جون ۲۰۲۴

  بچے کی پیدائش سے لے کر بالغ ہونے تک بچے کی دیکھ بھال اور انہیں بالغ ہونے تک تحفظ فراہم کرنے کا عمل ،نیز ان کی صحت مند نشوونما کو یقینی بنانے کا عمل پرورش کہلاتا ہے ۔ والدین کے لیے اولاد نعمت عظمیٰ ہے ۔حساس والدین واقعی بچوں کے تربیت کے حوالے سے بڑے فکر مند ہوتے ہیں ۔موجودہ دور والدین کے لیے کئی حوالوں سے چیلنجنگ ہے ۔ ٹیکنالوجی کی فراہمی نے اسے مزید دشوار بنادیا ہے ،اس لیے ناگزیر ہے کہ پرورش کے لیےلائحۂ عمل ترتیب دیا جائے ۔
پیرینٹنگ ایک مکمل سائنس ہے ،جس کے ذریعہ والدین اپنے بچے کی دیکھ بھال کو اس میں ودیعت کردہ صلاحیتوں کے پیش نظر یقینی بناتے ہیں۔پرورش میں صرف بچے کی اخلاقیات اور آموزشی نظریات ہی سے بحث نہیں کی جاتی ،بلکہ بچے کی عمر اس کی ارتقائی منازل اور جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ بچے کی سیکھنے کی صلاحیت کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے ۔پرورش (Parenting)کی سائنس والدین کو پرورش کے تقاضے ، پرورش کے عملی ماڈلز اور طریقۂ تربیت سے بھی آشنا کرواتی ہے ۔

پرورش (Parenting)کےمقاصد

٭ بچے کی نشوونما میں والدین کی توجہ کی اہمیت کو واضح کرنا
٭ بچے کی ارتقائی منازل میں قابل توجہ عوامل سے آشنا کروانا
٭ پرورش میں اقسام تربیت کی وضاحت اور کامیاب طریقۂ تربیت کی نشان دہی کرنا
٭ ہر بچے کی انفرادی صلاحیت میں اختلاف کے پہلو کو واضح کرنا
٭ دوران پرورش ہر بچے کے تئیں مثبت فکر ونظر رکھنے پر والدین کو آمادہ کرنا
٭ تعلیمی ماہرین کے لیےبھی اس اسٹڈی کے ذریعہ رہ نمائی

پرورش(Parenting) کی اہمیت اور اس کے تقاضے

پرورش پر آگے گفتگو سے پہلے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے عوامل پر بات کی جائے۔

(1)وراثتی عوامل (Genetics and Heredity)

