دراصل یہ بہن بھائیوں کے طویل مدتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔کلیمسن یونیورسٹی کے محققین کی طرف سے گذشتہ ستمبر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں %75 شرکاء نے بہن بھائی کی طرف سے دشمنی کی اور% 85نے بہن بھائی کو دھونس دینے کی اطلاع دی۔ جیسا کہ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ بہن بھائیوں کی غنڈہ گردی بہت مشکل ہے کہ بچپن میں پیدا ہو اور وقت کے ساتھ نہ بڑھے اور یقین رکھیں، کوئی بھی بہن بھائی کے غیر صحت مندرشتے سے متاثر نہیں ہوتا۔ والدین سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں،وہ اپنے بچوں کے درمیان غیر ہم آہنگ ماحول میں پھنس جاتے ہیں۔اگر آپ کے گھر میں بچوں کے درمیان ہلکی پھلکی رنجش بھی ہے تو اسے بروقت درست کرنا زیادہ اہم کام ہے۔ درست کرنے کی تدبیر زیادتی کرنے والے بچے کو ڈرانا یا خاموش کرنا ہرگز نہیں ہے، رویے کو درست کرنے کے لیے آپ کو کچھ اصول وضع کرنے ہوں گے۔
صلح جو والدین ابتداء ہی سے اس کا خیال رکھتے ہیں،اور بچوںکے اندر باہمی محبت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔اس کے علاوہ نفسیاتی مسائل بھی بچوں کی دشمنی کا سبب بنتے ہیں۔ اس میں شامل تمام بچوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بہن بھائیوں کی جارحیت، خراب دماغی سے منسلک تھی اور اس کا تعلق ڈپریشن ، اضطراب اور غصے کے مسائل میں اضافے سے تھا۔ان نفسیاتی مسائل میں اضافے کا سبب بہت سے تکلیف دہ واقعات ہوسکتے ہیں۔ جیسے بچوں کی تربیت کی ماہر ’’ شوبھا بھاگوت‘‘ اپنی کتاب ’’Our children ‘‘میں لکھتی ہیں کہ گھر کے دیگر افراد، رشتے، ہم سائے، اساتذہ یا دوست ہم جولی آپ کا تقابل آپ کے بہن بھائی سے کرکے بھی آپ کے دل میں بغض و نفرت بھردیتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ میرے ہم سایوں اور سگی پھوپھی نے ہی مجھے احساس دلایا تھا کہ میں دیگر بہن بھائیوں کے مقابلے میں کالی ہوں ۔
اسی طرح بہن بھائیوں کے درمیان کسی ایک بچے کی صلاحیت کا اظہار اوردوسرے کو نظر انداز کرنا بھی نفرت کے جذبات بھر دیتا ہے ۔بعض صورتوں میں، بہن بھائیوں کی جارحیت کے دماغی صحت پر اثرات وہی ہوتے ہیں جو کسی اجنبی سے جھیلے گئے جارحانہ رویے کے ہوتے ہیں۔بچوں درمیان دشمنی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے مشاہدہ کریں کہ کیا آپ کے گھر میں ذیل میں دئیے گئے سوال کا جواب ہاں میں ہے ؟
دو بہنوں یادو بھائیوں میں اور بہن بھائی میں طول پکڑی ہوئی دشمنیوں پر تحقیق کی گئی ،جس میں اپنے اپنے دشمنی کے بچپن کے موقعوں اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بتایا :’’ جب میں نے تین سال پہلے ایک جیسے جڑواں بچوں میل اور مارو کا انٹرویو کیا تو اس وقت کے 27 سالہ بچوں نے لڑکپن میں بھائی بھائی کے درمیان چلی گئی چالوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ کس طرح کھلونے پر لڑتے ہوئے ان دونوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی تھی مارول کو والدین سے ملنے والی توجہ اور صلاحتوں کی تعریف نے اسے حسد کا شکار بنادیا تھا ۔اسی طرح بیل اور کتھلین بھائی بہن ہیں ،وہ ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے ہم سائے اور رشتہ داروں نے کتھلین کے سنہرے بالوں کی تعریف اور میری ناک کا مذاق بناکر میرے دل میں بہن کے لیے دشمنی کے جذبات پیدا کردیئے۔ ‘‘
