فروری ۲۰۲۳
دوسرا دن 26 اکتوبر 2022ء(بروز بدھ) پروگرام کاپی میں بعد فجر ورزش لکھا تھا۔سوچا، شاید جینٹس کے لیے ہوگا۔جائزہ لینے پر پتہ چلا خواتین کے لیے بھی خصوصی انتظام ہے،اور اس کے لیے ڈاکٹر نکہت عروج صاحبہ(Physiotherapist) نے کمان سنبھال رکھی ہے۔خواتین نے جم کر Exercise کیا،کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ انھیں اجتماع میں کوئیExertion نہیں ہے۔ جماعت سارا نظم سنبھالے ہوئے ہے۔اس لیےNo cooking no hosting.
ناشتے سے فارغ ہوکر جوق در جوق خواتین آڈیٹوریم پہنچ گئیں۔ کلیم رحمانی صاحب نے ام الاحادیث (حدیث جبریل ) کا پورا نقشہ کھینچا ۔ حضرت جبریل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بے تکلفی پر روشنی ڈالی۔ اس حدیث کو استاد اور شاگرد کے لیے ایک نمونہ بتایا ۔ میں نے پروگرام کاپی اٹھائی۔اس پر لکھا تھا:’’ تزکیہ :کلاسیکل لٹریچر اور ہم‘‘
سچ بتاؤں تومجھے عنوان سمجھ میں نہیں آیا تھا۔بس مقرر محترم محی الدین غازی فلاحی کو سننے کا شوق تھا۔ اب تک مولانا کو آن لائن سناتھا، خوشگوار خاندان اور قرآن سے تعلق کے موضوعات پر،آج محترم کو آف لائن سننا ایک اعزاز لگ رہا تھا۔
جب دھیرے دھیرے موصوف نےبولنا شروع کیا تو ایسا لگاگویا قطرہ بھی دریاکانچوڑ ہے۔ میرے نوٹ بک کے صفحات معلومات سے رنگین ہونے لگے۔کلاسیکل لٹریچر کا تزکیہ سے تعلق سمجھ میں آنے لگا۔گفتگو جاری تھی:
’’کلاسیکل لٹریچر دل پر کاری ضرب لگانے والے ، ذمہ داریوں کا احساس دلانے والے ، اشعار واقوال حکمت سے پر اور زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں۔بنو امیہ کے زمانے میں خوشحالی آئی اور اپنے ساتھ بہت ساری آفتیں لے کر آئی ۔شراب، شباب اور کباب کی باتیں کرنے والے شعراء ماحول پر چھانے لگے، ایسے میں بعض شعراء نے اپنے آپ کو زہد کی شاعری کے لیے وقف کیا ، یہ بہت بڑاچیلنج تھا ۔ایسی شاعری کی جو دل کے تاروں کو راست چھیڑتی اور خشیت الہی پیدا کرتی تھی ۔ کلاسیکل لٹریچر کے بڑے بڑےا سٹارہیں، ان کا حوالہ زیادہ تر غیر تحریکی حلقوں میں ملتا ہے، بلکہ بسا اوقات اہل بدعت کے پاس ملتا ہے ۔جیسے عبدالقادر جیلانی ؒ، جنید بغدادی ؒ، اویس قرنی ؒ ، رابعہ بصریؒ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہاں تحریکی اور تربیتی لحاظ سے غیر معمولی انقلابی نوعیت کی چیزیں پائی جاتی ہیں ،جن سے تحریک کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ‘‘
میں تو حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کا قول سن کر حیران رہ گئی :’’جو زہد کو لےکر گوشہ نشین ہو گئے ہیں، میری بات سنیں !اپنے گنبدوں کو توڑ ڈالو اور خانقاہوں کو توڑ دو، گوشہ نشینی کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔‘‘ علامہ ابن جوزیؒ کا قول :’’گوشہ نشین زاہد اصل میں چمگاڈروں کی کیفیت میں ہوتے ہیں، انہوں نے اپنے آپ کو دفن کر دیا ہے، یہ لوگوں کے لیے نافع نہیں ہیں۔‘‘
میں کلاسیکل لٹریچر پر غور ہی کر رہی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیج بدل چکا تھا۔ پینل کم اوپن ڈسکشن بعنوان:’’ تحریکی کردار کی محافظت ‘‘کے لیے کوآرڈینیٹر عبدالجلیل صحاب اپنے پینلسٹ کی ساتھ تیار تھے۔ ڈسکشن بڑا دلچسپ رہا، مختلف ذمہ داران جماعت اپنی مختلف صلاحیتوں اور دلچسپیوں اور مزاج کی مطابق جواب دے رہے تھے ۔اس کے نکات کچھ یوں بنے :
اقامت دین ہر وقت مستحضر رہے ۔تعمیر معاشرہ کی پہلی چیز تعمیر ذات ہے۔تحریکی لٹریچر بعد میں پڑھا جائے گا، پہلے شخصیت و کردار دیکھا جائے گا،اس کے معاملات دیکھے جائیں گے ۔رکن جماعت کی گفتگو میں صداقت ہو ۔ویژن ،ہو یونک نیس ہو ۔ ہر رکن دروازہ بنے دیوار نہ بنے ۔
