فروری ۲۰۲۳

صدیوں سے چلی آرہی ہندوستان کی پلیورل سوسائٹی ،گنگا جمنی تہذیب اور ملا جلا کلچر تکثیری سماج کی ایک خاص پہچان لیے ہوئے ہے۔ یہاں ہر ذات و برادری، رنگ و نسل سے اوپر اٹھ کر ہندوستان کا خوبصورت دستور سب کوسماجی برابری و انصاف دلانے والا قانون تمام آئینی دفعات سے مزین ہیں، لیکن آج وہی قانون اور دستورسب کے سب اس وقت خاموش ہیں،جہاں ایک طرف ہر شہری کو کھانے پینے سے لے کر اپنے تمام مذہبی رسومات سے لے کر مذہب کی تشہیر و نمائندگی کا پورا دستوری حق ملا ہوا ہے۔
اسکول و کالج سے لے کر تعلیم و تہذیب و کلچرکو فروغ دینے کی پوری آزادی حاصل ہے۔وہیں ایک انسان کی حیثیت سے ہر ایک کو تمام جائز حقوق حاصل ہونے کے باوجود اس خوبصورت دستور کی موجودگی میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ ملک میں سماجی تفریق کا رحجان تیزی سے پنپ رہا ہے۔اسے کھاد پانی اور ہوا اس طرح مل رہی ہے کہ گویا اس ملک کی فضا کو اس کے لیے ہموار کیا جارہا ہے۔
ظلم و تشدد غیر انسانی کاموں (In human behavior) کو اس طرح روا کر دیا گیا کہ ظلم اگر پسماندہ غریب اور کچلے ہوئے لوگوں پر ہوتو وہ ظلم نہیں ہے ۔ اگر اقلیتی طبقے پر ہو تو وہ جائز ہے۔ اسے پروانہ مل جاتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی، شنوائی نہیں ہوگی نہ کوئی رپورٹ درج ہوگی، نہ قانونی چارہ جوئی حاصل ہوگی۔ رولنگ پارٹی کے چشم وابر و پر تماشائے اہل وطن ہوتا رہے گا۔ بقول شاعر :

ظلم کے کاروبار میں ظالم کہیں کسے؟
ہاتھ سبھی کے سرخ ہیں قاتل کہیں کسے؟

سماجی تفریق کا نشانہ غریب و پسماندہ طبقے کے ساتھ ہی خواتین بھی بن رہی ہیں۔ اس میں غریب مزدور خواتین کے ساتھ پڑھی لکھی اعلیٰ طبقے کی خواتین بھی شامل ہیں، خواہ وہ این جی او کی ذمہ دار ہوں، سماج سدھار کا کام کرنے والی ہوں، ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے والی خواتین ہوں، سب کی سب اس کی زد میں آچکی ہیں۔
ابھی دہلی میں خواتین ویمن کمیشن کی چیئرمین سواتی مالیوال پر ہونے والے حملے اور چھیڑ چھاڑ اس بات کی نشاندہی کرتےہیں کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ان پر اس لیے حملے ہو رہے ہیں کہ وہ انصاف کے لیے آواز اُٹھا رہی ہیں۔ اسی طرح حجاب کے معاملہ کو لے لیں، اس ایشو کو اس طرح اُٹھایا گیا گویا حجاب پہنے والی لڑکیاں اس ملک کی نہیں یا پھر وہ دوسرے درجہ کی شہری ہیں ۔انہیںاس قدر پریشان کیاگیا کہ ان میں سے بہت سی بچیوں نے تعلیم سے ہی منہ موڑ لیا ، ان پر دہشت طاری کردی گئی۔
حالیہ ہلدوانی کے واقعہ کو ہی لے لیں ، کڑکڑاتی ٹھنڈ میں ایک بڑی آبادی دیکھتی ہے کہ اس کا آشیانہ اُجڑنے والا ہے، تومجبور ہوکر وہ گھروں سے باہر سڑکوں پر بچوں ،بوڑھوں اور نوجوانوں کے ساتھ نکل آتی ہے۔ ان ہی سرد لہروں کے درمیان دہلی کی سڑکوں پر ایک لڑکی کوٹکر مار کر گزرتی کار کئی کیلومیٹر تک گھسیٹتی ہوئی لے جاتی ہے، اور انسانیت کو شرمسار کر دیتی ہے کہ عورت کے نگہبانو کہاں ہوتم؟پولیس ، کارپوریشن،ایڈمینسٹریشن سب کے سب موجود ہیں، اور یہ واقعات نظروں کے سامنے سے ہوکر گزرجاتے ہیں۔کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ایک طرف قانون یہ کہتا ہے کہ اگرعورت حاملہ ہے تو اسے گرفتار کرکےجیل نہیں بھیجا جائے گا۔ دوسری طرف صفورا زرگر کو اسی حالت میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بنا کسی جرم اور اس کے ثبوت کے ڈال دیا جاتا ہے۔ ہر طرف خاموشی ہوتی ہے ،کوئی بولنے والا نہیں، اور ہے بھی تو نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا؟ سماجی تفریق کی یہ زندہ مثالیںہیں۔اگرہم جائزہ لیں کہ سماجی نا برابری اور کن کن بنیادوں پرر ہورہی ہے؟تویہ چند اہم اسباب سامنے آتے ہیں۔