عموما ًیہ قیاس کیا جاتا ہے کہ بچے اگر سماج میں اچھے ہونے کا لقب حاصل کرلیں تو اس کا سہرا والدین کے سر جاتا ہے، اسی طرح اگر بچے سماج میں برائی کا لقب حاصل کرلیں ،تو اس کے ذمہ دار بھی والدین ہوتے ہیں۔
اس مفروضے کو محققین نے چیلنج کیا ہے اور بطور دلیل بچوں کی نشوونما پر حیاتیاتی اثرات کو اجاگر کیا ہے۔ مثال کے طور پر رویے سے متعلق جینیاتی مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ گود لینے والے بچے کی بنیادی خصوصیات جیسے شخصیت (Personality)، ذہانت (Intelligence)اور دماغی صحت (Mental health)میں اپنے گود لینے والے والدین سے زیادہ اپنے حیاتیاتی والدین کی طرح ہوتے ہیں۔
والدین کی اہمیت کا مطالعہ کرنے والے محققین کئی مسائل پر زور دیتے ہیں۔ وہ صرف جینیاتی اثرات کوہی ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ،ان کے نزدیک حیاتیاتی طور پر متعلقہ خاندانوں میںجینیاتی اور سماجی اثرات کو الگ کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر ایک بچہ جو تدریس کے لحاظ سے باصلاحیت ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ رجحان والدین سے وراثت میں ملا ہو اور ماحول نے اس کی اس صلاحیت کو ابھرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہو ۔ دوسری مثال اس بچے کی ہے جو موسیقی میں بہت اچھا ہے ،اس بچے کو گود لیا گیا اور اس کی پرورش ایسے والدین کر رہے ہیں جو موسیقی کی طرف مائل نہیں ہیں، تو اس ہنر کا اظہار دلیل ہے کہ اس بچے کی فنی مہارت پر بچے کے اصل والدین کے اثرات ہیں ،ایسے بچے کو ماحول نہ ملے تو اس کی موسیقی ترک ہوسکتی ہے ۔ اس طرح، جینیاتی رجحانات (چاہیے خوبیاں ہوں یا خامیاں ) اکثر والدین کے توجہ نہ دینے سے ختم بھی ہوجاتے ہیں۔
دوسری چیز جو والدین اور بچوں میں ایک دوسرے کے تعامل سے پیدا ہوتی ہے ،والدین کی وجہ سے بچے میں اثرات ہوسکتے ہیں، عین اسی طرح بچے کی معذوری والدین کوشرمندگی یا احساس کم تری کا شکار بنا سکتی ہے۔اس میں ایک کے رویے کی تبدیلی یا ایک پیدائشی صفت دوسرے کو متاثر کرتی ہے۔ مثلاً والدین میں اضطراب(Anxiety) ،کھوج(Curiosity )، تحقیق کی عادت یا عدم تحفظ (Insecurity)کا احساس پہلے ہی سے موجود ہے ،وجوہا ت کچھ بھی ہوسکتی ہیں ۔ بچے کی شخصیت میں بھی اضطراب یا عدم تحفظ جیسے اثرات نمایاں ہوسکتے ہیں ، یا اس کے برعکس اگر بچہ پیدائشی طور پر کسی مرض کا یا کسی کم زوری کا شکار ہے تو والدین میں اس بچے کی وجہ سے عدم تحفظ، اضطراب اور مایوسی پیدا ہونے کے خطرات ہو سکتے ہیں ۔چوں کہ والدین بالغ نظر (Maturity) اور تجربہ کار ہیں اور بڑے ہیں ،انہیں اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے ،وہ ابتداء ہی میں بچے سے تعامل کے مختلف ماڈلز اختیار کرسکتے ہیں ،جو بہت حد تک ممکن العمل ہے۔اس بات کو ہم اسپیشل چائلڈ کی تعلیم و تربیت کے باب میں سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔
بچے کے مختلف رویے کے مسائل (Behavioural problems) میں صبر وتحمل کے ساتھ جواب دینا بھی پیرنٹنگ کی تکنیک میں شامل ہے۔پیرنٹنگ چوں کہ بچے کے لیے والدین کو تعاون پر آمادہ کرنے کا عمل ہے ،اس کے لیے کچھ تکنیک کا سیکھناناگزیر ہے ۔

( 2)خاندان اور خاندان کا ماحول
( Family Environment and Upbringing)

ایک پرامن اور محبت بھرا ماحول والا گھر بچے کی ذہنی صحت اور استحکام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بچے کو گھر میں اپنے آپ کو اظہار خیال کرنے کے لیے پر سکون اور آزاد محسوس کرنا چاہیے۔ حد سے زیادہ نظم و ضبط اور حد سے زیادہ تحفظ بچے کو باغی یا دوسروں پرانحصار کاعادی بنا سکتا ہے۔ اس لیے اپنے بچے کی اچھی شخصیت کی نشوونما کے لیے، اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ گھر میں ایک دوستانہ ماحول بنے،جہاں بچے کو پیار، حوصلہ افزائی اور تحفظ کا احساس رہے ۔والدین بچوں کے لیے ماحول سازی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس طرح بچوں کی نشوونما پر اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل، جیسے کہ والدین کے آپسی تعلقات ، ہم عمر گروہ کی صحبت کے اثرات، مثال کے طور پروالدین کے مزاج کے ساتھ ساتھ پیرنٹنگ اسٹائل اور پڑوسیوں سے روابط ،حتیٰ کہ بچے کا پیدائشی درجہ بھی جسے Siblings order کہتے ہیں۔

