جون ۲۰۲۴

زیرِ نظر کتاب ’’ظلمات‘‘ سے میرا کئی دفعہ سامنا ہوا، یا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ اس کا کور پیج ذہن میں چسپاں ہوجانے کے سبب یہ اکثر میری نظروں کے سامنے رقص کناں رہنے لگی، لیکن وقت کی قلت کے سبب آتے جاتے کتابوں پر اک طائرانہ نظر ڈالنے کے علاوہ مجھے کبھی اسے ہاتھ لگانے کی توفیق نہیں ہو سکی۔ اگر توفیق ہو جاتی تو میں اپنے پسندیدہ کردار نورالدین سے بہت جلد ملاقات کرلیتی۔
ایران سے خرید و فروخت کے بعد تاتاریوں کے درمیان نورالدین ایسا ماہر تیغ زن کردار تھا ،جس کے حملہ آور ہونے کی رفتار دیکھ کر دریا بھی روانی مانگتی تھی۔ نورالدین ،ابلیس کے درمیان فرشتہ، بھیڑیوں کے درمیان میمنا،ظلمت کے زندان کے اندر اک زندہ ضمیر اور ذلت و پستی کے انبار میں فطرت کی پاکیزگی سے معمور کردار تھا۔ نورالدین کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے میں نہ صرف قارئین کو یہ کتاب تجویز کروں گی، بلکہ خصوصاً نوجوان لڑکوں کو بھی مطالعہ میں شامل کرنے کے لیے کہوں گی کہ وہ جانیں کہ ایک مسلم نوجوان ہونے کی حیثیت سے آپ کا کردار کیسا ہونا چاہیے؟کیوں کہ نورالدین خداترس انسان تھا۔
تیمور، نورالدین اور انجلینا؛ کتاب کے مرکزی کردار ہیں جو کتاب کے ہر صفحے، ہر جنگ میں نظر آئیں گے۔ کہانی میں اچانک ایک عیسائی نائسیا کی بھی آمد ہوتی ہے، لیکن جس اچانک طریقہ سے وہ کہانی میں قدم رکھتی ہے، کچھ اسی طرح اچانک وہ کہانی سے نکل بھی جاتی ہے۔ ایک وقت کو یوں لگا کہ شاید نائسیا کتاب کے آخری صفحے تک قاری کا ساتھ دے گی، مگر اسے اپنے والد کے ساتھ واپس اپنے ملک جانا پڑ گیا۔
نورالدین کی ہمت و بہادری کو دیکھتے ہوئے تیمور اسے اپنا اعلیٰ ترین جرنیل بناکر اسے اپنے سگے بیٹوں کی طرح محبت دینے لگتا ہے، لیکن کہانی میں ایک ایسا بھی موڑ آیا جہاں نورالدین نے تیمور کی اصل بلکہ یوں کہہ لیجیےکہ باطن شخصیت کو بھرے دربار میں واضح کرکے رکھ دیا۔
اقتدار کے حصول کے بعد تیمور مسلم علاقوں کو روند کر ان پر قابض ہونے لگا۔ اپنی پوری زندگی میں اس نے اسلام کے دشمن قوتوں کے خلاف کوئی معرکہ سر نہ کیا۔ وہ مذہب و ملت کی فلاح کو یکسر فراموش کرکے صرف اپنی سلطنت وسیع کرنے میں مگن رہا۔ تیمور نے ہندوستان کی سرزمین پر بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا، گھروں میں لوٹ مار مچائی، کھیت کھلیانوں کو خاک کر دیا، گلی کوچوں میں خون کی ندیاں بہائیں۔ہندوستان میں لوٹ مار مچانے کے بعد تیمور نے وہاں سے ہیرے جواہرات لوٹے جو دیگر ملکوں سے کہیںزیادہ تھے، علاوہ ازیں وہاں کی عمدہ عمارتوںسے متاثر ہو کر امیر تیمور نے سمرقند کے لیے چند کاریگر بھی اٹھوا لیے، جس سے معلوم ہوا کہ ہندوستان واقعی سونے کی چڑیا ہے۔ دمشق شہر کو لوٹ کر آگ کی نذر کردیا، حتی کہ مسجد تک کو جلا کر خاکستر کردیا اور ان گنت مسلمانوں کا خون بہایا۔ حلب شہر میں خونخواری اور قتل و غارت گری کا مظاہرہ کیا۔اسلام کے مرکز اور دارالسلام بغداد کے ساتھ ہلاکو خان سے بھی زیادہ بدترین سلوک کیا، شہر میں لوٹ مار کرکے عبادت گاہوں کو جلا کر خاک کردیا اور حد تو یہ ہوگئی کہ بغداد کے نوے ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا۔تیمور کا نفس ایسا خون کا پیاسا ہوگیا تھا کہ اس نے عورتوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم، ہنستے بستے شہروں اور بستیوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس نے توقتمش، بایزید یلدرم اور سلطان مصر کو شکست دے کر عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں کو ختم تو کر دیا، لیکن ان کی وجہ سے جو خلاء پیدا ہوا اسے پُر نہ کر سکا۔
اِن مظالم کے بعد بھی جب تیمور کو قرار نہیں آیا، تو اس نے ترکی کے سلطان بایزید یلدرم کو اپنے مقابل زیر کرنے کا فیصلہ کرلیا، جب کہ بایزید اس وقت قسطنطنیہ کے محاصرے میں مصروف تھا۔ مسلم ہونے کے ناتے تیمور کا فرض تو یہ بنتا تھا کہ وہ بایزید کی مدد کرکے اس کی طاقت کو پختہ کر دے مگر افسوس!
