فروری ۲۰۲۳
سوال :
ہمارے یہاں دو طلاق یافتہ لڑکیاں سات برس سے والدین کے گھر بیٹھی ہوئی ہیں۔ دوسرے نکاح کے لیے جو رشتے آتے ہیں وہ اکثر بدعات و خرافات میں مبتلا گھروں سے ہوتے ہیں۔ یہ بات جانتے ہوئے کیا ہم ان لڑکیوں کا نکاح وہاں کر سکتے ہیں؟ واضح رہے کہ ان کے بھائیوں کا نکاح ہوچکا ہے اور والدین بوڑھے ہیں۔
جواب:
ضروری ہے کہ بچوں کے بالغ ہونے کے بعد جلد از جلد ان کے نکاح کی فکر کی جائے۔اس میں تاخیر سے بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور سماج میں اخلاقی بگاڑ اور بے حیائی کو فروغ ملتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ عائلی زندگی میں خوش گواری برقرار رکھنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کی جائے، ان کے سامنے اسلام کی عائلی تعلیمات بیان کی جائیں اور ان پر عمل کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے نکاح کے بعد بہت جلد شکایات پیدا ہونے لگتی ہیں اور تنازعات سر ابھارتے ہیں، یہاں تک کہ علیٰحدگی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس معاملے میں عموماً لڑکیاں ہی خسارہ میں رہتی ہیں۔ لڑکوں کا تو آسانی سے دوسرا نکاح ہوجاتا ہے، لیکن لڑکیاں، جن کا پہلا نکاح ہی عموماً دشوارتر ہوتا ہے اوراسی میں والدین ہلکان ہوجاتے ہیں، ان کا دوسرا نکاح دشوار ہوجاتا ہے۔ نکاح ثانی کے انتظار میں برسوں بیت جاتے ہیں اور بہت سی لڑکیوں کا تو دوسرا نکاح ہو ہی نہیںپاتا۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد غیر شرعی رسوم و روایات میں گرفتار ہے۔ یہ رسوم عبادات میں شامل کرلی گئی ہیں اور معاشرتی زندگی بھی ان سے زیر بار ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت تو اس مقصد سے ہوئی تھی کہ لوگوں پر جو بوجھ لدے ہوئے تھے، اسے اتاردیں اور جن بیڑیوں میں وہ جکڑے ہوئے تھے ان سے آزادی دلادیں۔(الاعراف: 157)
لیکن آپﷺ کی امت نے اپنی مرضی سے اپنے اوپر رسوم و روایات کے بھاری بوجھ لاد لیے ہیں اور خود کوان کی بیڑیوں میں جکڑدیا ہے۔ یہ روایات ان کی کمر توڑ دے رہی ہیں اور انہوں نے ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے، لیکن وہ ان سے باز آنے پر تیار نہیں ہیں۔
اس صورتِ حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے پیمانے پر اصلاح معاشرہ کی تحریک چلائی جائے۔ مسلمانوں کے سامنے اسلام کو خالص اور بغیرآمیزش کے اصلی شکل میں پیش کیا جائے، انھیں غیر شرعی اور مُسرفانہ رسوم ترک کرنے کی تلقین کی جائے اور بدعات و خرافات کی شناعت بیان کرکے ان سے اجتناب کرنے کی تاکید کی جائے۔
نکاح کے موقع پر دین داری کو ترجیح دینی چاہیے،خاص طور پر لڑکیوں کے لیے ایسے گھرانے کا رشتہ تلاش کرنا چاہیے، جہاں وہ پاکیزہ اور خوش گوار زندگی گزار سکیں اور دین کے تقاضوںپر عمل کرنے میں انہیں کوئی دشواری نہ ہو، لیکن اگر کوئی ایسا معیاری رشتہ نہ مل پا رہا ہو تو اس کی امید میں لڑکیوں کو گھر بٹھائے رکھنا دانش مندی نہیں ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب کہ وہ طلاق یافتہ ہوں، والدین بوڑھے ہوں اور بھائیوں کے بھی نکاح ہوچکے ہوں، بلکہ جلد از جلد ان کےدوسرے نکاح کی کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ اپنی لڑکیوں کی ایسی تربیت کرنےکی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ جس ماحول میں بھی پہنچیں ،وہاں نہ صرف دین پر قائم رہ سکیں، بلکہ اپنے مثبت اثرات ڈالنے میں بھی کام یاب ہوں۔ اس صورت میں امید کی جا سکتی ہے کہ وہ لڑکیاں جن گھرانوں میں پہنچیں گی، وہ اگر کچھ بدعات و خرافات کا شکار ہوں تو ان کے ذریعے ان کی کچھ اصلاح ہوسکے گی اور وہ پاکیزہ زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

  1. عبد العزیز شیخ

    بہترین صلاح ، جزاک اللہ خیراً کثیر ?

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ۲۰۲۳