جون ۲۰۲۴

ابو، یہ لفظ میرے لیے کس قدر اہم تھا، محبت میں لپٹا ہوا لفظ ابو، جس کی مقناطیسیت آپ کے جانے کے بعد دل میں ایک بے قراری سی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ اگر میں اس لفظ کی حقیقی ادائیگی میں ایک پوری کتاب لکھ دوں تو بھی اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا ،کئی بار قلم اٹھایا مگر ہر دفعہ دل اور دماغ نے ساتھ نہیں دیا ،تھوڑا تھوڑا لکھ کر قلم جواب دےجاتا۔

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

ابو اچانک اس طرح رخصت ہو جائیں گے،کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ عالم تصور میں تمام منظر ایسے گھوم جاتے ہیں جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ پانچ جون کی رات میں ابو کے پاس سے آئی تھی، ہلکی سی طبیعت خراب تھی لیکن چہرے کی بشاشت جو ں کی تو ں موجود تھی۔ تڑکے صبح جب بھائی کا فون آیا کہ جلدی پہنچو، مجھے کچھ ان جانا خوف لاحق ہوا ،لیکن پھر ذہن کو جھٹک کر اچھی امید کے ساتھ بھاگتی ہوئی گھر پہنچی۔ ابو لیٹے ہوئے تھے ،بے حد پرسکون، ابو کو دیکھ کر میں ایک ایک دم ایک دن پہلے کی طبیعت ناسازی بھول گئی۔ ابو کا سکون قابل دید تھا کہ جب بھائی نے ابو کو اٹھانا چاہاتو بے اختیار میرے منہ سے یہی نکلا کہ ابو سو رہے ہیں، اتنے سکون میں ہیں ،انھیں نہ اٹھائیں آرام کرنے دیں۔

جنھیں اب گردش افلاک پیدا کرنہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گورغریباں میں

