ملک ہندوستان میں جہیز یا انگریزی لفظ Dowery سےان سامانوں کو تعبیر کیا جاتا ہے ،جنھیںایک لڑکی اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہوتے وقت لے کر اپنے نئے گھر یعنی سسرال کا رخ اختیار کرتی ہے۔
یہ لعنت زدہ رسم جو صدیوں قبل برادران وطن میں زور و شور سے رائج تھی، اور ہندو گھرانوں میں لڑکیوں کو جہیز نہ لانے کی صورت میں یا تو نذر آتش کردیا جاتا تھا یا گلا گھونٹ کر انہیں زندگی سے محروم کردیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ قبیح رسم مسلم معاشرے میں بھی بھی اپنی جگہ بنانےلگی اور ائمۂ دین کی جانب سےاصلاح معاشرہ کےلیے کی جانے والی پیش رفت کے باوجود یہ رسم ایک ناسور کی مانند معاشرے میں جڑ پکڑتی چلی گئی۔
جہیز کا ناسور جب سماج کا حصہ بن گیا تو کہیں ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کا شکار ہوئیں ،اور ماں باپ کے گھروں میں رحمت بن کر آنے والی لڑکیاں کبھی زحمت سمجھی جانے لگیں ،تو کبھی اس مرض کا تشفی بخش علاج نہ ہونے کی صورت میں اس مرض کاشکار ہوتی چلی گئیں،چنانچہ بعض کو نذر آتش کیا گیا تو بعض وحشت و درندگی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
اسی ناسورنے جب مزید برا رخ اختیار کیا توتقریبا ًدو ڈھائی سال قبل عائشہ نے عارف کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردی اور تقريبا ًدوماہ قبل اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والی ایک لخت جگر وحشت و درندگی کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلی گئی۔
یہ قصے ابھی خیالوں میں زندہ اور لبوں پر متحرک تھے کہ 2022 ءکے اختتام پر 31 دسمبر کو ایک پرسوز اور دردناک واقعہ پیش آیا، جب ایک نوشین نامی شہزادی درندگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔ سوا سال قبل یہ دوشیزہ مہاراشٹرکے بھیونڈی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے 5 اگست 2021 ءکو ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بمہور میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے، اور اپنے پیدائشی گھر کو خیر باد کہہ کر ایک نئے ہم سفر کی ہم رکاب بن کر زندگی کے سنہرے خواب سجاتی ہے۔ مگر کسے معلوم تھا کہ سنہری زندگی کا یہ خواب کبھی شرمندہ ٔتعبیر نہیں ہو سکے گا اور یہ شہزادی محض خواب دیکھتے دیکھتے اس درندہ صفت بھیڑیے کا شکار ہو جائے گی، جس نے مکاری کا خول چڑھا کرخود کو ایک مخلص شوہر ثابت کرنے کی کوشش کی ۔
یہ وہ شہزادی ہے جو ڈھیروں قیمتی سازوسامان لے کر اپنے نئے گھر میں داخل ہوتی ہے، مگر جہیز کے بھوکے بھیڑیوں کا پیٹ بھرنے میں ناکام رہتی ہے اور 31 دسمبر کو وہ خونخوار بھیڑیے کی زد میں آکر اس دنیا کوالوداع کہہ جاتی ہے۔
متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے والدین سوا سال قبل جہیز کا سامان تیار کرکے اپنی عزیز متاع حیات کو غیروں میں سونپنے کے بعد سکون کی سانس تلاش کرتے ہیں، اور ابھی وہ وقت آتا بھی نہیں کہ پے در پے قیمتی گاڑی اور گھر کے مطالبات سامنے آنےلگتے ہیں ،جس پر دلبرداشتہ ہوکر وہ رحمت کی گڑیا شدید ردعمل کا اظہار کرتی ہے اور بالآخر وحشی درندوں کی درندگی کا شکار ہوجاتی ہے۔