بایزید کے خلاف جب تیمور حرکت میں آیا تو معلوم ہوا کہ اس کے کچھ سرداروں نے اسے چھوڑ کر بایزید کےپاس پناہ لے لی ہے، کیوں کہ وہ اس کی خشک مزاجی، تنگ دلی اور ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے، جس کے سبب تیمور اور بھی زیادہ متنفر ہو چکا تھا بایزید سے۔
نورالدین پر تیمور کی عنایات سے قاری یہی اندازہ لگائے گا کہ تیمور رحم دلی کی صفت کا مالک ہے، لیکن بایزید کو قید کرنے کے بعد کہانی میں جب اک نیا موڑ آیا اور غیرمسلم تاتاری سردار نے ترک مسلم لڑکی کے ساتھ بھرے دربار میں چھیڑ چھاڑ کی، تو نورالدین نےاپنی تلوار بے نیام کرکے اس کی گردن اڑا دی، جس پر تیمور بھڑک اٹھا اور نورالدین نے اپنی اصلیت بیان کرکے رکھ دی کہ اس میںدل کشی کے ساتھ ساتھ کراہت، نرم سلوک کے ساتھ خباثت، ہم دردی کے ساتھ اذیت ناک سفاکی بھری ہوئی ہے۔ جب تک تیمور کے ساتھ اطاعت پیشہ غلام اور پابہ زنجیر قیدی کی طرح کام کرتا ہے یا جب تک کوئی اپنی گردن نیچے کرکے اور کلائیاں باندھ کر کھڑا رہتا ہے،تب تک وہ اس سے خوش و مطمئن رہتا ہے، لیکن جب کوئی حق بات کہنے کی ہمت جٹاتا ہے تو وہ کچے انگورکی مانند ترش بن جاتا ہے۔
تیمور کے کردار کو واضح کردینے کے بعد نورالدین قیدی کی سی حیثیت سے سمرقند میں رہنے لگا۔ جہاں عیسائی انجلینا (جس نے نورالدین کی طرف سے آئے رشتے کو غلام ابن غلام کہہ کر دھتکار دیا تھا۔) اس کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر رہتی،لیکن وہ وقت بہت جلد آگیا جب تیمور کو اپنی کرتوتوں کا احساس ہوگیا کہ اسے چاہیے تھا کہ وہ صلیبیوں کا سر کچلتا ،جو ترک کے سلطان بایزید کے خلاف برسرپیکار ہوتے رہے ہیں۔ (بایزید نہایت خداترس سلطان تھا،جب کہ فیس بک پر نظروں کے سامنے سے ایک تحریر گزری، جس میں بایزید کو عیش و عشرت کا پجاری بتایا گیا ہے۔ ) اس نے اس بات کا انکشاف کیا کہ وہ اپنی آخرت کے لیے کچھ نہ کر سکا ،جب کہ دنیا کے لیے اس نے پوری دنیا کو فتح کرلینے کا عزم کیا ہوا تھا۔ اس احساس کے بعد تاتاری تیمور نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ خطا کی سرزمین کا رخ کرکے غیر مسلم قوتوں کو کچل دے گا۔ یوں تو تیمور نے کوئی جنگ نہیں ہاری تھی، مگر اب کی بار قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ وہ خطا کا رخ کر کے جب سمرقند سے نکلا تو آدھے راستے میں ہی مرگ موت میں مبتلا ہوکر دم توڑ دیا، اور اپنا ولی عہد اپنے پوتے پیر محمد کو بنایا، جب کہ نورالدین گم نام زندگی بسر کرنے کے لیے اپنی بیوی بچوںکے ہمراہ شمال کی طرف کوچ کرجاتاہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