فروری ۲۰۲۳
22 ، 23 جنوری 2023 ءکو جماعت اسلامی ہند کی مغربی بنگال یونٹ کے زیر اہتمام کولکاتا اور مرشد آباد میں دو عوامی جلسوں کا انعقاد عمل میں آیا ۔ ان عظیم الشان جلسوں سے خطاب کرنے والوں میں جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر ایس امین الحسن اور عطیہ صدیقہ، سکریٹری آل انڈیا جماعت اسلامی ہند (خواتین ونگ) شامل تھے۔
جناب ایس امین الحسن صاحب نے اپنی تقریر میں ہندوستان میں خواتین کی موجودہ صورتحال اور اسلام میں بیان کردہ خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے مسلم معاشرے کے فرائض پر گفتگو کی۔عطیہ صدیقہ، سکریٹری آل انڈیا جماعت اسلامی ہند خواتین ونگ نے اپنی تقریر میں سامعین سے کہا کہ عالمی ، ملکی اور مقامی سطح پر خواتین کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس سے ہم سب خوب واقف ہیں۔ خواتین کے حقوق اور ان کی حفاظت کو لے کر بہت سارے قوانین بنائے جاتے ہیں ،لیکن عملاً وہ کارآمد نہیں ہوتے۔انہوں نے مزید کہا کہ دنیا نے ہمیشہ خواتین کے حقوق اور ذمہ داریوں اور اس کے مقام کے سلسلے میں افراط و تفریط سے کام لیا ۔اس کو ہر کام کے قابل بتا کر اور برابری کا لالچ دے کر اس کی نسوانیت کو ختم کردیا، یا پھر اس کو بالکل ہی نااہل بنا کر رکھ دیا۔ اس کے بالمقابل اسلام نے عورت کو نہ ہی مرد کے برابر ذمہ داریاں دیں اور نہ ہی اسے قید کرکے رکھ دیا۔ اسلام میں حقوق اور فرائض دونوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے وہی بہتر جانتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پیغمبر اسلامﷺ کے دور میں خواتین کاروبار، تعلیم اور تدریس جیسے کئی شعبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ خواتین نے میدان جنگ میں اپنا کردار ادا کیا اور انہیں مساجد میں خصوصی جگہیں دی گئیں ۔آبادی میں خواتین نصف ہیں، لیکن اثر و رسوخ کے اعتبار سے وہ نصف سے بھی زیادہ ہیں، کیونکہ عورت کی کوکھ سے ہی بیٹا اور بیٹی دونوں پیدا ہوتے ہیں اور ایک عورت ہی دونوں کی پرورش کرتی ہے ۔ عورت کی گود میں بچے پوری طرح اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ وہ بیٹے یا بیٹی کو بہترین طریقے سے ڈھال سکتے ہیں۔بیٹی اور بیٹےدونوں پر جسمانی اور روحانی طور پر یکساں توجہ دیں ،ان کےساتھ امتیاز نہ کریں۔
خواتین کی صلاحیتوں کو پہچانیں اور ان کی نشوونما کریں ۔ان میں تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ،کیونکہ عورت تعلیم یافتہ ہو تبھی وہ ایک اچھی بیوی، ایک اچھی ماں، ایک اچھی بہن اور بیٹی بن سکتی ہے ۔یہ ضروری ہے کہ خواتین اپنے حقوق اور فرائض کو جانیں اور ان میں توازن برقرار رکھیں۔اسلام میں حقوق اور فرائض دونوں کا تذکرہ ہے۔
انہوں نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج خواتین کو ہر جگہ جانے کی اجازت ہے لیکن مساجد میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جہاں بھی ممکن ہو خواتین کو اسلام کے بارے میں جاننے اور خاندانی مسائل کے بارے میں تعلیمات جاننے کے لیے مساجد میں جانے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے اپیل کی کہ ہم عدالتوں میں جانے کے بجائے اپنے مسائل علمائے کرام تک لے جائیں۔ ہم حکومت کو متوجہ کرنے کے لیے احتجاج کرسکتے ہیں، معاشرے میں بیداری لانے کے لیے بڑے بڑے جلسے اور اجتماعات کرسکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہم خواتین کو اس بات پر بھی غور کرنا ہے کہ ہم اس معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے ذاتی سطح پر کیا کر سکتے ہیں۔اگر ہر شخص ذاتی سطح پر بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرے تو آپ دیکھیں گے کہ ایک بہتر گھر اور معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہے کہ خواتین تعلیم یافتہ ہوں اور اگر کسی وجہ سے وہ نہیں پڑھ سکتیں تو وہ اپنی بیٹیوں، بیٹوں اور بہوؤں سے سیکھ سکتی ہیں۔ انہوں نے ارد گرد کے واقعات کو جاننے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے طلاق ثلاثہ کے مسئلے کا حوالہ دیا جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اسے سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، لیکن رائے دی کہ اس خطرے سے نمٹا جانا چاہیے۔ اگر طلاق سے متعلق کوئی مسئلہ ہے تو اس کے اسلامی حل کی سہولت فراہم کریں۔ انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ خواتین جو اسلامی اور جدید تعلیم سے اچھی طرح واقف ہیں، وہ محلہ میں کاؤنسلنگ کے مراکز قائم کریں اور خاندانی تنازعات کو حل کریں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ کوئی بھی اس کے حقوق سے محروم نہ ہو۔ نوجوان لڑکیوں کے لیے شادی سے پہلے اور بعد ازاں کاؤنسلنگ کا بندوبست کریں تاکہ وہ شادی اور طلاق اور وراثت وغیرہ کے دفعات کو جان سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم مسلمان، اسلام کی تعلیمات پر ایمان لاتے ہیں ۔اس کو سچ جانتے ہیں، لیکن عملاً نہیں برتتے۔ہم مسلمانوں نےبھی اسلامی طرز زندگی کے ساتھ ایک ماڈل معاشرہ بنا کر نہیں دکھایا کہ لوگ اسے اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھتے اور محسوس کرتے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ۲۰۲۳