جون ۲۰۲۴

وقت اپنے صفحات دھیرے دھیرے پلٹ رہا تھا،اور حالات بہتر ہونے کی ہر امید اپنے ساتھ لیے جارہے تھا۔دو ہفتے بعد زائنہ کے بابا کی سرجری تھی،اسے لگ رہا تھا کہ وہ سرجری اس کی آخری امید ہے۔
وہ کچن میں کھڑی چائے کی کیتلی گیس پر رکھے اس میں ابال آنے کا نتظار کررہی تھی۔اس نے سامنےکھڑکی سے باہر ایک نظر ڈالی۔وہاں کڑک دوپہر کے بعد کی شام اتری ہوئی تھی،بالکل اس کے دل کی طرح،اس کے اندرونی جذبات بھی اب شام کی طرح نرم پڑ چکے تھے،مگر ان میں ابھی بھی کچھ انگار باقی تھے،جس سے اس کا وجود آہستہ آہستہ اندر سےدہک رہا تھا۔
وہ تیار سی گلابی رنگ کی چوڑی دار فراک پہنے، کھُلے بالوں کو کیچر میں باندھے، غیر محسوس انداز میں انگلیاں مرورڑ رہی تھی۔آج کالج میں میڈیکل میں داخلےکی آخری تاریخ تھی،اور آج ہی کے دن عیان کےگھر والے اسے دیکھنے آئے تھے۔ دل رہ رہ کر کالج کی طرف جارہا تھا۔آزمائش سی آزمائش تھی ۔
اس نے ایک نظر چائےپر ڈالی کہ کہیں ابال نہ آجائے، لیکن کم گیس پر چائے اندر اندر ہی ابل رہی تھی۔ ڈرائنگ روم سے مہمانوں کی آوازیں کچن تک سنائی دے رہی تھیں۔ عیان بھی ساتھ آیا ہوا تھا۔ اس نے اس کی تصویر دیکھی تھی ،نہ اسے دیکھنے کی اس کے دل نے فرمائش کی تھی۔وہ اس کی زندگی میں زبردستی آرہا تھا اور زبردستی کے رشتے تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں دیتے۔
’’کاش! یہ بات اس کے بابا بھی سمجھ جائیں!‘‘ وہ حسرت سے ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ چائے کا ایک بڑا ابال برتن سے جھانکنے کےلیے بےتاب ہونے لگا۔ابھی وہ سنبھل کر گیس بند کرتی کہ پیچھے سے کسی نے جلدی سے آگے بڑھتے ہوئے گیس بند کی۔چائے کا ابال واپس بیٹھ گیا۔اسے حیرت ہوئی کہ کم گیس پربھی چائے کا ابال آسکتا تھا؟ اسے ایک پل کو چائے کا ابال اپنے دل کی طرح لگا،جو کم آنچ پر دھیرے دھیرے ابل رہا تھا،لیکن کم آنچ پر بھی کب ایک بڑا ابال اس کا سینہ پھاڑ کر نکل جائے او ر سب کچھ اپنے ساتھ بہا لےجائے۔افف! وہ یہ سب کچھ نہیں سوچنا چاہتی تھی۔
’’زائنہ !کیا ہوگیا ؟د ھیان کہاں ہے تمھارا؟ٹھیک ہو تم؟‘‘ آپی نے اسنیکس کی خالی پلیٹیں پلیٹ فارم پر رکھیں۔زائنہ نے ان کو سر تا پاؤں دیکھا۔وہ گرین نائرہ کٹ پلازو پر دوپٹہ اوڑھے، زیورات سے آراستہ اچھی لگ رہی تھیں،لیکن شانزے کووہ کچھ دنوں سے وہ بیمار لگنے لگی تھی۔اس کےلب جیسے مسکرانا بھول گئےتھے۔وہ اسےاس حالت میں نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
’’کہا ںہوگا آپی؟یہیں پر ہے۔کب جائیں گے یہ لوگ؟میرا سر اب درد سے پھٹ رہا ہے۔‘‘ اس کا سر واقعی درد کرنےلگا تھا۔آپی کو اس پر بہت پیار آیا۔وہ اپنی مرضی کے خلاف یہ سب صرف ان کے کہنے پر بابا کے لیے کررہی تھی۔وہ جانتی تھیں۔انھوں نے پیار سے اس کا ہاتھ دبایا۔