اب ایسے ماحول میں ائمۂ مساجد، خطباء جمعہ اور تحریکی انجمنوں کے سربراہان کی ذمہ داری مزید دو چند ہوجاتی ہے کہ وہ جہیز کی قباحت، عورتوں کے حق میراث، حقوق العباد، بالخصوص بہوؤں کے حقوق جیسےموضوعات کو اپنے منبروں کی آواز بنائیں ۔ یہی نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ کی مہم شروع کرکے گھر گھر جہیز کی قباحت، نیز شادی کے بعد بہوؤں کے حقوق سے متعارف کروائیں اور ان پر یہ واضح کریں کہ شادی کے بعد ایک لڑکی کا مکمل خرچ شوہر اور اس کے گھر والوں کے ذمہ ہوتا ہے۔ لہذا، جہیز کا مطالبہ سرا سر ناجائز ہے،اور اگر کوئی باپ یا بھائی محض اپنی بیٹی یا بہن کی سہولت کے پیش نظر کچھ اثاثہ اپنی بیٹی یا بہن کو بطور ہدیہ دیتاہے تو اس کی گنجائش ہے، مگر جہیز کا مطالبہ کسی بھی طور پر جائز نہیں۔
ائمہ ٔمساجد اور سربراہان ملت اس بات کو اس فتوی کی روشنی میں اجاگر کرنے کی کوشش کریں کہ حج کے ایام میں جس طرح جان کو محترم قرار دیتے ہوئے رمی جمرات کی صبح سے شام تک کی تقیید ختم کرکے چوبیس گھنٹے کے لیے رمی کی اجازت عام کر دی گئی، نیز جمرات کی تین منزلہ توسیعی عمارت کی بنیاد ڈالی گئی تاکہ انسانی جانوں کا تقدس پامال نہ ہوسکے؛اسی طرح وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ائمۂ وقت اس فتوے کو عام کریں کہ جہیز کا لین دین جائز ہی نہیں کیونکہ جب گنجائش کی بات کی جاتی ہے تو امیر ترین طبقہ اپنی بیٹی کو قیمتی جہیز دے کر معاشرے میں جہیز کی راہ کھولتا ہے ،اور جہیز کے لالچی کتے اسے اپنا حق سمجھنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے ،اور عدم ادائیگی کی صورت میں ایک غریب مگر اپنے باپ کی شہزادی بیٹی اپنی زندگی سے محروم ہوجاتی ہے۔
قائدین ملت اور ائمۂ مساجد ’’ المسلم من سلم المسلمون من یدہ و لسانہ ‘‘ کی سچی تشریح امت کے سامنے پیش کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں اور یہ اجاگر کرنے کی کوشش کریں کہ وہ بہو جسے وہ اپنی نوکرانی سے بھی بدتر گمان کرتے ہیں ،وہ اپنے والدین کی شہزادی ہے، جسےانھوں نے محض فرمان خدا اور سنت نبوی پر لبیک کہتے ہوئے خود سے جدا کیاہے۔
ائمۂ مساجد’’ الرجال قوامون علی النساء‘‘ کی تفسیر میں ’’بما فضل اللہ بعضھم علی بعض‘‘ کے ساتھ’’ و بما انفقوا من اموالھم ‘‘ کی وضاحت پرزور انداز میں کریں اورحدیث ’’کلکم مسؤول عن رعیتہ‘‘ کے تناظر میں یہ باور کرائیں کہ شوہر اپنی بیوی کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے، اور شوہر کی معاشی حالت بہتر نہ ہونے کی صورت میں شوہر کے والدین اس کے ذمہ دار ہیں ، نہ کہ لڑکی کے والدین۔
یہ لعنت زدہ رسم جو صدیوں قبل برادران وطن میں زور و شور سے رائج تھی، اور ہندو گھرانوں میں لڑکیوں کو جہیز نہ لانے کی صورت میں یا تو نذر آتش کردیا جاتا تھا یا گلا گھونٹ کر انہیں زندگی سے محروم کردیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ قبیح رسم مسلم معاشرے میں بھی بھی اپنی جگہ بنانےلگی اور ائمۂ دین کی جانب سےاصلاح معاشرہ کےلیے کی جانے والی پیش رفت کے باوجود یہ رسم ایک ناسور کی مانند معاشرے میں جڑ پکڑتی چلی گئی۔
جہیز کا ناسور جب سماج کا حصہ بن گیا تو کہیں ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کا شکار ہوئیں ،اور ماں باپ کے گھروں میں رحمت بن کر آنے والی لڑکیاں کبھی زحمت سمجھی جانے لگیں ،تو کبھی اس مرض کا تشفی بخش علاج نہ ہونے کی صورت میں اس مرض کاشکار ہوتی چلی گئیں،چنانچہ بعض کو نذر آتش کیا گیا تو بعض وحشت و درندگی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