ان مثالوں کا مقصد یہی ہے کہ اسی طرح کی کوتاہیاں ہمارے معاشرے میں بھی بہن بھائی کی دشمنی کا سبب بنتی ہیں ۔دو بہنوں کے درمیان بپچن کی دشمنی بھی مشہور ہے ۔
صلح جو والدین ابتداء ہی سے اس کا خیال رکھتے ہیں،اور بچوںکے اندر باہمی محبت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔اس کے علاوہ نفسیاتی مسائل بھی بچوں کی دشمنی کا سبب بنتے ہیں۔ اس میں شامل تمام بچوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بہن بھائیوں کی جارحیت، خراب دماغی سے منسلک تھی اور اس کا تعلق ڈپریشن ، اضطراب اور غصے کے مسائل میں اضافے سے تھا۔ان نفسیاتی مسائل میں اضافے کا سبب بہت سے تکلیف دہ واقعات ہوسکتے ہیں۔ جیسے بچوں کی تربیت کی ماہر ’’ شوبھا بھاگوت‘‘ اپنی کتاب ’’Our children ‘‘میں لکھتی ہیں کہ گھر کے دیگر افراد، رشتے، ہم سائے، اساتذہ یا دوست ہم جولی آپ کا تقابل آپ کے بہن بھائی سے کرکے بھی آپ کے دل میں بغض و نفرت بھردیتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ میرے ہم سایوں اور سگی پھوپھی نے ہی مجھے احساس دلایا تھا کہ میں دیگر بہن بھائیوں کے مقابلے میں کالی ہوں ۔
اسی طرح بہن بھائیوں کے درمیان کسی ایک بچے کی صلاحیت کا اظہار اوردوسرے کو نظر انداز کرنا بھی نفرت کے جذبات بھر دیتا ہے ۔بعض صورتوں میں، بہن بھائیوں کی جارحیت کے دماغی صحت پر اثرات وہی ہوتے ہیں جو کسی اجنبی سے جھیلے گئے جارحانہ رویے کے ہوتے ہیں۔بچوں درمیان دشمنی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے مشاہدہ کریں کہ کیا آپ کے گھر میں ذیل میں دئیے گئے سوال کا جواب ہاں میں ہے ؟
دو بہنوں یادو بھائیوں میں اور بہن بھائی میں طول پکڑی ہوئی دشمنیوں پر تحقیق کی گئی ،جس میں اپنے اپنے دشمنی کے بچپن کے موقعوں اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بتایا :’’ جب میں نے تین سال پہلے ایک جیسے جڑواں بچوں میل اور مارو کا انٹرویو کیا تو اس وقت کے 27 سالہ بچوں نے لڑکپن میں بھائی بھائی کے درمیان چلی گئی چالوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ کس طرح کھلونے پر لڑتے ہوئے ان دونوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی تھی مارول کو والدین سے ملنے والی توجہ اور صلاحتوں کی تعریف نے اسے حسد کا شکار بنادیا تھا ۔اسی طرح بیل اور کتھلین بھائی بہن ہیں ،وہ ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے ہم سائے اور رشتہ داروں نے کتھلین کے سنہرے بالوں کی تعریف اور میری ناک کا مذاق بناکر میرے دل میں بہن کے لیے دشمنی کے جذبات پیدا کردیئے۔ ‘‘
ان مثالوں کا مقصد یہی ہے کہ اسی طرح کی کوتاہیاں ہمارے معاشرے میں بھی بہن بھائی کی دشمنی کا سبب بنتی ہیں ۔دو بہنوں کے درمیان بپچن کی دشمنی بھی مشہور ہے ۔