کمزوریوں پر بھی ڈسکشن رہا ۔ازالے کی تدابیر بھی بتائی گئیں۔ آخرت کی جوابدہی کا احساس جاگزیں رہے ۔فرد اپنی اصلاح خود کرے۔فرد کی آمادگی ضروری ہے، کیو نکہ ایک فرد سو پیاسے اونٹوں کو پانی پلا سکتا ہے، لیکن ایک اونٹ کو سو افراد بھی پانی نہیں پلا سکتے، جب تک کہ وہ خود تیار نہ ہو ۔نظم کو چاہیے کہ وہ فرد کی استطاعت کے مطابق ذمہ داری دے ۔
چائے کے لیے بیس منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ تزکیہ سیشن جاری رہا ۔ایسا لگ رہا تھا ایکسپریس ٹرین اپنی پوری اسپیڈ پکڑ چکی ہے۔تصنیف اکیڈمی کے سکریٹری محی الدین غازی فلاحی صاحب نے مرشد ساکت و مرشد ناطق پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ بندوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے کائنات کی بہت ساری چیزیںالٰہی انتظامات ہیں جن کا انسان مشاہدہ کرتا ہے ۔موت ان میں سے ایک مرشد ساکت ہے ۔قرآن مجید مرشد ناطق ہے ۔قرآن کی ہر آیت اللہ کے جلال، عظمت و رحمت کا مظہر ہے ۔قرن کریم میں متعدد آیتیں موت کے تعلق سے ہیں۔ موت سے بڑھ کر کوئی بڑی مرشد نہیں ہے ۔تنگ حالی میں بھی اور خوشحالی میں بھی ۔قرآن مجید کی آیتیں اللہ پر ایمان بڑھاتی ہیں ۔موت کے واقعات آخرت پر ایمان بڑھاتے ہیں ۔اس کے تعلق سے بہت سیےصحابہ اور اولیاء اللہ کے واقعات کو محترم نے پیش کیا کہ کیسے انہوں نے اپنی زندگیاں بدلیں۔
تزکیہ ٹیسٹ کے لیے محترم ایس امین الحسن اپنے منفرد انداز سے سٹیج پر تشریف لا چکے تھے۔ تزکیہ پر کتنا کچھ پڑھ لو ،سوچ لو ۔ان روحانی بابا کے پاس پیش کرنے کے لیے ہر مرتبہ منفرد و متاثر کن کنٹینٹ ہوتا ہے۔اس سیشن کے بعد مجھے شدید احساس ہوا کہ مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ ان مربیان جماعت کے تعلق سے میں سوچنے لگی کہ انہوں نے کس خانقاہ سے تقویٰ اور احسان کی تربیت پائی ہے؟ (جنھیں کچھ لوگ بے پیر کہتے ہیں۔جو نہ خواب کے کشف و کرامات جانتے ہیں نہ انوار کے مشاہدےاور بشارات سے واقف ہیں۔)مجھے مولانا سید ابوالاعلی ؒ کی’’ تحریک و کارکن‘‘ یاد آگئی۔اسی کے ساتھ نماز ظہر وطعام کے وقفہ کا اعلان ہوا۔
کیا ہی بہترین پلاننگ تھی! شناختی کارڈ کے بیلٹ کے رنگ کی بنیاد پرایک گروپ نماز باجماعت ادا کرتا، اسی دوران دوسرا گروپ طعام سے فارغ ہوتا۔پھر ان کے لیے دوسری جماعت بنتی۔ادھرپہلی نماز باجماعت والے طعام گاہ پہنچ جاتے۔میں نے نوٹ کیا ،فکر و نظر والے سیشن کو اٹینڈ کرنے کے لیے سب Excited تھے۔اپنی نوعیت کااب تک کا یہ منفرد پروگرام تھا۔ماہنامہ زندگی نو کے اشارات جسے امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی صاحب جولائی 2021 ءسے تحریرفرما رہے تھے، ان میں سے 6 اشارات (دسمبر 2021 ءتا مئی2022 ء)بطور ہوم ورک مطالعہ کے لیے کہا گیا تھا، اور اپنے سوالات حلقہ کو بھیجنے تھے۔آج یہ سوالات خود مصنف سے پوچھے جانے تھے۔فکر و نظر کا سفر مصنف کے ہمراہ تھا۔وقت سے بہت پہلے سب اپنی نشستوں پر دل تھامے بیٹھے تھے۔کوآرڈینیٹر ڈاکٹر شیخ اسماعیل صاحب تھے۔جوSuspense بنائے ہوئےتھے۔تمہیدی گفتگو میں انہوں نے شہر حیدرآباد میں منعقد2012 ءسیمینار ( لٹریچر ریویو ) اور سعادت اللہ حسینی صاحب کے تقریر کا جملہ سنایا کہ’’ مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی تحریروں کے بعد دنیا بھر میں تحریکی فکر ٹھہر سی گئی ہے۔‘‘
کیوں؟یہ ایک بہت بڑا سوال تھا جس کا جواب خود مقرر کی تحریریں ہیں۔ امیر محترم نے صرف 50 منٹ کے سیشن میں چنندہ 12 سوالات کے اطمینان بخش جوابات دیے، جو بغور سننے سے تعلق رکھتے ہیں،اور مجھے عطاءا لرحمان وجدی صاحب کی وہ لائن یاد أئی کہ’’ایک اچھے قائد میں یہ خوبی ہونا ضروری ہے کہ وہ نہ صرف خود حالات کے نشیب و فراز پر نگاہ رکھتا ہو، بلکہ اپنے قافلے کو اس سےضروری حد تک مطلع رکھنے کی ذمہ داری بھی ادا کرتا رہتا ہو ۔‘‘

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. عروسہ طیبہ

    دلچسپ عکاسی۔۔عمدہ تحریر

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ۲۰۲۳