 مذہبی عصبیت و منافرت

مذہب کی بنیاد پر ہونے والی نابرابری ہم کو تیزی کے ساتھ پنپتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ہر طرف آئے دن ہونے والے واقعات فرقہ وارانہ فضاء کو ہموار کر رہے ہیں۔ مذہبی منافرت کازہر سماج کی جڑوں میں پیوست ہوچکا ہے اور اس سے ہر ایک متاثر ہورہا ہے۔لوگوں کے اندر یہ بات اب گھر کررہی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ہم سب کے لیے ایک دوسرے سے الگ اور دور رہنا ضروری ہے، ورنہ ہماری سالمیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ہماری پہچان اور شناخت ختم ہو جائیگی۔ اس بات کو اچھی طرح دل ودماغ میں پیوست اور ذہن نشین کرانے کے لیے اقلیتوں کے مذاہب پر فرقہ وارنہ حملے ہوتے ہیں، ان کو طرح طرح کے نام دیکر گنہگار ثابت کیا جاتا ہے،کبھی ’لو جہاد‘ کے نام پر کبھی گھر واپسی کے نام پر دہشت پھیلا کراسلام کا ہوا کھڑا کیا جاتا ہے۔ اسے ایک دہشت گرد مذہب سے تشبیہ دی جاتی ہے اور ایک طرح کا فوبیا پیدا کیا جاتا ہے۔ اس کا ڈر اور خوف پیدا کیا جاتا ہے،تاکہ لوگ خودبخود اپنی دنیا میں سمٹنے لگیں ،اپنے خول میں قید ہوجائیں اور حقیقت کو معلوم کرنا ضروری نہ سمجھا جائے۔ اس طرح کسی مذہب پر لگائے گئے الزاموں کی تحقیق کسی کے لئے ضروری یا اہم نہیں ہوتی۔ بس بقول شاعر :

چلوتم ادھر کو ہوا ہوجدھر کی

کے مصداق پورا ماحول بگڑتا چلا جاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ذات برادری اور کاسٹ کی بنیادپر منافرت بھی صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ برادری واد، اونچ نیچ، چھوا چھوت کا ماحول اور ان کے لیے بنائی گئی سماجی حدود اور پابندیاں آج بھی پوری مضبوتی کے ساتھ قائم ہیں۔خصوصاً دیہی علاقوں میں آج بھی اعلیٰ ذات کے مندروں میں ہریجنوں کے بچوں ،عورتوں اور مردوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ آج بھی اسکولوں کی کلاس میں دلتوں کے بچے سب سے پیچھے بیٹھنے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔آج بھی ان کی شادیوں میں ان کے بچے گھوڑے پر بیٹھ کر آزادی سے محلہ میں نہیں نکل سکتے۔ جونہی اعلیٰ ذات کے محلے سے ان کا گزر ہوتاہے، ان کی پٹائی کر دی جاتی ہے۔پورے ہندوستان میں آج بھی کوئی دلت ہوٹل نہیں پایا جاتا، جہاں یہ لکھا ہو کہ ہریجن ہوٹل ہے، یہاں کوئی بھی آ سکتا ہے۔ اس طرح کاسٹ کی بنیاد پر یہ تفریق ہمارے سماج کو کس طرح بانٹنے کا کام کررہی ہے،یہ قابل توجہ پہلو ہے۔