 خاندان کی اقسام

مشترکہ خاندان اور نیوکلیئر خاندان اور وہ اسکول جہاں بچے جاتے ہیں،اسکول کا ڈسپلن آیا سخت آئیڈیل اسٹک ڈسپلن ہے یا وہاںسیلف ڈسپلن کی اہمیت ہے؟ اور بہت سی سرگرمیاں جن میں بچے مشغول ہوتے ہیں۔ رشتہ دار ملاقاتی جن سے والدین ملواتے ہیں،مزید برآںگھر اور سماج میں جاری مباحث کے بھی بچوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وسیع سیاق و سباق کے عوامل، جیسے کہ غربت اور ثقافت، والدین کے جانب سے ملے اثرات جن کا تعلق بچوں کی فزکس سے ہے ، جو امریکی ماہر نفسیات مارک بورنسٹین کے الفاظ میں:
’’بچوں کی نشوونما ،قد کاٹھ اور صحت مند جسم اور توانائی، ایڈجسٹمنٹ ،کامیابی کا آخری مشترکہ راستہ ہے۔‘‘
بچے کی جسمانی صحت کا تعلق والدین کے متوجہ رہنے اور صحت کے حوالے سے عملا ًکوشش سے ہے ،اور نشوونما پر بروقت خیال رکھنے سے متعلق ہے ۔

بچوں کی بچپن کی دیکھ بھال جو ان کی ہزار دن کی ٹریننگ Thousand days training programme))کےطور پر کی جاتی ہے، وہ ان کی جسمانی نشوونما کی بنیاد ثابت ہوتی ہے۔ جوں جوں وہ پروان چڑھتے ہیں، مضبوط اور توانا ہوتے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک شیر خوار بچے کے لیے ایک اہم ترقیاتی مسئلہ لگاؤ، محبت اور خیال رکھنا ہے، جب کہ ایک ٹین ایج بچے کےلیے ایک اہم کام اس کی انفرادیت کی بقا کے لیے ماحول فراہم کرنا ہے۔

(3) بچے کی دیکھ بھال کے ہزار دن
(Thousand days training programme of a child)