ؔ’’بس تھوڑی دیر زائنہ!جا ہی رہی ہیں اور تمھارے لیے ایک خوش خبری ہے۔‘‘ ان کی آواز میں خوش گواری در آئی،جسے سن کر اس نے دونوں ابرو اٹھاکر ’’کیا؟‘‘ پوچھا۔آج کل اسے کوئی خوش خبری خوشی نہیں دے سکتی تھی،وہ جانتی تھی۔ شانزے پر جوش سے انداز میں بتانے لگی۔شاید اس خبر سے وہ خوش ہوجائے۔کم از کم اس کے چہرے پر مسکراہٹ تو آجائے۔وہ اس طرح خاموش انھیں بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
’’ بابا نے عیان اور اس کے والدین سے بات کی ہے،اور تمھاری پڑھائی کے بارے میں بتایا ہے اور وعدہ بھی لیا ہےکہ وہ تمھیں شادی کہ بعد بھی پڑھنے دیںگے۔‘‘ انھوں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا،پر اس کا چہرہ ہر خوشی سے عاری تھا۔سیاہ رنگی آنکھوں نے شہد رنگی میں اس طرح کی ویرانی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ان کا ڈوبتا دل مزید ڈوبنے لگا۔
’’کیا وہ مجھے شادی کے بعد ڈاکٹر بننے دیں گے آپی؟‘‘ وہ جیسے کسی صدمے کے زیر اثر کہہ رہی تھی۔اس کا دل جیسے چائے کی طرح دھیمی آنچ پر ابلنےلگا تھا۔
’’کیا میں شادی کے بعد بھی اپنا خواب پورا کرپاؤں گی؟‘‘اس کا لہجہ بہت دھیما مگر پختہ تھا۔۔آپی کا مسکراتا چہرہ یکایک افسردگی میں بدل گیا۔وہ اپنی بہن کو اس حال میں نہیں دیکھ پارہی تھی۔
’’زائنہ میری جان! یہ قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں،اور پڑھائی کا مطلب صرف ڈاکٹر بننا تو نہیں ہوتا ناں،تم گریجویشن کرسکتی ہو،اس میں آگے پی ایچ ڈی بھی کرسکتی ہو۔‘‘ یہ سن کر اس کی آنکھو ں سے ڈھیروں آنسو بہہ نکلے۔
’’آپی! آپ جانتی ہیں کہ ہمیشہ سے میرے لیے پڑھائی کا مطلب صرف ڈاکٹر بننا تھا۔اگر آج بابا کی طبعیت ٹھیک ہوتی تو میرا بھی داخلہ میڈیکل کالج میں ہوچکا ہوتا۔‘‘ وہ کہتے کہتے ہچکچانے لگی۔آپی کے دل کو اسے روتا دیکھ کر کچھ ہوا تھا ،انھوں نے اسے ہولے سے گلے لگالیا۔وہ اس طرح تو پہلے کبھی نہیں روتی تھی، جس طرح وہ اب کچھ دنوں سے رونے لگی تھی۔
’’ آپی! ایسا میرا ساتھ ہی کیوں ہوا؟ایک طرف میرے بابا ایسی حالت میں ہیں، اور دوسری طرف میرا خواب ،آپی! وہ بھی اس طرح ٹوٹ رہا ہےکہ میں سمیٹ بھی نہیں پارہی ہوں۔‘‘ وہ رورہی تھی۔دردِ دل کی یہ تکلیف اس سے برداشت نہیں ہورہی تھی۔آپی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے کس طرح سنبھالے۔وہ اسے خود سے لگائے اس کی پیٹھ سہلاتی خود بھی آنسو بہانے لگی تھیں۔ ان کاصبر بھی اب ٹوٹ رہا تھا۔جان سے زیادہ عزیز کے آنکھوں میں آنسوتو پتھر کو بھی پگھلا دیتے تھے،یہ تو پھر ان کا معصوم دل تھا۔
’’آپی! میری سمجھ میںنہیں آرہا میں کس کس درد کا ماتم مناؤں؟کس کس تکلیف پر چلاؤں؟میرا سب کچھ ختم ہورہا ہے آپی!میں کیا کروں؟‘‘ آپی نے زور سے اسے گلےلگا رکھا تھا۔اس طرح اسے بچوں کی طرح روتا دیکھ کر ان کی آنکھوں سے بھی دریا بہنے لگا۔اگر آج مما ہوتی تو انھیں اس طرح بہادری کا خو ل خود پر چڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