ابو نے اپنی تعلیم دارالعلوم دیوبند سے مکمل کی تھی۔ اس وقت کے بڑے بڑے شیوخ الحدیث سے خاص استفادہ کیا اور ان کے شاگرد رشید بھی رہے، اس کے بعد آپ جماعت اسلامی ہند سے منسلک رہے اور آخری وقت تک ان کا دل جماعت کے لیے ہی دھڑکتا رہا۔ ابو نے ہر جگہ جماعت اسلامی کی نمائندگی کی، جب کہ وہ کئی ملی تنظیموں کے ممبر بھی رہے ،جماعت کے شعبۂ اصلاح معاشرہ کے لیے خصوصی کام کیا ،اور اس سلسلے میں ابو کا کام قابل تحسین ہے، اس کے علاوہ ان میں اتحاد بین المسلمین کےلیے کام کرنے کی زبردست خصوصیت موجود تھی، مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی بہترین صلاحیت بھی تھی، مختلف مسالک کے علماء اور جماعت اسلامی کے درمیان ایک پل کا کام کرتے تھے ۔
ابو کی دارالعلوم دیوبند سے نسبت تھی اور اس نسبت کا خیال انھوں نے ہمیشہ رکھا، ان کی زندگی اقامت دین کے لیے وقف تھی، ہر دوسرے کام کو وہ ثانوی حیثیت دیتے تھے، اقامت دین ان کا نصب العین تھا، جس کا مشاہدہ ہر لمحہ ہم لوگ کرتے تھے ۔ابو نے زندگی گزارنے میں ہمیشہ میانہ روی اختیار کی، ہم لوگوں کو بھی اسی بات کی تلقین کی، جماعت کے پلیٹ فارم سے کئی مختلف مسلکوں اور مدرسے کے علماء کو جمع کر کے ایک بڑا اجتماع کیا کرتے تھے ،جس کے بہت اچھے نتائج ابھر کر آئے ۔شعبۂ خواتین کو ایک نئی جہت دی، ان میں تحریک کی روح پھونکی ۔ابو کی ہر وقت یہی کوشش رہتی تھی کہ خواتین دینی علوم سے آراستہ ہوں، تاکہ ان کی آنے والی نسلیں دینی شعور رکھتی ہوں، یہی وجہ رہی کہ ابو نے ہم سب بھائی بہنوں کو پہلے دینی علوم سے آراستہ کیا پھر دنیاوی علوم کو فوقیت دی۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے تاسیسی ممبر بھی رہے۔جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ابو نے کئی بیرون ملکوں کا سفر کیا، جن میں کویت، ایران، سعودی عربیہ،ترکی اورجاپان شامل ہیں۔ اسی سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ۔جب ابو کا کویت دورہ ہوا،تو وہاں کی تنظیموں کے ادارہ اسلامی نے بہت کوشش کی کہ ابو ان کی تنظیم جوائن کر لیں اور مستقل کویت میں سکونت اختیار کر لیں، اس پر ابو کا جملہ تھا میں نے جماعت سے مرتے دم تک عہد کیا ہے ۔
والد محترم جب بریلی کے زونل انچارج بنائے گئے ،یہ تقریباً 1987 ءکی بات ہے، اس وقت بریلی میں بہت زیادہ بدعت تھی، جگہ جگہ شرک وبدعت کا دور دورہ تھا، ان لوگوں کو جب پتہ چلا کہ ہم لوگ وہابی ہیں تو کچھ مہینوں تک ہم لوگوں کا سوشل بائیکاٹ بھی ہوا ،رفتہ رفتہ لوگ ابو کے بہت گرویدہ ہو گئے۔ اسی درمیان ابو کسی دورے کے سلسلے میں شہر سے باہر تھے ،ہمارے بڑے بھائی انظر الباری چھت سے گر گئے ،کافی چوٹیں آئیں ،امی خاتون خانہ بے حد پریشان تھیں ،کیوں کہ گھر میں اس وقت کوئی مرد موجود نہیں تھا، اس وقت ابو کی خوش خلقی کی وجہ سے علاقے کے لوگوں نے امی کا بے حد ساتھ دیاکہ آج ہمارے بھائی صاحب مکمل صحت مند ہیں، الحمدللہ!