اسی ناسورنے جب مزید برا رخ اختیار کیا توتقریبا ًدو ڈھائی سال قبل عائشہ نے عارف کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردی اور تقريبا ًدوماہ قبل اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والی ایک لخت جگر وحشت و درندگی کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلی گئی۔
یہ قصے ابھی خیالوں میں زندہ اور لبوں پر متحرک تھے کہ 2022 ءکے اختتام پر 31 دسمبر کو ایک پرسوز اور دردناک واقعہ پیش آیا، جب ایک نوشین نامی شہزادی درندگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔ سوا سال قبل یہ دوشیزہ مہاراشٹرکے بھیونڈی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے 5 اگست 2021 ءکو ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بمہور میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے، اور اپنے پیدائشی گھر کو خیر باد کہہ کر ایک نئے ہم سفر کی ہم رکاب بن کر زندگی کے سنہرے خواب سجاتی ہے۔ مگر کسے معلوم تھا کہ سنہری زندگی کا یہ خواب کبھی شرمندہ ٔتعبیر نہیں ہو سکے گا اور یہ شہزادی محض خواب دیکھتے دیکھتے اس درندہ صفت بھیڑیے کا شکار ہو جائے گی، جس نے مکاری کا خول چڑھا کرخود کو ایک مخلص شوہر ثابت کرنے کی کوشش کی ۔
یہ وہ شہزادی ہے جو ڈھیروں قیمتی سازوسامان لے کر اپنے نئے گھر میں داخل ہوتی ہے، مگر جہیز کے بھوکے بھیڑیوں کا پیٹ بھرنے میں ناکام رہتی ہے اور 31 دسمبر کو وہ خونخوار بھیڑیے کی زد میں آکر اس دنیا کوالوداع کہہ جاتی ہے۔
متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے والدین سوا سال قبل جہیز کا سامان تیار کرکے اپنی عزیز متاع حیات کو غیروں میں سونپنے کے بعد سکون کی سانس تلاش کرتے ہیں، اور ابھی وہ وقت آتا بھی نہیں کہ پے در پے قیمتی گاڑی اور گھر کے مطالبات سامنے آنےلگتے ہیں ،جس پر دلبرداشتہ ہوکر وہ رحمت کی گڑیا شدید ردعمل کا اظہار کرتی ہے اور بالآخر وحشی درندوں کی درندگی کا شکار ہوجاتی ہے۔
اب ایسے ماحول میں ائمۂ مساجد، خطباء جمعہ اور تحریکی انجمنوں کے سربراہان کی ذمہ داری مزید دو چند ہوجاتی ہے کہ وہ جہیز کی قباحت، عورتوں کے حق میراث، حقوق العباد، بالخصوص بہوؤں کے حقوق جیسےموضوعات کو اپنے منبروں کی آواز بنائیں ۔ یہی نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ کی مہم شروع کرکے گھر گھر جہیز کی قباحت، نیز شادی کے بعد بہوؤں کے حقوق سے متعارف کروائیں اور ان پر یہ واضح کریں کہ شادی کے بعد ایک لڑکی کا مکمل خرچ شوہر اور اس کے گھر والوں کے ذمہ ہوتا ہے۔ لہذا، جہیز کا مطالبہ سرا سر ناجائز ہے،اور اگر کوئی باپ یا بھائی محض اپنی بیٹی یا بہن کی سہولت کے پیش نظر کچھ اثاثہ اپنی بیٹی یا بہن کو بطور ہدیہ دیتاہے تو اس کی گنجائش ہے، مگر جہیز کا مطالبہ کسی بھی طور پر جائز نہیں۔
ائمہ ٔمساجد اور سربراہان ملت اس بات کو اس فتوی کی روشنی میں اجاگر کرنے کی کوشش کریں کہ حج کے ایام میں جس طرح جان کو محترم قرار دیتے ہوئے رمی جمرات کی صبح سے شام تک کی تقیید ختم کرکے چوبیس گھنٹے کے لیے رمی کی اجازت عام کر دی گئی، نیز جمرات کی تین منزلہ توسیعی عمارت کی بنیاد ڈالی گئی تاکہ انسانی جانوں کا تقدس پامال نہ ہوسکے؛اسی طرح وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ائمۂ وقت اس فتوے کو عام کریں کہ جہیز کا لین دین جائز ہی نہیں کیونکہ جب گنجائش کی بات کی جاتی ہے تو امیر ترین طبقہ اپنی بیٹی کو قیمتی جہیز دے کر معاشرے میں جہیز کی راہ کھولتا ہے ،اور جہیز کے لالچی کتے اسے اپنا حق سمجھنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے ،اور عدم ادائیگی کی صورت میں ایک غریب مگر اپنے باپ کی شہزادی بیٹی اپنی زندگی سے محروم ہوجاتی ہے۔