’’ افف مما! آپ کیوں چلی گئیںمجھے اس طرح اکیلا چھوڑکر؟‘‘ ان کا دل ماں کی یاد میں ڈوب رہا تھا،لیکن وہ کہاں آنے والی تھیں۔گزرے لوگ بھی بھلا واپس آیا کرتے ہیں؟ وہ تو بس اپنی یادیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں،تاکہ ہم ان کی محبت میں، ان کی یادوں میں ہر روز مریں، لیکن مر کر بھی انھیں واپس پا نہ سکیں۔ وہ خود کو مضبوط کرنے لگی۔
’’نہیں شانزے! یہ وقت رونے کا نہیں ہے۔‘‘وہ خود سے کہتی زائنہ کو ہمت دینے لگی۔
’’بس کرو میری جان! جتنی برداشت ہوتی ہے،اللہ اتنا ہی آزماتا ہے۔دیکھنا سب ٹھیک ہوجائےگا۔‘‘ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے کس طرح سے ہمت دے۔بابا کی حالت بھی دن بہ دن بگڑ رہی تھی۔ایک طرف بابا اور زائنہ اور دوسری طرف زیاد صاحب اورسسرال۔ وہ دوہری ذمہ داری کو سنبھالتے سنبھالتے اپنی ہمت کھو رہی تھیں، لیکن وہاں انھیں سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔
کبھی کبھار زندگی ہمیں برداشت سے زیادہ ہی آزماتی ہے، یا ہم اپنی اصل برداشت کی تہہ سے ان جان ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے ہمیں اپنی آزمائش بڑی لگنے لگتی ہے۔
’’ہمت کرتے ہیں زائنہ!بابا کیا کہتے ہیں، یاد ہے نا تمھیں؟‘‘ انھوں نے اسے خود سے الگ کیا۔ وہ اب اپنے دوپٹے کے کونے سے اس کے آنسوؤں کو پونچھ رہی تھیں۔
’’اگر ایک امتحان اللہ لیتا ہے تو ساتھ دو فراغت کے لمحات بھی دیتا ہے،تم دیکھنا اس آزمائش کے ساتھ بھی اللہ تمھاری آگے کی زندگی میں بہت خوشیاںدےگا۔تم صرف اس پر بھروسہ رکھو۔‘‘ وہ اپنی بہن کو ہمت دےرہی تھی یا خود کو، وہ خود ہی سمجھ نہیںپائی،لیکن حوصلہ کمال کا تھا۔
’’دو ہفتے بعد بابا کی سرجری ہونی ہے۔ ڈاکٹر چاہے کچھ بھی کہے مجھے اللہ پر بھروسہ ہے۔ بابا بالکل پہلے کی طرح صحت یاب ہوجائیں گے۔ دیکھنا پھر سب ٹھیک ہوجائےگا۔‘‘ ان کے انداز میں پختگی تھی۔ایسی جیسے وہ سچ مچ جان چکی تھیں کہ ان کے بابا کو کچھ نہیں ہوگا۔ان کی یہ بات سن کر زائنہ کے دل سے بےساختہ ’’آمین‘‘ نکلا۔
’’ تم بس ہمت نہ ہارو۔تم دیکھنا کل ہماری زندگی میں بے حد خوشیاں آئیںگی۔بس تم آج بابا کی بات کا مان رکھ لواور تہ دل سے اس نئے رشتے کو قبول کرو۔‘‘ انھوں نے اس کے رخسار پر پیار سے ہاتھ پھیر ااور یکایک ان کی آنکھوں میں خفگی در آئی۔
’’تمھیں اس طرح روتا دیکھ کر میرا دل بند ہونے لگتا ہے زائنہ!اگر بابا کو پتہ چلے گا تو ان کے دل پر کیا بیتے گی، تمھیں پتہ ہے ناں؟‘‘ ان کی خفا آنکھوں کو دیکھ کر صاف ظاہر تھا کہ واقعی ان کا دل اسے اس طرح روتا دیکھ کر بہت دکھی ہوا تھا۔اس نے محبت سے ان کےدونوں ہاتھ تھام لیے۔
’’ان شاءاللہ آپی !بابا بالکل ٹھیک ہوجائیںگے۔مجھے بھی اللہ پر بھروسہ ہے۔میں نہیں روؤں گی آئندہ۔آپ فکر نہ کریں۔دیکھنا بابا ٹھیک ہونے پر خود مجھے میڈیکل کروائیں گے۔‘‘اس کی آواز میں دو منٹ پہلے کی اداسی کا شائبہ بھی اب دکھائی نہیں دیتا تھا۔
