فروری ۲۰۲۳
گھریلو جھگڑے ہونا عام بات ہے۔ شوہر بیوی کے مابین تکرار ہونا معمول کا حصہ ہے، لیکن جب یہی چھوٹے موٹے جھگڑے تشدد کی شکل اختیار کر لیں تو نہ صرف یہ متشدد بلکہ پورے سماج کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
کچھ دنوں قبل ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع سیونی سے ایک گھریلو تشدد کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ جہاں آپسی لڑائی کے دوران شوہر نے بیوی کو تقریباً پانچ فٹ لمبی لوہے کی سلاخ سے لہولہان کردیا۔ سلاخ متاثرہ کے جسم سے آرپار ہوگئی۔ 30 سالہ خاتون کو سسر اور پڑوسیوں کی مدد سے ضلع اسپتال لے جایا گیا جہاں متاثرہ کی بگڑتی ہوئی حالت کو دیکھ کر ڈاکٹروں نے میڈیکل کالج ریفر کر دیا۔ متاثرہ خاتون کا نام بھاگوتی قریشی ہے، جوفی الحال ناگپور میں زیر علاج ہے۔ اس دردناک حملے کی وجہ سے خاتون کےڈایافرام پھٹ گئے ہیں۔ معلوم ہو کہ ڈایافرام پھیپھڑے کے نچلے حصے میں واقع ہوتے ہیں اور سانس لینے میں مدد کرتے ہیں۔ اگر یہ شدید زخمی ہو جائے تو انسان کی جان بھی جا سکتی ہے۔
گھریلو تشدد کا یہ معاملہ کچھ نیا نہیں ہے۔ بھاگوتی قریشی اکیلی متاثرہ نہیں ہیں،بلکہ ہمارے ملک میں ہر تین میں سے سے ایک عورت گھر یلو تشدد کا شکار ہے۔ اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ ایک لڑکی کے لیے سب سے محفوظ جگہ کیا ہے ؟تو یقیناً آپ کا جواب ہوگا ’’گھر!‘‘اسی طرح اگر پوچھا جائے کہ عورت کہاں غیر محفوظ ہوتی ہے؟ تو آپ دفتر، سڑک یا پبلک ٹرانسپورٹ کا نام لیں گے، لیکن ہمارا یہ اندازہ بالکل غلط ہے۔ ایک خاتون کا سب سے زیادہ استحصال اور اس پر تشدد اس کے گھر میں ہی ہوتا ہے۔ یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے۔اگر ڈیٹا دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ 70 فیصد ہندوستانی عورتیں ہر سال اپنے شوہر کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق قریب 30 فیصد لڑکیاں محض پندرہ سال کی عمر میں جسمانی تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بین الاقوامی سروے کی بات کی جائے تو Thompson Reuters Organization کی 2018 ءکی رپورٹ کے مطابق ہندوستان عورتوں کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک ہے۔
ہمارا دستور ہر شہری کو حق مساوات، حقِ آزادی، استحصال کے خلاف حق فراہم کرتا ہے۔ پھر ہندوستانی عورتوں کی حقوق کی پامالی کا سبب کیا ہے؟کیا وجہ ہے کہ ایک مرد اپنے اطراف کی عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا، چاہے اس کی دفتر کی خاتون باس اس کو گالیاں دے کر کام سے نکال دے، یا اپنے گھر کی باقی عورتوںپر( مثلاً اس کی ماں، بہن، چاچی )،اپنی بیوی پر ہی ہاتھ کیوں اٹھاتا ہے؟
ذراسا غورکرنے پر وجہ خود بخود سامنے آ جاتی ہے، ہمیشہ استحصال اس شخص کا کیا جاتا ہے جسے اپنے سے کمزور سمجھا جائے۔ ہمارا سماج مرد کو خاموش لفظوں میں بتا دیتا ہے کہ عورت اس کی جاگیر ہے، اور جس طرح چاہے وہ اس پر قابو پا سکتا ہے، اس کے لیے کبھی وہ اسے جسمانی طور پر نشانہ بناتا ہے ، کبھی نفسیاتی طور پر اور کبھی معاشی طور پر ۔
اپنے اطراف کا جائزہ لیجیےتو معلوم ہوگا کہ ہمارے یہاں 90 فیصد جج مرد ہیں، پارلیمنٹ میں 80 فیصد سیٹوں پر مردوں کا قبضہ ہے، عورتیں مردوں کے مقابلے دوگنا کام کرتی ہیں اور مرد ماہانہ آمدنی کا 90 فیصد حصہ کمالے جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے آپ یہ سوچیں کہ مرد خرچ تو عورت پر ہی کرتا ہے ،اس میں حرج کیا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ سروے اور ڈیٹا آپ کو مبالغہ آمیز لگے۔ آج تک آپ کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ نہ ہوا ہو لیکن یہ اس ملک کی 48 فیصد خاتون کی حقیقت ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کتنا تکلیف دہ ہے کہ ہماری خواتین ایسے مظالم برداشت کر جاتی ہیں اور پولیس کے پاس جا کر ایک رپورٹ درج کروانے سے بھی ڈرتی ہیں ۔ہر مسئلہ اپنے ساتھ اپنا حل بھی رکھتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم خود کو، اپنی بہنوں کو، اپنی بیٹیوں کو تعلیم دیں، انہیں با ہمت اور با اختیار بنائیں ،تاکہ نہ وہ خود مظلوم بنیں نہ ہی دوسروں پر ظلم کریں۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ۲۰۲۳