مشاہدہ کیجیے کہ آپ کے گھر میں:
(1)بچے ایک دوسرے سے ہاتھاپائی کرتے ہیں ؟
(2) ایک دوسرے کے بال نوچنے اور چڑانے کی شکایتیں آپ تک آتی ہیں؟
( 3) میری چیز ،تمہاری چیز کی تکرار جاری رہتی ہے؟
(4) کیا کوئی بچہ گھر سے اپنی رکھی ہوئی چیز کےٹوٹ جانے یا گم ہونے کی شکایت کرتا ہے ؟
(5) کیا گروہی کھیل میں کسی ایک بچے کو کھیل میں شامل نہ کرنے کی شکایت آتی ہے ؟
(6) کیا کھیل کی اسکیم کو کوئی ایک بچہ بگاڑ دیتا ہے ؟
(7) کیا کسی بچے کی کامیابی کی خوشی میں دوسرے بچے شامل ہونے کے بجائے ناگوار تاثرپیش کرتے ہیں ؟
اگر یہ شکایتیں ہیں یاان میںسے کوئی ایک شکایت بھی آپ کے بچوں کے درمیان ہے تو آپ مستعد ہوجائیں ۔اس کے تدارک کے لیے ذیل میں تجربات اور تحقیقات پر مبنی کچھ اصول بیان کیے جارہے ہیں :
اولاد کے درمیان توازن
اگر بچوں کے درمیان تنازعےوقتی طور پر لڑائی سلجھانا اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔آپ کو مستقل دوستی کروانے کی ضرورت ہے ۔یاد رہے! گھر بچوں کی پناہ گاہ ہیں۔ گھر ہی میں بچے کی شخصیت سنورتی ہے، والدین کے بعد سب سے زیادہ بہن بھائی کے درمیان بچے پرورش پاتے ہیں ۔سب سے مضبوط رشتہ بہن بھائی کا ہے ،اگر ان میں باہم تعاون کا مزاج ہو ۔یہ ایک دوسرے کے لیے مضبوط سہارا بن سکتے ہیں ۔
(2) ایک دوسرے کے بال نوچنے اور چڑانے کی شکایتیں آپ تک آتی ہیں؟
( 3) میری چیز ،تمہاری چیز کی تکرار جاری رہتی ہے؟
(4) کیا کوئی بچہ گھر سے اپنی رکھی ہوئی چیز کےٹوٹ جانے یا گم ہونے کی شکایت کرتا ہے ؟
(5) کیا گروہی کھیل میں کسی ایک بچے کو کھیل میں شامل نہ کرنے کی شکایت آتی ہے ؟
(6) کیا کھیل کی اسکیم کو کوئی ایک بچہ بگاڑ دیتا ہے ؟
(7) کیا کسی بچے کی کامیابی کی خوشی میں دوسرے بچے شامل ہونے کے بجائے ناگوار تاثرپیش کرتے ہیں ؟
اگر یہ شکایتیں ہیں یاان میںسے کوئی ایک شکایت بھی آپ کے بچوں کے درمیان ہے تو آپ مستعد ہوجائیں ۔اس کے تدارک کے لیے ذیل میں تجربات اور تحقیقات پر مبنی کچھ اصول بیان کیے جارہے ہیں :
اولاد کے درمیان توازن
اگر بچوں کے درمیان تنازعےوقتی طور پر لڑائی سلجھانا اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔آپ کو مستقل دوستی کروانے کی ضرورت ہے ۔یاد رہے! گھر بچوں کی پناہ گاہ ہیں۔ گھر ہی میں بچے کی شخصیت سنورتی ہے، والدین کے بعد سب سے زیادہ بہن بھائی کے درمیان بچے پرورش پاتے ہیں ۔سب سے مضبوط رشتہ بہن بھائی کا ہے ،اگر ان میں باہم تعاون کا مزاج ہو ۔یہ ایک دوسرے کے لیے مضبوط سہارا بن سکتے ہیں ۔

اسٹیون اپنے ریسرچ میں یہ بات کہتی ہیں کہ والدین اپنے بچوں کے درمیان کی لڑائی کو بچپن میں بچپن کی نادانی سمجھ کر معمول کی بات سمجھتے ہوں تو سمجھ لیجیے کہ یہ مستقبل میں ایک دوسرے کا مضبوط سہارا نہیں بنیں گے، کیونکہ یہ چپقلش ان کو ایک دوسرے کے جذبات سے بے نیاز اور خود غرض بنادیتی ہے، حالانکہ خونی رشتہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے لیے تڑپتے ہیں ،لیکن بچپن کے یہ سنہرے لمحات بری یاد کی طرح ذہن میں چسپاں یادداشت بن کر بدلے کے جذبات پیدا کرتی ہے اوروہ ایک دوسرےکی مدد کےلیے حد سے گزرے نے بجائے ان یادوں کی وجہ سےاچھےہمدردنہیں بن پاتے ۔