اس کے علاوہ لکھنؤ میں آئے دن شیعہ سنی فسادات ہوتے رہتے تھے، ابو اس وقت تک یو پی کے امیر حلقہ منتخب ہو چکے تھے ۔محترم جناب کلب عابد صاحب مرحوم اور جناب کلب صادق مرحوم صاحب کے ساتھ مل کر شیعہ سنی اتحاد پر بہت کام کیا اور یہ مرحلہ بھی بحسن و خوبی انجام پایا۔ دھرم گرو سدبھا ؤ منچ میں بھی ابو ایک کڑی کی حیثیت رکھتے تھے، گجرات فسادات میں ان لوگوں کے ساتھ مل کر عوامی سطح پر بہت کام کیا اور وہاں درد انگیز مناظر دیکھ کر مہینوں صدمے میںڈوبےرہے۔ سکھ برادری کے ساتھ ابو کا تعلق ناقابل یقین حد تک بہترین تھا ،ان کا کوئی پروگرام ایسا نہ ہوتا جس میں وہ ابو کے لیے اعزازی طور پر ’’سروپا‘‘ نہ بھیجا کرتے تھے، وہ لوگ بے حد عقیدت و محبت رکھتے تھے ابو سے، یہاں تک کہ گردوارہ بنگلہ صاحب کے گرو نے ابو کو اپنا بڑا بھائی کہلوانا پسند کیا، سکھ برادری ابو سے مسلمانوں سے بے حد متاثر نظر آتی تھی، صرف یہ وہ اخلاقی دعوت کی قوت تھی،اور اس کا مشاہدہ ابو کے انتقال کے وقت وہاں جو لوگ موجود تھے، انھوں نے بھی بخوبی کیا ہوگا ۔
واقعی جس نے بھی ابو کے لیے لفظ زنجیر لکھا تھا بہت صحیح تھا ، ابو نے یقیناً زنجیر بن کر ہر ایک کے درمیان مفاہمت کروانے کی ہمیشہ کوشش کی، چاہے وہ انفرادی ہو یا پھر اجتماعی طور پر، ان کا آفس اور گھر ہر فکر کے لوگوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا۔
اسی بات پر ابو کا ایک واقعہ اور یاد آ رہا ہے، جب بابری مسجد شہید کی گئی، اس وقت ابو لکھنؤ میں تھے، جماعت کے لوگوں کی گرفتاریاں ہو رہی تھیں، میں چھوٹی تھی لیکن پھر بھی بچپن کی یادیں کہیں نہ کہیں تازہ ہیں۔ لکھنؤ کا جو ہیڈ آفس ہے ،اس کے اندر پیچھے فیملی کوارٹرز بھی تھے، ہم لوگ وہیں رہتے تھے، باہر شہر میں فسادات ہو رہے تھے ،سبھی ڈرے ہوئے تھے ،اس وقت پولیس کی پوری فورس آئی تھی گرفتار کرنے کے لیے ،ابو اور سعید اختر مرحوم صاحب نے مل کر ان کے لیے چائے اور دیگر لوازمات کا انتظام کیا ۔وہ ان کے حسن اخلاق سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کہنے لگے کہ ہم مجبور ہیں لیکن آپ کو گرفتار کرنا پڑے گا اور ساتھ میں لے جانا پڑے گا۔ یہ چند جماعت کے لوگ جیل گئے ،وہاں بھی درس و تدریس اور نماز باجماعت کا اہتمام کیا گیا، جیلیر کے کہنے کے باوجود کہ سب ایک ساتھ مل کر نماز نہ پڑھنا، اپنے فرض کو وہاں بھی یاد رکھا۔
اخلاقی پہلو سے ابو واقعی ایک بہترین انسان تھے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کہ تم میں سب سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو، بقول ناصر کاظمی:

