فروری ۲۰۲۳
زمرہ : النور

ماہ ’’رجب‘‘حرمت والے مہینوں میں سے ہے، یعنی ایسا مہینہ جس میں جنگ کی اجازت نہیں۔ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی عام جنگ بندی ہوجاتی تھی، اس میں دشمن ملک کے لوگ بھی بے خوف آتے جاتے تھے۔
حرمت کا یہ مہینہ جہاں کبھی سماج میں امن وسلامتی لاتا تھا، جنگیں رک جاتی تھیں ،وہیں آج اس ماہ کے آتے ہی بہت سے لوگ خود ساختہ رسم ورواج میں ڈوب جاتے ہیں ۔اب یہ مہینہ خرافات و بدعات کے نام ہونے لگا ہے، ان رسوم ورواج میں مسلم معاشرہ مبتلا ہوجاتا ہے جن کی تعلیم نہ قرآن نے دی، نہ پیارے نبی علیہ السلام نے،نہ ہی صحابہ کی زندگی میں ایسی کوئی بات ملتی ہے۔
لیکن اس مہینے کے متعلق بہت سے من گھڑت واقعات ،احادیث ،دعائیں اور عبادات رائج ہیں ۔اصطلاح میں رجب قمری مہینوں میں ساتویں ماہ کا نام ہے ۔اور یہ ان چار مہینوں میں بھی شامل ہے، جنہیں شریعت اسلامیہ میں ’’حرمت‘‘ والے قرار دیا گیا ہے ۔
چنانچہ ارشاد باری ہے:

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّـٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِىْ كِتَابِ اللّـٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْـهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ.(سورۃ التوبہ : 36)

(بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے روز سے ہی اللہ کے یہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ اور ان میں چار حرمت والے ہیں۔)

1.رجب
2.ذوالقعدہ
3. ذوالحجہ
4.محرم الحرام

پھر ماہ رجب کی ستائیسویں شب کے بارے میں لوگوں میں یہ مشہور ورائج ہےکہ یہ ’’شب معراج‘‘ ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ27 رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیںکہا جاسکتا کہ یہ وہی رات ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے ،کیونکہ اس بارے میں مختلف روایتیں ہیں ۔پھر اسراء ومعراج کے سلسلے میں علماء کی آراء مختلف ہیں،بعض اسے جسمانی اور بعض روحانی کہتے ہیں۔

بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے ماہ میں تشریف لے گئے تھے۔ اس میں اختلاف ہے۔ اس لیےپورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی۔اس سے ہم اور آپ خود یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر شب معراج بھی کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور ماہ محفوظ رکھا جاتا۔ اور صحابۂ کرام(رضی اللہ عنہم) اس شب کا خاص اہتمام کرتے،لیکن شب معراج کی تاریخ کہیں بھی محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے27رجب کو شب معراج قرار دینا بھی درست نہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ واقعۂ معراج ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں پیش آیا۔ اس واقعہ کے بعد تقریباً 12 سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رہے، لیکن اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کے بارے میں کوئی خاص احکام دئیے ہوں، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو یا اس کو شب قدر کا درجہ دیا ہو ،کہیں کسی بھی روایت وحدیث سے ثابت نہیں ہے۔
پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سو سال تک صحابۂ کرام (رضی اللہ عنہم) دنیا میں موجود رہے۔
اس پوری صدی میں صحابۂ کرام نے 27 رجب کو شب معراج یا خاص رات کہہ کر نہیں منایا ۔
لہٰذا، جو چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے نہیں کی، اس کو دین و سنت قرار دینا سراسر بدعت ہے۔

آج ماہ رجب کی ستائیسوی رات کو ’’شب معراج‘‘ کا نام زور وشور سے دیا جاتا ہے، اور اس میں مختلف چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جنہیں اسلام کا جز بتا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مثلا:

اس رات کو بڑی رات بولنا، ’’شب قدر‘‘ کا درجہ دینا۔
روزے رکھنا۔
نوافل کا خاص اہتمام کرنا۔
حلوہ وغیرہ بنا کر تقسیم کرنا۔
منتیں مانگنا۔
قبروں پر جانا، موم بتیاں جلانا۔
درگاہوں پر جانا ۔

یہ تمام کام بدعات میں شامل ہیں ۔
اور حدیث میں ہے:

وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وكلَّ ضلالةٍ في النارِ

(ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ کی طرف لے جاتی ہے۔)

ویڈیو :

آڈیو:

بسم الله الرحمن الرحيم
السنۃ اثنا عشر شہرا منہا أربعۃ حرم ۔ثلاثۃ متوالیات :ذوالقعدہ و ذو الحجہ و المحرم و رجب الذی بین جمادی و شعبان..
(سال بارہ ماہ کا ہے۔ اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں ۔تین تو مسلسل ہیں ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم اور ایک رجب ہے۔ جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے ۔)
(صحیح البخاری :٤٤٠٦)

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Zakiya begum

    Bahut si deeni batine malum hoti hai isse bahut Pasand Aya hai..mujhe bi article likhna hai plz contact num de sab malumat hasil Karna hai ke kaise article bhejsakte hai

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ۲۰۲۳