یہ اصول قرآن سےبھی ماخوذہے کہ والدین بچوں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں بھی آپ غور کریں تو محسوس ہوگا کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے یوسف سے کہا تھا کہ بیٹا! اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائی سے نہ کرنا، شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
کبھی کبھی بچوں کے درمیان باصلاحیت بچے اور اس بچے پر اللہ کی عنایت کا والدین کو احساس ہوجاتا ہے، تاہم حکمت یہ ہے کہ دیگر بچوں کے درمیان والدین توازن پیدا کرنے لیے نمایاں کرکے صرف ایک کی خوبیوں کا ہر ایک کے سامنے ذکر نہ کریں ،اور ذکر کرنا اگر ناگزیر ہوتو دونوں کی جدا گانہ خوبیاں ذکر کریں۔ کسی ایک کی جانب آپ کا زیادہ جھکاؤ نہ ہو، اگر جھکاؤ کا شائبہ بھی ہو تو سمجھ لیں کہ یہ چیز دیگر بہن بھائیوں کے درمیان حسد کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
یہ اصول قرآن سےبھی ماخوذہے کہ والدین بچوں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں بھی آپ غور کریں تو محسوس ہوگا کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے یوسف سے کہا تھا کہ بیٹا! اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائی سے نہ کرنا، شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
کبھی کبھی بچوں کے درمیان باصلاحیت بچے اور اس بچے پر اللہ کی عنایت کا والدین کو احساس ہوجاتا ہے، تاہم حکمت یہ ہے کہ دیگر بچوں کے درمیان والدین توازن پیدا کرنے لیے نمایاں کرکے صرف ایک کی خوبیوں کا ہر ایک کے سامنے ذکر نہ کریں ،اور ذکر کرنا اگر ناگزیر ہوتو دونوں کی جدا گانہ خوبیاں ذکر کریں۔ کسی ایک کی جانب آپ کا زیادہ جھکاؤ نہ ہو، اگر جھکاؤ کا شائبہ بھی ہو تو سمجھ لیں کہ یہ چیز دیگر بہن بھائیوں کے درمیان حسد کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
انفرادی توجہ
شروع سے ہی والدین کو عادت بنانی چاہیے کہ وہ فرداً فرداً بچوں کو وقت دیں۔ ان سے ان کے مسائل پوچھیں ،ان کے تعلیمی مسائل ،ان کے انفرادی مسائل اور بہن بھائی سے ان کا تعلق معلوم کریں ۔ اسکول میں کون دوست ہیں؟ دوستوںسے متعلق ان کی رائے جانیں، دوست کی فیملی اوراس کےتئیں بچےکی رائےمعلوم کریں، اساتذہ سے متعلق گفتگو کریں ۔سبجیکٹ کی دشواری سے متعلق بات کریں، بہن بھائی اگر ان درجات سے گزر چکے ہوں تو ان سے تعاون لینے کی بابت مشورہ دیں ۔انہیں باتوں باتوں میں اصول سکھائیں کہ ایک دوسرے کا احترام کریں ۔کبھی کبھی بچوں سے گفتگو کے دوران آپ ان کے مسائل پر ردِعمل پیش کیا کریں۔ آپ کواگر یہ آسان نہیں لگتا تواس صورت میں کسی ماہر نفسیات سے آپ گفتگو کریں، اس کا حل نکالنے کی کوشش کریں ۔والد اور والدہ کی جانب سےپرسنل گفتگو کا وقت ہردو کو کودیاجانا چاہیے ۔
احساس اجاگر کریں!