اس شہر میں اس کا بدل ہی نہیںکوئی ویسا جان غزل ہی نہیں
ایوان غزل میں لفظوں کے ،گلدان سجاؤں کس کے لیے؟

 بیویاں تو اپنے شوہروں کی خدمت کرتی رہتی ہیں۔ امی ابو کا بہت خیال رکھتیں، لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ابو امی کا ان سے زیادہ ان کا خیال کرتے تھے۔ ابو امی کا خیال رکھ کر بہت خوش ہوتے ،زیادہ تر اپنے کام ابو خود کر لیتے تھے، کسی سے نہیں کہتے۔ ابو کام کے سلسلے میں بہت ہی سلیقہ مند تھے ،اپنا ہر کام بہت ہی سلیقہ سے کرتے کہ ہم اکثر دیکھ کر حیران ہو جاتے، چوں کہ ہم جب چھوٹے چھوٹے تھے ،امی صحت کی خرابی کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کر پاتی تھیں، اس وقت ابو ان کا بے حد خیال رکھتے، کھانا خود بنا لیتے ،کپڑے دھونے میں امی کی مدد کرنا، صفائی ستھرائی میں پورا پورا ساتھ دینا، غرض کسی بھی طرح کے کام ہوں،ابو گھر میں سارے کام کرتے۔ ہم سب بھائی بہنوں نے کبھی بھی بازار سے خریدا ہوا کپڑا نہیں پہنا ،ہم سب کے کپڑے گھر میں ہی سلے جاتے تھے، ابو اور باجی دونوں مل کر ہم ہم سب بھائی بہنوں کے کپڑے سلتے۔ ابو کو بہترین سلائی آتی تھی۔
اکثر میں جب کالج سے آتی، ابو خود ہمارے سامنے دسترخوان لگا دیتے ،جب امی کو پہلا اسٹروک پڑا، اس وقت امی ہاسپیٹل میں تھیں، ابو کی طبیعت خود ناساز رہتی تھی، بڑے بھائی موجود تھے، ابو کو آرام کا مشورہ دیتے، ہم لوگ ہاسپیٹل جا کر امی کے پاس بیٹھتے ہیں، لیکن وہ خود جا کر امی کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا کر آتے ،امی کی بہت دل جوئی کرتے ۔گھر آنے کے بعد تو ابو نے امی کا اتنا خیال رکھا کہ آج کل ایسا شاذ دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں ابو کی ان خوب صورت اور پیاری عادتوں کی مرید تھی، کسی بھی پروگرام میں کوئی میڈل یا بیچ یا پھولوں کا بکے ملتایاکچھ بھی،یا اعزازی تمغہ ہی ملتا توگھر آ کر ابو سب سے پہلے امی کے گلے میں پہنا دیتے اور امی خود کو آسمان کی بلندیوں پر محسوس کرتیں۔ امی ابو کی یہ خوشی دیکھ کر ہم لوگ خوب محظوظ ہوتے ۔اسی طرح ابو کا معاملہ اپنی اولادوں کے لیے بھی تھا۔ شادی سے پہلے ہم لوگ ابو کے سامنے زیادہ فری تو نہیں ہو پاتے تھے، بہرحال احترام اور رعب تھا اور یہ ان کی شخصیت کا خاصہ تھا اور ان پر خوب جچتا بھی تھا۔ جب ہم لوگوں کی شادیاں ہو گئیں، ابو نے ہم لوگوں کی تمام ضرورتوں کا بے حد خیال رکھا ،ابو اپنی بہوؤں کو بہت مانتے تھے کہ کبھی کبھی مجھے شکایت ہونے لگتی کہ میں تو بیٹی ہوں۔ ایک بار یہی شکایت میرے لبوں پر آگئی ،اس پر ابو زیر لب مسکرائے اور کہاکہ بیٹا! وہ اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ہمارے گھر آئی ہیں، ان کو باپ والی شفقت دینا ہم پر لازم ہے۔
مہمان نوازی میں ابو کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔جب بھی باہر سے آتے ایک مہمان ان کے ساتھ ہوتا، کبھی کبھی گھر میں بالکل سادہ کھانا ہوتا، دبی دبی زبان سے ہم لوگ احتجاج کرتے کہ ابو بتا تو دیتے۔ اس وقت ابو مسکرا کر بس یہی کہتے کہ بیٹا! جو بھی ہے سامنے رو کھا سوکھا رکھ دو، اور بہت خوشی خوشی کھلاتے۔ دل کی نرمی کا یہ حال تھا کہ کسی کی بھی تکلیف کا سن کر ان کا چہرہ ایک دم سرخ ہو جاتا اور آواز رندھ جاتی۔ ہم لوگ سمجھ جاتے کہ ابو رو رہے ہیں ،پھر خود سے جتنی اور جس طرح کی بھی مدد ہو سکتی فوراً کوشش کرتے ۔بہت ساری باتوں کے راز سے ان کے انتقال کے بعد پردہ اٹھا۔ ہم لوگوں کے علم میں بہت ساری باتیں آئیں، جو ہم لوگ اس وقت نہیں جانتے تھے۔
