جون ۲۰۲۴
زمرہ : النور

عن ابي هريرة انه قال إن الله ليرفع الدرہجة للعبد الصالح في الجنة : فيقول : يا رب أنی لي هذه ؟ فيقول: باستغفار ولدك لك
(المحدث: ابن كثير ، المصدر: البداية والنهاية، الصفحة أو الرقم: 2/340خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح وله شاهد في صحيح مسلم)

(ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: اللہ نيک شخص کا جنت میں درجہ بلند فرمائے گا، تو وہ اللہ سے پوچھے گا کہ یہ درجہ مجھے کہاں سے ملا؟
اللہ فرمائے گاکہ یہ درجہ تجھے تیری اولاد کی تیری مغفرت کی دعا کرنے کی وجہ سے ملا۔

اذا مات الانسان انقطع عنه عمله الا من ثلاثة: الا من صدقة جارية، او علم ينفع به، او ولد صالح يدعو له
(صحيح مسلم، حدیث: 1631)

(انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے،سوائے تین اعمال کے کہ ان کاثواب اسے اس کی موت کے بعد بھی ملتا ہے:صدقۂ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو، اور وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔)

اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے خوش خبری ہے جنھوں نے اپنے بچوں کی دینی تربیت کی ہو۔ اگر ہم نے اپنے بچوں کو صرف عصری تعلیم دی اور دینی تعلیم سے بالکل ناآشنا رکھا تو یہ ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا۔ آج کل ہمارا معیار یہ بن گیا ہے کہ ہمارا بچہ انجینیئر بنے یا ڈاکٹر بنے۔ ہم آخرت کی فکر سے غافل صرف دنیا آباد کرنے میں مصروف ہیں، بلکہ ساتھ ساتھ آخرت بھی مطمح نظر ہو، جنت کی چاہت دل میں بسی رہے۔
نبی کریم صل اللہ علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ صالح اولاد کے لیے دعا کرنی چاہیے،جس طرح خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت زکریا علیہ السلام نے صالح اولاد کے لیے دعا کی تھی:

رب ھب لی من لدنک ذریہ طیبہ انک سمیع الدعا

 (اے میرے رب! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر۔ تو ہی دعا سننے والا ہے۔)

 ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اہلیہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی زندگی ہمارے لیے بہترین ماڈل ہے کہ انھوں نے اپنے فرزند اسماعیل علیہ السلام کی تربیت اس عمدگی سے کی کہ جب آزمائش کا وقت آیا اور باپ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے کہا:
’’بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں۔‘‘
اسماعیل علیہ السلام نے برجستہ جواب دیا:

يا أبت افعل ما تؤمر

 (ابا جان! کر ڈالیے جیسا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔)

ہ فیضان نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

ہمارے لیے ہمارے بچے اللہ کا عطا کردہ قیمتی سرمایہ ہیں۔ اولاد کی دینی تربیت وقت کی ضرورت ہے۔ ہماری اولاد ہمارے بعد ہمارے تہذیبی روایات، دینی تعلیمات، اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ والدین کو بچوں کے سامنے ہمیشہ اچھا عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے، اس لیے کہ والدین کی زندگی ان کےبچوں کے لیے ایک معلم کی طرح ہے۔ بچے ہر وقت ہمیں ہی دیکھ کر پڑھتے اور سیکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو عملی نمونہ بنا کر نہیں دکھائیں گے تو ہم اپنے بچوں کی دینی تربیت نہیں کر سکیں گے۔
ماں باپ کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کی لیے برابر مغفرت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے والدین کے لیے ایک نہایت خوبصورت اور جامع دعا سکھائی ہے:

رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا

(اے میرے رب!، میرے والدین پر اس طرح رحم فرما، جس طرح انھوں نے مجھے کم سنی میں رحمت و شفقت کے ساتھ پالا۔)

حضرت لقمان کا تربیتی انداز، ہمارے لیے رہ نما
قرآن مجید ان کے انداز تربیت کی اہم جھلک یوں پیش کرتا ہے:

وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ یَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللٰهِ-اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(سورۃ لقمان،آیت: 13)

(اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ نصیحت کرتا تھا اے میرے بیٹے! اللہ کا کسی کو شریک نہ کرنا ۔ بےشک شرک بڑا ظلم ہے۔)

ہمارے لیے رہ نمائی

(1) تعلیم وتربیت کی شروعات اپنے ماتحت افراد، اپنے قریبی رشتے داروں سے ہوگی۔ یہ ایک ذمہ داری ہے جس کا حساب دینا ہوگا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے؛ چنانچہ امیر ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے۔‘‘
(2) تعليم وتربیت کی ابتدا عقائد کی وضاحت سے ہونی چاہیے ،خاص کر جب اولاد شعور کی عمر کو پہنچ جائے۔
(3) تعلیم وتربیت نرم الفاظ میں ہونی چاہیے۔آپ نے اسے ’’اے میرے بچے‘‘ فرما کر خطاب فرمایا۔
(4) گذشتہ بزرگوں کی تعلیم یاد دلانا ، ان کے اقوال نقل کرنا قرآن کا معروف اسلوب ہے۔ تعلیم وتربیت میں اس سے مدد لینی چاہیے۔

ایک اہم بات

اس میں ایک اہم پہلو جسے ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم خود کی اصلاح وتربیت کرتے رہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ والدین خواہش کریں کہ ان کے بچے کی زبان شائستہ ہو اور وہ خود سخت کلامی یا خراب زبان استعمال کریں۔ یہ ممکن نہیں کہ والدین نماز چھوڑیںاور بچے کو نماز کا پابند دیکھنا چاہیں، یہ ممکن نہیں کہ والدین کی خدمت میں ہم کوتاہ ہو اور بچوں میں اطاعت و خدمت کا جذبہ تلاش کرے۔ تعلیم وتربیت میں خود کی اصلاح پہلا درس ہونا چاہیے۔ سورۂ صف میں اللہ کا ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو ! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے
نہیں ؟اللہ کے نزدیک یہ بات زیادہ غصہ کی ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بچوں کی بہتر سے بہتر تربیت کرنے کی توفیق عطا کرے،اور ہمارے لبوں پر ہمیشہ یہ دعا رہے:

ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین وجعلنا للمتقین اماما

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