی شادی کرتے ہیں تو دوسرے کسی اور گھر کو بھی ایسی ہی مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔اس طرح غربت و افلاس کی یہ لعنت گھر گھر وبا کی طرح پوری سوسائٹی کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ 4. بے روزگاری میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اگرایک شخص کاروبار کرتا ہے تو اس سے دو چار لوگوں کا روزگار بھی پیدا ہوتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کا سارا مال شادیوں پر خرچ ہورہا ہے اس لئے وہ کوئی بڑا کاروبار نہیں کرسکتے۔ لڑکیوں کی شادی کرنا ہی ان کیلئے سب سے بڑا کاروبار بن کررہ گیا ہے۔ 5. بے حِسی، بے غیرتی اور ڈھٹائی اِس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہر شخص کو معلوم ہے کہ آج لڑکیوں کے ماں باپ ایک شادی کیلئے اپنی عزّت اور اخلاق بیچنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود ہر شخص ایسی شادیوں میں شرکت کرکے اس سسٹم کو اور مضبوط کررہا ہے۔ کسی کے دل میں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اس لعنت کو روکنے کیلئے آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہئے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہر لڑکا جوڑے کی رقم، جہیز اور کھانا لئے بغیر شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر وہ ہمّت کرے بھی تو اُس کے خاندان والے ہرگز تیار نہیں ہوتے۔ سب ایک دوسرے پر ظلم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ 6. ان شادیوں کا اصل فائدہ وہ اٹھا رہے ہیں جو دین اور قوم کے اصلی دشمن ہیں۔ جن کا پیسہ ان فرقہ پرست پارٹیوں کے فنڈ میں جارہا ہے جو مسلم دشمن ہیں۔ اگر یہی پیسہ بیٹی اور داماد کے ہاتھوں میںنقد جاتا ہےاور وہ کاروبار کرتے یا اِسکی کوئی پالیسی خرید لیتے تو قوم ترقی کرتی لیکن یہ پورا پیسہ شادی خانوں کے مالکان، چاول، گوشت، کپڑے، سونے اور بیوٹی پارلر کے مالکان وغیرہ کو جارہا ہے۔ یہ تاجر مسلمانوں سے کماتے ہیں اوراپنے اشتہارات ان اخبارات اور ٹی وی چینلز کو دیتے ہیں جن سے مسلمانوں کے خلاف میڈیا اور مضبوط ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف اردو اخبارات اور چینلز کی حالت اور بھی پسماندہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ 7.گھروں کے اندر ایک دوسرے سے مقابلے کا فتنہ بڑھ رہا ہے۔ ایک جِٹھانی کی بیٹی کی شادی پر اگر دس لاکھ خرچ ہوتے ہیں تو دیورانی اپنے شوہر کی زندگی تنگ کردیتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کیلئے کم سے کم بارہ لاکھ کا انتظام کرے۔ اگر وہ غریب استطاعت نہیں رکھتا تو بھیک مانگنے، غلط طریقے سے کمانے یا پھر سود پر قرض لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اگر کسی غریب کی بیٹی کم جہیز کے ساتھ کسی ایسے گھر میں بیاہ کر جاتی ہے جہاں جِٹھانیوں اور نندوں کی شادیاں خوب جہیز اور کھانوں کے ساتھ ہوئی ہیں تو اُس غریب کی بیٹی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے یہ ہرشخص جانتا ہے۔ زندگی طعنوں اور تِشنوں سے جہنّم بن جاتی ہے۔ 8.امیروں میں مقابلہ آرائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ اپنی شادیوں میں علما، مشائخین، اخبار کےمالکان، لیڈر اور Celebrities کو بلا کر شادیوں کو اسقدر پرکشش بنارہے ہیں کہ ہر ایک دل میں نقل کرنے کی خواہش پیدا ہورہی ہے۔ ان علما و مشائخین کی تصویریں جب اخبارات میں شائع ہوتی ہیں تو ان لوگوں کو دلیل مل جاتی ہے جو غیرشرعی تقاریب کے وکیل ہیں۔ افسوس کی بات یہ بھی ہیکہ یہی اخبار مالکان ایک طرف بزنس بڑھانےایسی شادیوں کی تصویریں بھی شائع کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے اخبار میں ایسی شادیوں کے خلاف مضامین اور مراسلے بھی چھاپتے ہیں۔اس طرح منافقت بڑھ رہی ہے۔ ہم جِسے بھی بائیکاٹ کرنے کی تلقین کرتے ہیں وہ انہی رہنمایانِ ملت کی تصویریں دکھاکر ناجائز کو جائز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 9. جہیز اور کھانوں کی مانگ Women’s Rights کا کُھلا Violation ہے۔ لڑکی چاہے جتنی قابل اور با کردار کیوں نہ ہو اگر اس کے والدین جہیز اور کھانے کا انتظام نہ کرسکیں تو اس کو اچھے گھر میں شادی کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے۔ 10. طلاق اور خلع کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان میں زیادہ تر جھگڑوں کا سبب جہیز اور اسی کی وجہ سے سسرالیوں سے رنجشیں ہیں۔ ہوتا یہ ہیکہ بے حیائی عام ہوتی جارہی ہےلڑکے اور لڑکیوں کی اکثریت اس لعنت میں مبتلا ہوچکی ہے۔ اکثرایسی لڑکیوں کے ماں باپ خوب جہیز دے کردامادوں کا منہ بند کردینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بات کہیں نہ کہیں افشا ہوجاتی ہے اور معاملہ خلع یا طلاق تک پہنچتا ہے۔ لیکن چونکہ لڑکی والوں کا بہت کچھ نقصان ہوچکا ہوتا ہے اسلئے وہ اسکی پابجائی کیلئے داماد سے انتقام لیتے ہیں۔ اور کہیں الٹا بھی ہوتا ہے۔ لڑکا آوارہ ہوتا ہے لیکن اسکے ماں باپ اس توقع میں کہ شادی کے بعد صحیح ہوجائیگا، خوب جہیز دلا کر شادی کردیتے ہیں مگر لڑکی بھانپ لیتی ہے۔ اور علیحدگی کے لیے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ کا لاکھوں کا نقصان ہوچکا ہوتا ہے جس کی پابجائی ناممکن ہوتی ہے، پھر معاملہ پولیس، کورٹ، پہلوانوں یا عاملوں تک جاپہنچتا ہے۔ 11. ماں باپ سب کچھ لڑکیوں کی شادیوں پر لٹا کر ایک طرف بیٹوں کو کنگال چھوڑ دیتےہیں تو دوسری طرف خود اپنے لئے کچھ بچا کرنہیں رکھ سکتے اس لیے آخری عمر میں غربت و افلاس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جن کے بیٹے ہیں وہ عمرے کرتے ہیں اور جن کی بیٹیاں ہوں وہ قرضے ادا کرتے ہیں۔ 12.اس کی وجہ سے وراثت کی تقسیم کا اسلامی حکم پامال ہورہا ہے۔ بھائی اپنی بہنوں کو شادی پر خرچ کردینے کے بعد وراثت سے بے دخل کردیتے ہیں اور ایک گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ خود لڑکیوں سے جو جہیز اورکھانے وصول کررہے ہیں وہ بھی لڑکی کے بھائیوں کی وراثت میں سے حق ماررہے ہیں۔ 13. لڑکیاں بہت تیزی سے تعلیم میں ترقی کررہی ہیں جسکی وجہ سے تعلیم کے بعد ان کی Matching ڈھونڈھنا مشکل ہورہا ہے۔ نتیجتاً لڑکیاں یا تو گھروں سے بھاگ رہی ہیں، غلط راستوں پر جارہی ہیں یا غیرمسلموں سے شادیاں کررہی ہیں۔ 14. لڑکے تعلیم میں بہت پیچھے ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کوئی Competitive test پاس کرنے کے قابل نہیں۔ چونکہ ان کے دماغوں میں یہ بیٹھ چکا ہے کہ شادی ہوگی تو پیسہ اور جہیز تو مل کر ہی رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ٹیچرز، کانسٹبل،کلرک اورایجنٹ تو بہت مل جائیں گے لیکن دور دور تک کوئی قابل آفیسر نہ ملے گا۔اگر ملے گا تو اُس کی قیمت بہت ہوگی۔ اکثریت ڈرائیوروں، آٹو والوں، میکانکوں، چپراسیوں، ٹھیلے والوں، یا پھر چور اچکّوں، پہلوانوں اور لینڈ گرابرس کے کارندوں کی ہے۔ اگر ان کے جوڑے جہیز مکمل بند کروادیئے جائیں تو ممکن ہے ایک لڑکی کو مردانہ طریقے سے بیاہ کر لانے کی امنگ ان میں جاگ اٹھے
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۱