خونی رشتہ ہی سب سے پائدار اور دیرپا ساتھ نبھانے والا رشتہ ہے ۔رحمی رشتوں کی قرآن نے بڑی اہمیت بیان کی ہے۔ سمجھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خالہ، ماموں، تایا، چچا، پھوپھی کے رشتوں کو بہت احترام دیں۔ یاد رکھیں! والدین اپنے خونی رشتوں کی برائی کرتے ہو ںاورانھیںتوقع ہو کہ ان کے بچے آپس میں نہ لڑیں، یہ بڑی بے وملی ہوگی ۔
اعتدال کے ساتھ اپنے رشتوں کو اہمیت دیں !
اپنے بہن بھائیوں کے رشتوں کو اولاد پر ترجیح دینا اور اعتدال کا دامن چھوڑنا بھی بچوں کو متنفر بناتا ہے ۔ رشتوں کا احترام کرنا سکھائیں ، اپنی زکوٰۃ وصدقات میں غریب رشتہ داروں کی ترجیح سکھائیں ۔انہیں یہ بھی سکھائیں کہ بہن بھائی دراصل آپ کا شجرہ ہیں، خاندان کا حصہ ہیں۔ایسے واقعات سنائیں جہاں بہن بھائی کی غلطیوں کو معاف کیا جاتا ہے، کوتاہی سے درگز کیا جاتا ہے۔ لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا کنویں میں ڈال دینا سنادیتے ہیں، تاہم یوسف علیہ السلام کا بھائیوں کو معاف کردینا بھول جاتے ہیں ۔ہم بچوں میں مثبت کہانی سناکر ان میں دوستی کاجذبہ پیدا کریں۔
بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کا مدد گار بنائیں !
موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے اپنے بھائی ہارون کی رفاقت مانگی۔ اس میں نشانی ہے کہ خونی رشتہ اس کام کے لیے انہیں معتبر لگا تھا ۔ ان مین امداد باہمی پیدا کرنے کے لیے بڑے بچے سے کہیں کہ چھوٹے کا ہوم ورک کروادو، چھوٹے سے کہیں بھائی کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹادو۔ یاد رہے! بچوں کی تقسیم کار میں صنفی تفریق کا شائبہ بھی نہ ہو۔ بیٹی سے بیٹوں کے کام کروائے گئے اور بیٹوں کو آزادی دی جائے ،تویہ بھی تربیت کا غیر حکیمانہ اصول ہوگا، جس کا ردعمل دشمنی بن سکتا ہے ۔بہن بھائیوں کے درمیان صحت مند رابطے کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر ان میں اختلاف ہے تو انہیں صحت مند طریقے سے دلائل کی بنیاد پر ایک دوسرے کو منانے کی اجازت دیں۔ انہیں سکھائیں کہ گفت و شنید اور سمجھوتا کیسے کریں۔ آپ کو پہلے تو اصول قائم کرنے میں ان کی مدد کرنی پڑ سکتی ہے، لیکن ایک بار جب وہ اسے خود کرنے کے قابل ہو جائیں تو آپ درمیان سے ہٹ جائیں۔
مشاورت کا ماحول بنائیں !