 Gender کی بنیاد پر عورتوں اور مردوں کی تفریق

جہاں تک عورتوں کے حقوق اور رائٹ کی بات کی جاتی ہے Gender Discrimination پر جو بھی لکھا اور کہا جاتا ہے،یہ بات پورے زورسے کہی جاتی ہے کہ ہماری سوسائٹی مرد کی جانب دار ہے۔ Male Dominateted ہے۔ ہندی میں کہیں تو’ پِتو ستا‘ بھی اسے کہہ سکتے ہیںاورمرد پردھان بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود خواتین ہر مقام پر اپنی محنت اور کوشش سے جا پہنچی ہیں۔ انہوں نے اپنے وجود کو منوا لیا ہے۔تعلیم وتدریس کے میدان سے باہر نکل کر آفسزکے اعلی ترین مناصب پر وہ فائزہیں، لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی انہیں برابر کا درجہ حاصل نہیں ہے، ان کی تنخواہیں کم ہیں،انہیں پوری اجرت نہیں ملتی ۔کام کے گھنٹے زیادہ ہیں، چھٹیوں کے معاملے میں کوئی چھوٹ نہیں، کھڑے رہ کر کام کرنےاور ڈیوٹی کے درمیان کوئی رعایت نہیں دی جاتی، بلکہ ان کے ساتھ یہ زیادتی ہوتی ہے کہ بہت کم تنخواہوں پر کھیتوں میں ، باغات میں ،گھروں کے کاموں میں، مزدوری کی جگہوں پر عمارت بنانے کے کاموں میں اُن کا استحصال ہوتا ہے۔

 سائبر کرائم کا بڑھتا ہوا ماحول

اس سوشل سائنس کی دنیا میں ٹیکنالوجی کا استعمال او ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں ہندوستان کی برتری کے باوجود سائبر کرائم کا بڑھتا رحجان ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتاہے ۔فیک آئی ڈی کے ذریعے اکاونٹ بنا کر کبھی سُلّی ڈیل ، کبھی بلّی بائی ایپ کے ذریعے خواتین کی نیلامی تک کردی جاتی ہے۔ ان کی تصویریں لے کر اس کاغلط استعمال کر کے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال اوران کے ناموں سے چھیڑ چھاڑ کرکے انہیں بدنامی کا خوف دلاکر ان کا غلط استعمال ہوتا ہے۔اس طرح سائبر بولنگ کے ذریعے بھو لی بھالی خواتین کو نشانہ بنانا تیزی سے عام ہو رہا ہے ۔

Work Place Harassment

کام کی جگہوں پر ہراساں کرنے کا معاملہ بھی دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ خواتین خواہ وہ کسی بھی معتبر پیشے میں ہوں ،ڈاکٹر ہوں، انجینیئر ہوں ،کھیلوں کی دنیا سے تعلق رکھنے والی ہوں، بالی ووڈ میں ہوں یاکہیں بھی ہوں،وہ محفوظ نہیں ہیں۔ ابھی کُشتی مقابلے کی ماہر خاتون کی شکایت پر جو تماشہ بنا وہ بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے۔

HumanTrafficking

انسانوں کی خریداری اور سپلائی میں صدیوں سے چلی آرہی عورتوں کی خرید وفروخت، نیلامی اوربولی؛اس کے علاوہ کوٹھوں کے لیے عورتوں کی تجارت،اوربڑے بڑے شہروں میں پورے محلے اس نام پر آباد کرنے والی چند سکوں کے عوض اپنی عزتیں نیلام کرنے والی خواتین کی درد ناک داستان ہے جس پر ایک دفتر سیاہ ہوسکتا ہے۔ان کے قصے توہم سنتے چلے آرہے ہیں اور ان کی سپلائی اور ان کے بیوپار کی کہانی بھی سنتے چلیں کہ بڑے بڑے شہروں کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں دہلی سے لے کر کشمیر تک ممبئی ہریانہ سے لڑکیاں کس طرح سپلائی کی جاتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو لے جاکر وقت سے پہلےنشو ونماکے لیے انہیں ہارمونس کے انجکشن دیے جاتے ہیں،اور پھر ان کے بالغ ہونے پر ان کا بزنس کیا جاتا ہے۔

