فروری ۲۰۲۳

اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ عقلِ سلیم جیسی دولت کی بنا پر اشرف المخلوقات کا درجہ بخشا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان ترقی کے مراحل طے کرتا گیا۔ ہر دور میں نئی ایجادات اور انقلابات اس کے قدم چومتے گئے۔ یہ انسان جسے اللہ نے معمولی سی مٹی سے بنایا تھا اس نے چاند تک رسائی حاصل کر لی، بس اتنا ہی نہیں بلکہ جدید تکنیک کو بروئے کار لاکر کائنات کے رازوں کو آشکار کرنے پر تلا ہے۔
بے شک انسانوں نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعے کارہائے نمایاں انجام دئیے اور جن کاموں کو آج سے سو برس پہلے جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا ،انہیں سہل و آسان بنا دیا۔ ہر چیز کو اپنے اختیار اور قابو میں کرنے کی خواہش نے اس کے آنکھوں پر ہوس کا پردہ ڈال دیا۔ ان سارے کارناموں اور ترقیاتی میدان میں آگے بڑھنے کے باوجود انسان موت کو مات دینے والا فارمولا بنانے سے قاصر ہے۔
زندگی ، یہ زندگی کیا ہے ؟زندگی کہتے ہیں پیدائش سے موت تک کے سفر کو ، لیکن اس ’پ ‘سے ’م ‘تک کے درمیان جو چیز ہے وہ ہے ہمارے رب کے منصوبے ، اس کے احکامات اور اس پر ہماری اپنی ترجیحات۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ سامانِ ضرورت کے ساتھ زندگی گزار کر جنت کے حقدار بنیں یا بصورتِ دیگر نفسِ امارہ کی خواہشات اور اس دنیا کی رنگینیوں و دل فریبیوں میں کھو کر جہنم کے حقدار بنیں۔

سو برس کا سامان جمع کرنے اور اسے سینت سینت کر رکھنے والوں کا عبرت ناک انجام اس بات کا شاہد ہے کہ فرعون کو اس کا دعوی ٔ خدائی سمندر میں غرق ہونے سے نہیں بچا سکا ، جس قارون کے خزانے کی صرف کنجیاں 10 پہلوانوں کی ٹولی اٹھاتی تھی وہ اپنے آپ کو ملک الموت سے نہیں بچا پایا ، مغرور شداد نے زمین پر اپنی جنت تو بنالی مگر موت کے شکنجے میں پھنس گیا ، نمرود کی موت کا سبب اللہ نے معمولی سے مچھر کو بنایا ، جن وارثین کو ابولہب اپنا سو برس کا سامان سمجھ رہا تھا، اسی سامان نے اس کی بدبودار لاش سے منہ موڑ لیا ، ہمارے پیارے نبیﷺ کی امت کا فرعون ابوجہل دو بچوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہوا ، سکندر نیپولین کی موت کا نقشہ شاعر رضا علی نے کچھ یوں کھینچا ہے :

 مہیا گرچہ سب اسباب ملکی اور مالی تھے
سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

یہ منکرینِ حق جنہیں پل بھر کی خبر نہ تھی مگر سامان سو برس کا رکھا کرتے تھے ۔ ان کی اموات آنے والے نسلوں کے لئے نمونۂ عبرت بنیں۔

یٰلیتَھَا کانتِ الْقاضِیَۃ ٭ مَا اغْنٰی عنِّی مَالِیَه ٭(القرآن)

(کاش کہ موت میرا کام ہی تمام کر دیتی ! میرے مال نے مجھے کچھ نفع نہ دیا۔)
اس ناپائیدار زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔ خلیل جبران کا کہنا ہے کہ میں نے بار بار اس بات پر غور کیا کہ موت کیا ہے ؟ اس کا زندگی سے کیا رشتہ ہے ؟ ایک دفعہ میں نے ایک سمندری جہاز دیکھا جب وہ ساحل سے دور ہوتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا ،تب وہاں پر موجود لوگ کہنے لگے:’’ چلا گیا ۔‘‘ میں نے سوچا اسی طرح دور ایک بندرگاہ ہوگی اور وہاں پر لوگ کہنے لگیں گے:’’ آگیا۔‘‘ اور شاید اسی کا نام موت ہے۔ ایک پرانی زندگی کا خاتمہ اور ایک نئی زندگی کا آغاز۔ بقولِ شاعر :

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

دنیا کی زندگی تو چند روزہ اور فانی زندگی ہے۔ اس کے بر خلاف آخرت کی زندگی ابدی زندگی ہے۔ آج ہم ہائی اسٹیٹس ، بینک بیلنس ، سوشل و کلچرل لائف کو اپنی پہچان بناتے ہوئے حرام و حلال کی تمیز کو بھلا بیٹھے۔ سینت سینت کر مال جمع کرنے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مگن ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کر لی ؟ کیا ہمیں اپنے نامۂ اعمال کے داہنے ہاتھ میں ملنے کا یقین ہے ؟ کیا ہم جنت الفردوس کی خواہش اپنے دل میں رکھتے ہیں ؟
ہم اس دوراہے پر کھڑے ہیں کہ کب موت کا بے رحم پنجہ سختی کے ساتھ ہمیں آ دبوچے۔ جو ایک اٹل حقیقت ہے ،جس کی لپیٹ میں کسی بھی عمر کو رعایت نہیں بخشی جاتی۔ یہ چلتی سانسیں اس زندگی کی علامت ہیں۔ ہم اس آیتِ کریمہ کو بھلا بیٹھے:
’’پھر اس روز تم سےان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘(ترجمہ قرآن)
بقولِ عامر عثمانی :

اپنی قبر میں تنہا آج تک گیا ہے کون
دفترِ عمل عامرؔ ساتھ ساتھ جاتا ہے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس زندگی کو نعمتِ عظمیٰ سمجھتے ہوئے ، جواب دہی کے احساس کے ساتھ گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ۲۰۲۳