پہلے 1000 دن کیا ہیں؟پہلے 1000 دنوں سے مراد بچے کی زندگی کے اس لمحے سے ہے جب وہ رحم مادر میںقرار پاتا ہے، اس پہلے دن سے لے کر جب تک کہ وہ 2 سال (24 ماہ) کی عمر تک نہ پہنچ جائے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ان کا دماغ، جسم اور مدافعتی نظام نمایاں طور پر بڑھتا اور ترقی کرتا ہے۔اسی دور میں بچے کے دماغ کے نیورونس ہزاروں کی تعداد میں جنریٹ ہوتے ہیں ۔
حمل کے دوران ماں کی صحت، غذائیت اور تناؤ کی سطح بچے کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ آپ کے بچے کی پیدائش کے بعد، اس کا جسمانی ماحول، غذائیت اور تعلقات اس کی صحت اور تندرستی پر تاحیات اثر ڈال سکتے ہیں۔اس کے پہلے 1000 دنوں میںآپ کے بچے کو صحت مند غذا، محبت کے رشتے ، حفاظت اور سلامتی ، کھیلنے کا وقت ، ایک صحت مند ماحول بشمول رحم میں ان ہی احتیاطی تدابیر کی ضرورت پیش آتی ہے ۔اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ پہلے 1000 دنوں میں بچے کا دماغ کیسے بڑھتا ہے؟
بچے کا دماغ ابتدائی 1000 دنوں کے دوران زندگی کے کسی بھی دوسرے وقت کی بنسبت زیادہ تیزی سے نشوونما پاتا ہے۔ جس طرح ان کا دماغ اپنے ماحول کے مطابق ڈھلتا ہے ۔ حمل کے دوران اور ابتدائی بچپن میں صحیح خوراک (غذائیت) بچے کی سیکھنے، جسمانی صلاحیتوں اور جذبات کی صحیح نشوونما میں مدد کرے گی۔اس دوران بھوکا رہنا یا تناؤ یا بدسلوکی کا سامنا کرنا بچے کی نشوونما پر تاحیات اثر ڈال سکتا ہے۔ ابتدائی 1000 دنوں میں غیر محفوظ یا غیر صحت مند ماحول بعد کی زندگی میں بھی بچے کی جسمانی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔بچے کی مستقبل کی صحت کے لیے رحم میں اور ابتدائی زندگی کے ذریعے اچھی غذائیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب ماں حاملہ ہوتی ہےتو ماں کا وزن اور طرز زندگی ، عادتیں بچے کے میٹابولزم، مدافعتی نظام اور اعضاء کی نشوونما پر اثر انداز ہو سکتےہیں۔ حمل اور ابتدائی زندگی کے دوران ناقص غذائیت بعد میں موٹاپے، دل کی بیماری اور فالج کا باعث بن سکتی ہے۔اپنے بچے کو زندگی کی بہترین ممکنہ شروعات دینے کے لیے، جب ماں حاملہ ہو تو صحت مند غذا کھائےاور اگر ممکن ہو تو دودھ پیے،ہوسکے تو دوران حمل مائیں صحت کا خیال رکھنے کے لیےخصوصی ٹریننگ لے سکتی ہیں ۔ اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر آپ حاملہ ہونے کے دوران بہت زیادہ تناؤ کا سامنا کرتی ہیں، تو آپ کے بچے کا اعصابی نظام اور نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ بعد کی زندگی میں صحت کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے، بشمول دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور ذیابیطس۔
اکثر کشیدگی اور صدمے ناگزیر ہو تے ہیں یا حادثاتی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں تاہم اگر کسی حاملہ خاتون کو صدمے کا سامنا ہے، یا کسی ماں کے پاس دوران حمل ایک چھوٹا بچہ بھی ہے اور دباؤ محسوس ہورہاہے تو دباؤ کی کیفیت میں مستقل رہنے سے بہترہے کہ اپنے ڈاکٹر یا چائلڈ ہیلتھ نرس سے یا کاؤنسلر سے رجوع کریں تاکہ اس دباؤ کا سد باب ہوسکے ۔
گھر کے تمام افراد کو بھی حاملہ کا خیال رکھنےاورخوش گوار ماحول بنا نے میں تعاون کرنا چاہیے، نسل انسانی کی دیکھ بھال صرف ماں کی ذمہ داری نہیں ،والدین اور گھر کے دیگر بزرگوں کو بھی اس کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے ۔
بچے کی نشوونما کے لیے محبت بھرے محفوظ تعلقات بہت ضروری ہیں۔ ان خوش گوار تعلقات کے ذریعے ہی بچے سوچنا، سمجھنا، بات چیت کرنا، جذبات ظاہر کرنا اور برتاؤ کرنا سیکھتے ہیں۔ خوش گوار ماحول کا پروردہ بچہ دنیا سے پرامید ہوتا ہے ،سماج میں اپنے مقام کا درست تعین کرپاتا ہے ۔ والدین کی صاف گفتگو بچے کی ترسیل کی صلاحیت کو جلا بخشتی ہے۔کھیلنا، گانا، پڑھنا اور اپنے بچے سے بات کرنا ،ان کے محفوظ اور پیار محسوس کرنے میں مدد کرنے کے تمام اہم طریقے ہیں۔
ابتدائی سالوں کے دوران انسانی اعصابی نظام کی بے پناہ لچک کی وجہ سے، یہ دور سیکھنے اور ترقی کے بے مثال مواقع فراہم کرتا ہے، اگرچہ کچھ نظریہ دان یہ استدلال کرتے ہیں کہ بعد کے تجربات بچوں کی نشوونما کے راستوں کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتے ہیں، بہت سے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زندگی کے ابتدائی چند سالوں کے تجربات بچے کی بنیاد کو مضبوط بناتے ہیں جس پر باقی ترقی کی تعمیر ہوتی ہے۔ابتدائی زمانے میں والدین کی جانب سے ہونے والا بچے کا گرم جوشی سے استقبال ، احساس کے ساتھ کی جانے والی دیکھ بھال اور توجہ میں بیزاری کے بجائے گرم جوشی ، بچے کی خود اعتمادی ، بے خوفی اور دوسروں کے ساتھ تعاون کا مزاج پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے ۔