قائدین ملت اور ائمۂ مساجد ’’ المسلم من سلم المسلمون من یدہ و لسانہ ‘‘ کی سچی تشریح امت کے سامنے پیش کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں اور یہ اجاگر کرنے کی کوشش کریں کہ وہ بہو جسے وہ اپنی نوکرانی سے بھی بدتر گمان کرتے ہیں ،وہ اپنے والدین کی شہزادی ہے، جسےانھوں نے محض فرمان خدا اور سنت نبوی پر لبیک کہتے ہوئے خود سے جدا کیاہے۔
ائمۂ مساجد’’ الرجال قوامون علی النساء‘‘ کی تفسیر میں ’’بما فضل اللہ بعضھم علی بعض‘‘ کے ساتھ’’ و بما انفقوا من اموالھم ‘‘ کی وضاحت پرزور انداز میں کریں اورحدیث ’’کلکم مسؤول عن رعیتہ‘‘ کے تناظر میں یہ باور کرائیں کہ شوہر اپنی بیوی کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے، اور شوہر کی معاشی حالت بہتر نہ ہونے کی صورت میں شوہر کے والدین اس کے ذمہ دار ہیں ، نہ کہ لڑکی کے والدین۔
شوہر کے ذمہ بیوی کے حقوق سے متعلق فرمان باری تعالیٰ ہے:
لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآ اتٰـہُ اللّٰہُ (الطلاق: 7)
(خوش حال آدمی اپنی خوش حالی کے مطابق نفقہ دے اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔)
نیز فرمایا:
نیز فرمایا:
عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ (البقرہ:236 )
(خوش حال آدمی اپنی قدرت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی قدرت کے مطابق (عورت کو کچھ دے)۔)
اور حجة الوداع کے موقع پر عورتوں کے حقوق سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کی توضیح عوام الناس کے سامنے پیش کریں:
اور حجة الوداع کے موقع پر عورتوں کے حقوق سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کی توضیح عوام الناس کے سامنے پیش کریں:
وَ لَھُنَّ عَلَیْکُمْ رِزقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (ابوداو‘د: 1905)
(عورتوں کا تم پر یہ حق ہے کہ تم معروف طریقے کے مطابق ان کے کھانے اور کپڑے کا انتظام کرو۔)
خطباء دین ’’و عاشروھن بالمعروف ‘‘کی سچی تصویر سیرت نبوی اور حیات صحابہ کے آئینے میں پیش کرنے کی کوشش کریں۔
خطباء دین ’’و عاشروھن بالمعروف ‘‘کی سچی تصویر سیرت نبوی اور حیات صحابہ کے آئینے میں پیش کرنے کی کوشش کریں۔
علاوہ ازیں
’’ للرجال مما ترک الوالدان و الأقربون و للنساء مما ترک الوالدان والاقربون‘‘
کی روشنی میں عورتوں کے حق میراث کی تاکید کریں تاکہ خواتین اپنے حق سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کو پر سکون طریقے سے گزارنے کی متحمل ہوسکیں۔
ائمۂ مساجد مندرجہ بالا آیات و حدیث کی روشنی میں شوہر کے ذمہ بیوی کے حقوق سے متعارف کروائیں، تاکہ سماج سے اس کھوکھلی سوچ کا خاتمہ ہوسکے، جہاں سسرال والے یہ سوچتے ہیں کہ ماں باپ نے اپنی بیٹی کو قیمتی جہیز نہ دے کر اپنی بیٹی نیز سسرال والوں کی حق تلفی کی، اور اپنی اسی اندھی سوچ کے مطابق وہ بہو کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں یا پھر زدو کوب کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو شریعت اسلامیہ کو پوری طرح سے اپناتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے،آمین یا رب العالمین۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو شریعت اسلامیہ کو پوری طرح سے اپناتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے،آمین یا رب العالمین۔
Comments From Facebook
0 Comments