جوں جوں بچے بڑے ہوں، ان کے درمیان ایک دوسرے کے معاملات میں مشاورت کا ماحول بنائیں۔ جیسے بچہ آپ سے اجازت مانگے کہ اسکول میں پکنک ٹرپ پر جانا چاہتا ہے یا فلاں کورس کرنا چاہتا ہے، فلاں کوچنگ لینا چاہتا ہے، آپ کہیںکہ اپنے بڑے بھائی یا بہن سے مشاورت کرلو۔مشاورت کی عادت ڈالنا اور مشاورت کے اصول قرآنی انداز میں سکھانا مسئلے کا بہترین حل ہے ۔
اصول وضع کریں !
چوں کہ تربیت میں اصول وضع کرنا بے حد اہم ہے، جیسے ایک دوسرے کو احترام کے ساتھ پکارا جائے ۔ تو کہنے بجائے ’’ آپ ‘‘ کہیں ۔ایک دوسرے کی چیز کو بغیر اجازت ہاتھ نہ لگائیں ۔ ایک دوسرے کی پرائیویسی کا احترام کریں ۔جب بالغ ہوجائیں ،ایک دوسرے کی نگاہ کی پاکیزگی ایک دوسرے کے غیاب میں ذکر کریں کہ ہم سائے نے بتایا:’’ آپ کے بچے راہ چلتے ہوئے نگاہ جھکاکر چلتے ہیں، ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔‘‘
امتحان میں نقل نہ کرنے کا اصول، بے حیائی اور فحش کو نہ دیکھنے اور سننے کا اصول ۔کسی کی بات کو کاٹ کر بات نہ کرنے کا اصول ۔ معاف کردینے کا اصول ۔اصول بنانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچے ایک دوسرے کے نگراں بن جاتے ہیں ۔اصول وضع کرنے کے بجائے والدین کے عمل کرنے سے اصول خود نافذ ہوتے ہیں ۔اللہ نے تقسیم وراثت کے اصول بیان کرکے واضح کیا کہ اصول بہن بھائیوں کے درمیان تنازعے کو ختم کرکے صحت مند تعلق کے لیے ضروری ہے ۔بچے کی نشوونما کے لیے بہن بھائی ضروری ہیں ۔ ایک صحت مند بہن بھائی کے رشتے کے فوائد زندگی بھر چل سکتے ہیں۔ سالوں کے دوران وہ معاون دوست بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے والدین کے علاوہ، آپ کو آپ کے بھائی یا بہن سے بہتر اور کون جانتا ہے؟اللہ سے اپنے بچوں کے صحت مند رشتوں اور مضبوطی کے لیے دعا کرتے رہیں ۔
امتحان میں نقل نہ کرنے کا اصول، بے حیائی اور فحش کو نہ دیکھنے اور سننے کا اصول ۔کسی کی بات کو کاٹ کر بات نہ کرنے کا اصول ۔ معاف کردینے کا اصول ۔اصول بنانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچے ایک دوسرے کے نگراں بن جاتے ہیں ۔اصول وضع کرنے کے بجائے والدین کے عمل کرنے سے اصول خود نافذ ہوتے ہیں ۔اللہ نے تقسیم وراثت کے اصول بیان کرکے واضح کیا کہ اصول بہن بھائیوں کے درمیان تنازعے کو ختم کرکے صحت مند تعلق کے لیے ضروری ہے ۔بچے کی نشوونما کے لیے بہن بھائی ضروری ہیں ۔ ایک صحت مند بہن بھائی کے رشتے کے فوائد زندگی بھر چل سکتے ہیں۔ سالوں کے دوران وہ معاون دوست بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے والدین کے علاوہ، آپ کو آپ کے بھائی یا بہن سے بہتر اور کون جانتا ہے؟اللہ سے اپنے بچوں کے صحت مند رشتوں اور مضبوطی کے لیے دعا کرتے رہیں ۔
ویڈیو :
آڈیو:
audio link
Comments From Facebook
0 Comments