(4)سماج اور تہذیب و تمدن (Culture and Society)

 نو عمری جو ’’طوفان اور تناؤ‘‘ (Storm and stress)کا دور کہلاتی ہے ،اس دور کو دور کاذب (Pseudo period) بھی کہا جاتا ہے، جس میں بچہ اپنے آپ کو ایک مکمل بالغ انسان کی طرح محسوس کرتا ہے ،وہ اپنے آپ میں خود کو فیصلہ کن شخصیت سمجھنے لگتا ہے ۔ اس دور کو متحرک تبدیلی کے دور کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن ایک ایسا دور جس میں زیادہ تر بچے (75-80 فی صد) کامیابی کے ساتھ بالغ ہو جاتے ہیں ،اس دور میں بیش تر بچوں کا والدین سے اختلاف بھی یقینی امر ہے ۔ یہ دور والدین اور ان کے بچوں کے درمیان تعلقات کے منقطع ہونے کی بھی خصوصیت رکھتا تھا،تاہم عصری مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ نوعمروں کو اپنے والدین کے ساتھ قریبی اور مربوط تعلقات برقرار رکھنے سے فائدہ ہوتا ہے ۔یہاں یہ بات اہم ہے کہ ان کی بڑھتی عمر اوردل چسپیوںسے والدین کو بیزار نہیں ہونا چاہیے ۔نوعمری کے اس دور کو سمجھتے ہوئے اس کا تعاون کرنا چاہیے ،یہاں تک کہ جب وہ زیادہ آزادی کی طرف بڑھتاہے تو اسے بھی قبول کرنا چاہیے ،الّا یہ کہ وہ کوئی غیر اصولی حرکت کرے ،اور گناہ کبیرہ کی طرف اس کے قدم بڑھیں۔
کبائر سے بچانے اور بنیادی اصول کو نہ توڑنے کی تعلیم کا آغاز
نوجوانوں کی نشوونما کے ماہر امریکی ماہر نفسیات لن پونٹن نے نوٹ کیا کہ خطرہ مول لینا اس اہم تحقیق کا ایک عام حصہ ہے، جس میں نوعمر افراد مشغول ہوتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو مثبت خطرات مول لینے کی ترغیب دے کر ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں، جیسے کہ کھیلوں کی ٹیم کے لیے کوشش کرنا، طلبہ کی حکومت میں کسی عہدے کے لیے دوڑنا یا کسی خاص پروجیکٹ پر کام کرنا۔ چیلنجنگ لیکن مثبت کوششوں میں مصروف نوجوانوں کے منفی خطرے جیسے الکحل اور منشیات کے استعمال کی طرف راغب ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

(5) ہم جماعت گروہ کے اثرات (Peer Influence)