Domestic Violence

گھریلو تشدد کا بھی قصہ کچھ مختصر نہیں بلکہ بہت ہی دلدوز کہانی ہے۔ جہاں گھر گھر کی کہانی ہی کچھ ایسی ہے کہ عورت صدیوں سے اس کاشکار ہو کر رہ گئی ہے۔ سماجی نا انصافی کے ساتھ گھٹ گھٹ کر رہنا ، ناانصافی کے ساتھ اپنی زندگی کی بہترین جوانی کے سالوں کو قربان کردینا ،لوگوں کے طعنے تشنے ،کبھی جہیز نہ لانے پر ،کبھی اولاد نرینہ نہ ہونے پر، عورت کو طعنہ تشنہ سننا پڑتا ہے، کبھی بے اولاد ہونے کی صورت میں گھر سے نکال دیا جاتا ہے ۔شوہر دوسری شادی کرکے اس کے اوپر ظلم کرتا ہے، صدیوں سے سماجی نا برابری کی شکار عورت یہ سب جھیلتی رہی ہے۔ابھی حال میں ایک شخص نے صرف اس وجہ سے اپنی بیوں کے ہاتھ کے دونوں پنجوں کو کاٹ دیا کے اس نے نیٹ کا امتحان کامیاب کر کے اپنے آپ کو نوکری کے قابل بنا یا تھا۔گنور میں عورت کی پسلی میں راڈ ڈال دی ۔اسی طرح آئے دن شراب پی کر عورتوں کی پٹائی کرنا ، حمل ضائع کرانا، پڑھائی کے لیے لڑکیوں کو باہر نہ جانے دینا، کہیں پر ماں باپ سیفٹی کے ڈر سے اسے تعلیم سے محروم کر دیتے ہیں اور سینکڑوں بچیاں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔
ان تمام جرائم کو جو سماج میں تیزی پھیل رہے ہیں ،ان میں نشانہ عورت کو ہی بننا پڑتا ہے۔خواہ چلتی گاڑیوں میں آنکھوں کے ذریعے تاڑنا ہو ، فقرے کسنا ہو ، غلط جگہوں پر چھونا، انہیںہراس کرنا ہو ، پیچھا کر کے انہیں ٹارگٹ کرنا ہو یا اور کبھی کسی اور طرح سے مجبور کرنا؛ یہ سب ایسے جرائم ہیں جن کی نہ کوئی شکایت درج ہوتی ہے نہ ان کے لیے کسی پولیس اسٹیشن میں جگہ ہے۔ ہمارے یہاں جرائم پر ایف آئی آر صرف ثبوت کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے،اور ثبوت نہ ہونے پر شکایت لکھی ہی نہیں جاتی، اُلٹا شکایت درج کرانے والے کو ہی مجرم قرار دیا جاتا ہے، اور اس پر ہی جھوٹے کیس کاالزام عائد کردیا جاتا ہے ۔ اس ڈر سے نہ جانے کتنی عورتیں اپنے خلاف ہونے والے جرائم کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکام ہیں۔نربھیا کیس کی شنوائی کے لیے فاسٹ ٹریک عدالت کے قیام کے باوجود نہ جانے کتنی مظلوم خواتین انصاف کے لیے ترس رہی ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح سماجی نابرابری اور تفریق کا یہ رحجان ہندوستان میں تیزی سے کس قدر بڑھ رہا ہے۔ اس پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔انسانی حقوق سے محروم خواہ خواتین ہوں یا مرد، غریب پسماندہ طبقات ہوں یا اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ، سبھی کے لیے سماجی تفریق سے بالاتر ہو کر بات ہونی چاہیے ۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ۲۰۲۳