دین کے معاملے میں ابو بہت سخت تھے ۔شادی بیاہ کی فضول رسموں کو ابو نے کبھی نہیں ہونے دیا۔ اپنے سارے بچوں کی شادیاں ابو نے نہایت سادگی سے کیں، کسی بھی طرح کے دباؤ میں ابو کبھی نہیں آئے ۔جب سے میں نے ہوش سنبھالا ،ابو کو ایک روٹین لائف میں دیکھا، جلدی سونا اور تہجد میں اٹھنا ،یہ ابو کی زندگی کا ایک ایسا حصہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بازار کے کھانوں کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے ،گھر میں جو بھی ملتا جیسا بھی بن جاتا، خوشی خوشی کھا لیتے، کبھی کسی کھانے میں بھی ابو کبھی بھی عیب نہیں نکالتے تھے اور نہ ہی کبھی کھانے کو دیکھ کر کے ناگواری کا احساس ان کے اندر پیدا ہوتا،ان کے اندر قناعت پسندی تھی۔
مطالعے کا کافی شوق تھا، ان کے سرہانے ہمیشہ ایک کتاب، ایک ٹارچ اور گھڑی رکھی رہتی۔ اردو، عربی، فارسی کے علاوہ ہندی میں ابو کو مہارت حاصل تھی، کبھی کبھی ایسے جملے بول دیتے کہ ہم لوگ کہتے کہ ابو! اتنی ثقیل ہندی کہاں سے آئی؟ ابو خشک مزاج نہ تھے، بلا کے بذلہ سنج، غضب کی حس مزاح، بڑے ذہین، ہنسنے والے، بااخلاق، ولیوں والا انداز، صوفیاء کرام کامزاج، رحم کرنے والا دل، ہمیشہ مسکراتا چہرہ، کبھی کبھی یہ مسکراہٹ شرارت آمیز بھی ہوتی، نرم زبان اور عطا کرنے والا ہاتھ؛ ان عناصر سے مل کر ان کی شخصیت بنتی تھی۔
ان کی ذات خود نمائی اور خود ستائی، شہرت اور عہدے کی طلب سے پاک تھی، جو مل جاتا اس پر شاکر اور قا نع رہتے، نیک طبیعت اور پر خلوص ایسے کہ اچھے لوگ ملتے تو ابو کے گرویدہ ہو جاتے، سادہ مزاج ایسے کہ چالاک سے کئی بار چوٹ کھائی مگر حرف شکایت زبان پر نہ لائے، نقصان اٹھانے کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھتے، کسی سے بدلہ لینا مزہ چکھانا جیسے الفاظ ان کی لغت میں تھے ہی نہیں، تنازعات سے بچنے کے لیے اپنے حق، زمین وجائےداد سے دست بردار ہو جاتے۔ ہمیشہ ان کی زبان سے یہی بات سنی کہ اپنا گھر جنت میں ہوگا ان شاءاللہ!
امی کو ہمیشہ یہ بات کہا کرتے کہ اوپر کے گھر کی فکر کرو یہاں تو سب چھوڑ کے جانا ہے۔ موت ہر لمحہ ابو کو یاد رہتی، کبھی خوشی کے موقع پر ایک دم سے موت کو یاد کر لیتے جس پر ہم سب خفگی کا اظہار کرتے ۔انتقال سے ٹھیک ایک دن پہلے کاابو کا یہ جملہ کافی دنوں تک میرے کانوں میں گونجتا رہا کہ جلدی میرے انتقال کی خبر پڑھو گی، جب کبھی کبھی بے چینی یا تکلیف میں مبتلا ہوتے تو امی سے دعاؤں کا ورد کرواتے اور کہتے کہ ان کی دعاؤں میں نہ جانے کیا اثر ہے۔ انتقال سے چند گھنٹے پہلے بھی امی نے ابو کے کہنے پر ان پر دم کیا تھا ،جس پر وہ سکون سے سو گئے تھے۔ جیسی ابو کی زندگی سادہ تھی وفات بھی ویسی ہی بالکل آسان اور سادہ تھی۔ نہ احباب کو عیادت کا موقع دیا نہ بچوں کی خدمت کا موقع، نہ کوئی نصیحت نہ وصیت ،بس اس خاموشی اور سکون سے چلے گئے جیسے کوئی راضی برضا جاتا ہے، بے شک ہمارے لیے تو یہ اچانک ایک حادثہ ہے لیکن خداوند تعالیٰ کے یہاں ہر کام مشیت ایزدی سے بہت پہلے لکھا جا چکا ہوتا ہے، وہاں تو کوئی بھی واقعہ اچانک نہیں ہوتا۔ ابو کا سانحۂ ارتحال زندگانی کا وہ غم ناک باب ہے جس کے درد کو زیر قلم لانا ممکن نہیں ہے، یہ درد وہی جان سکتا ہے جو متاع جا ں کی اذیت سے آشنا ہو۔ اللہ میرے والد کی قبر کو نور سے منور کر دے،اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے جن سے جنت کی خوشبو اور خوشبودار ٹھنڈی ہوائیں آئیں، آخرت ان کی گل گلزار بنا دے۔

 آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے

 اللہ تعالی باب ریان سے جنت الفردوس میں ابو کو پہنچائے،ان کی آخری دعا یہی تھی۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