 اپنے ہم عمر ساتھیوں سے بچے بہت سی مثبت باتیں سیکھتے ہیں بچے کی نشوونما پرہم عمروں کے بہت زیادہ مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ہم جولیوں سے سیکھے گئے بچے کے تجربات بالکل مختلف اور بیش قیمت ہوتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرتے یا کھیلتے ہوئے اپنے خیالات کا اشتراک کرتے ہوئے آسانی محسوس کرتےہیں، چوں کہ ان کی ذہنی سطح ملتی جلتی ہوتی ہے، اس لیے ان کے درمیان ایڈجسٹ کرنے سے ان کی تخلیقی صلاحیت پروان چڑھتی ہے ۔ جہاں ہم جولیوں کے درمیان رہنے کے یہ فوائد ہیں وہیں منفی اثرات کا بھی احتمال ہوتا ہے ۔ فزیکل سرگرمیوں کاپروان چڑھنا اور علمی صلاحیت کو جلا ملنا اس بات پر منحصر ہے کہ بچے کس طرح کی گروپ سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ انہیں ملنے والی صحبتوں کا ماحول اور ان کے تجربات کس نوع کے ہیں ۔ان کے گھر اور والدین کا آپسی تعلق اور اپنے بچے کو قبول کرنے ، اہمیت دینے کا انداز اور بہن بھائیوں کے درمیان اس بچے کا پیدایشی درجہ بھی اپنے اثرات رکھتا ہے ۔یہ بھی اہم ہے کہ جن بچوں کی صحبت میں بچہ رہتا ہے، ان بچوں کی بولنے کی صلاحیت کے بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اگر وہ شرمیلے ہوں توبھی ایک گروپ میں رہنا بچوں کے لیے تازگی اور تفریح ہے۔ یہ ساتھیوں کی مختلف دل چسپیوں کے مطابق مختلف قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں ان کی دل چسپی کو بڑھاتا ہے۔ والدین کو کبھی بھی ساتھیوں کے دباؤ سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ درحقیقت صحیح رہ نمائی کے ساتھ دوستی انسان کی زندگی کے اہم ترین پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ والدین اپنے بچوں کی رہ نمائی کر سکتے ہیں اور انہیں ساتھیوں سے سیکھنے اور ساتھیوں کے دباؤ کے درمیان فرق کو سمجھا سکتے ہیں۔ پری اسکول میںگروپ کی سرگرمیوں کی بڑی اہمیت ہے ۔یہ بچے کی صلاحیتوں کے فروغ کا اہم ذریعہ ثابت ہوتی ہیں، اس سے سیکھنے کےمعیار میں واضح فرق نمایاں ہوتا ہے ۔آئیے! کچھ مثبت نتائج پر بات کرتے ہیں جو ہم عمر ساتھی بچے کی زندگی میں لا سکتے ہیں۔

سماجی طور پر ترقی کرنا

ساتھیوں کے ساتھ رہنا بچے کی سماجی نشوونما کو بڑھاتا ہے۔ یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ غذا ،جو بچے کی نشوو نمامیں معاون ہے۔ سماجی ہوئے بغیر، کوئی بچہ سماج کے درمیان اپنی جگہ برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ ہر بات جو انسان کا بچہ سیکھتا ہے، اس کا تعلق سماعت سے ہے، وہ جو چیز سنتا ہے وہی عمل میں لاتا ہے ،بات چیت سننا اور سیکھنا ساتھ ساتھ چلتے ہیں، بات چیت کے بغیر بچے کے لیے سیکھنے کا تجربہ نہیں ہوگا۔ وہ جتنا زیادہ بات چیت کرےگا، اتنا ہی زیادہ چیزوں سے مانوس ہوگا، اور نئے زاویے سے سوچنے سمجھنے کے عمل کا آغاز ہوگا ۔ بچے کی ابتدائی عمر تا پری اسکولنگ عمر دراصل دماغ میں موجود نیورون کے بننے اور اس کا تعلق چیزوں سے جوڑنے کی عمر ہے ۔جب بھی بچہ نئی چیز یا نئے تصور کو سنتا ہے یا شناخت حاصل کرتا ہے تو اس تصور کی بنیاد اس کے دماغ میں رکھی جاتی ہے، اور پھر ایک چیز دوسری چیز سے تھنکنگ پروسس کے ذریعہ ایسوسی ایٹ (Associate)ہوتی ہے ۔ بچے کی سماجی ترقی ان کے اعتماد، مواصلات میں روانی کا تعین کرتی ہے۔ لیڈر شپ صفات کے پیدا ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں ،بچوں کے اسکول اور اساتذہ کی رہ نمائی حاصل ہوتو Peer group سیکھنے کا ایک اچھا پلیٹ فارم ثابت ہوتے ہیں ۔

جذباتی طور پر ترقی کرنا

بچوں کے لیے گھر سے باہر دوستی پہلا تجربہ ہے، جو انہیں جذباتی طور پر متاثر کرتی ہے۔ ہر فرد اپنے اندر اس جذبے کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سماج سے جڑے اپنے خیالات کی ترسیل کرے ،دوسروں کو بتائے کہ وہ کیا سوچتا ہے ؟دوسروں کے خیالات سنے ،آس پاس کے افراد کی موجودگی انسان میں مختلف محرکات کا سبب بنتی ہے۔
سماجی تعامل ہی دراصل بچے کی جذباتی نشوونما میں اور جذبا ت کے توازن میں معاون بنتی ہے۔ بچہ خوشی، غصہ، ہم دردی ، احساس ، اور اپنی حساسیت ، تقابل ،تحریک ، پیش رفت میں توانائی جیسے جذبات کا تجربہ کرتا ہے، جو انسان کے لیے بہت ضروری ہیں ۔ تعلقات کی تعمیر اور دوسروں کا دل رکھنے میں مطابقت کا سلیقہ سیکھتا ہے ۔

یہاں تک کہ لڑنا بھی اسے نئے تجربات سے آشنا کرتا ہے کہ وہ حالات سے کیسے نمٹ سکتا ہے، اور مختلف قسم کے حالات کو کیسےسنبھال سکتا ہے؟جذباتی نشوونما ذہنی اور مجموعی ترقی میں بھی اچھی طرح کام کرتی ہے۔ بچہ اپنے والدین، اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ تعلقات کے مطابق کام کرتا ہے، اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ بہترین طریقے سے سیکھتا ہے۔

علمی ترقی

علمی ترقی کا تعلق بچے کی رسمی اوغیر رسمی جاننے کے عمل سے ہے ،وہ ہر لمحہ سماج میں یا اپنے ہم عمروں میں رہ کر سیکھتا ہے ،رفتہ رفتہ استدلالی صلاحیت پروان چڑھتی ہے ،وہسوچے گا جبھی ذہنی طور پر آزاد ہوگا۔ بچہ اپنے ساتھی کے ساتھ کمفرٹ زون میں ہوتا ہے، خیالات اور مختلف قسم کے نقطہ ہائے نظر کا اشتراک کرتا ہے۔ جب بہت سے بچے کچھ گروپ سرگرمیوں میں شامل ہو جاتے ہیں،سیکھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بچے جو اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں اور کسی مسئلے سے نکلنے کے طریقوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں، ان میں فہم وادراک کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے ،بچوں کی اسکول کی ثقافتی سرگرمیاںحیرت انگیز کام کرتی ہیں، جس سے بچہ ایک گروہی کلچر میں تربیت پاتا ہے۔

جسمانی ترقی

بچے کی جسمانی نشوونما میں کھیل اور سرگرمیاں سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہیں۔ آؤٹ ڈور گیمز جو گروپ میں کھیلے جاتے ہیں، وہ بچے کو اچھی کارکردگی اور جسمانی طور پر متحرک رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم عمر بچوں کے مقابلے انہیں بہتر ورژن دینے مین معاون بنتے ہیں ۔ جسمانی نشوونما صرف مضبوط جسم سے متعلق ہی نہیں بلکہ یہ سرگرمیاں ایک شخص کو طویل عرصے تک اندر سے صحت مند رہنے میں معاون بنتی ہیں۔ یہ سب اس وقت ممکن ہے جب کوئی فرد اپنے اردگرد کے ساتھیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات بناتا ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ ساتھیوں سے باقاعدگی سے سیکھتا ہےیا کبھی کبھی ۔ کھیل کا میدان بچے میں ٹیم بلڈنگ ، ایثار وقربانی ، ڈسپلن ، جذبۂ امداد باہمی اوربلند اخلاق کے مظاہرے میں بھی کار گر ثابت ہوتا ہے ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