بہن کے سینے میں اللہ نے واقعی ماں کا دل رکھا ہوتا ہے۔وہ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کویوں کو روتا دیکھ ہی نہیں سکتی،یہ محبت کے رشتے تھے۔
وہ اب پہلے سے بہتر نظر آرہی تھی۔اسے نارمل ہوتا یکھ کر آپی کو مہمانوں کو چائے دینے کی فکر نے آگھیرا۔
’’افف تمھاری باتوں میں دیکھو چائے ٹھنڈی ہوگئی۔پھر گرم کرنا پڑےگا۔‘‘انھوں نے گیس آن کی۔
’’میں چائے لاتی ہوں۔تم تب تک کمرے میں جاکر فریش ہوجاؤ۔پھر مہمانوں کےپاس آنا۔اچھا؟‘‘ وہ جلدزائنہی جلدی کام سمیٹتے ہوئےکہہ رہی تھیں۔رونے سے زائنہ کا سارا میک اپ اتر گیا تھا۔وہ تھی تو پیاری کہ اسے میک کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی،لیکن آپی کے حکم تو آپی کے حکم ہوتے ہیں۔وہ دروازےکی طرف بڑھی پھر یکایک کسی خیال کے تحت پلٹی۔
’’آپی! کیا واقعی شادی کرنا ضروری ہے؟‘‘ اس کا انداز معصوم سا تھا،جسے سن کام کرتی ہوئی آپی نے مصنوعی غصے سے اسے دیکھا۔
’’افف زائنہ ! اتنا سمجھانے کہ بعد بھی وہی رٹ۔اب کیا کرو ںمیں تمھارا؟‘‘وہ ابھی اور بھی بہت کچھ کہنے والی تھیںکہ زائنہ نے ’’اچھا جارہی ہوں،ناراض تو نہ ہو ۔‘‘ کہہ کر واپس دروازے کے باہر چلی گئی۔اس کے اس انداز پر انھوں نے مسکرا کر سر جھٹکا اور جلدی جلدی کام کرنے لگی۔
کام کرتے کرتے وہ اس بات سے ان جان تھیں کہ ہر امید پوری نہیں ہوتی، کچھ امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں، کچھ امید یںتوڑدی جاتی ہیں،اور کچھ امیدیں ہمیں توڑکر رکھ دیتی ہیں۔ جس طرح زندگی کا بھروسہ نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح امیدوں کا بھی بھروسہ نہیں ہوتا، اور انھیں نہیں پتہ تھا کہ ان کی بھی یہ امید ان کی بہن کو توڑ کر رکھ دینے والی تھی۔

٭ ٭ ٭

عالیانہ اپنے کمرے میں بیٹھی بڑے انہماک سے گود میں ناول رکھے پڑھنے میں مشغول تھی۔ باہررات کی چاندنی بکھری ہوئی تھی۔ کمرے میں خاموشی کا ارتکاز تھا۔ صرف پنکھے کے گھومنے کی آوازیں ہی آرہی تھیں۔یہ ناول اس نے آج ہی اپنی دوست عریبہ سے لیا تھا۔ وہ بچپن سے ہی ناول پڑھنے کی بہت شوقین تھی۔اسے لگتا تھا کے یہ فرضی سی دنیا کچھ پل اسے اس کی ساری تکلیف اور پریشانیاں بھلا دیتی ہے۔
کچھ کہانیاں ہمیں اپنی زندگی کی کہانی سے دور لے جاتی ہیں۔ جہاں بہت پریشانی اور تنگی کے بعد آخر میں سب ٹھیک ہوجاتا ہے۔ ان کہانیوں میں آخر میں سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ یہ کہانیاں ہمیں ہماری زندگی کی کہانی پر یقین کرواتی ہیں کہ بھلے سے ابھی ہم کتنی بھی بڑی آزمائش میں کیوں نہ گھرے ہوں، لیکن آخر میں سب ٹھیک ہو ہی جائےگا،کیوں کہ ہر کہانی کے آخر میں سب ٹھیک ہو ہی جاتا ہے ۔
وہ غور سے کوئی اہم سین پڑھتے ہوئے صفحہ پلٹنے لگی کہ اس کا فون بجنے لگا۔کمرے میں چھائی خاموشی کا ارتکاز ٹوٹا۔ اس نے کتاب پکڑے ایک نگاہ بند دروازے پر ڈالی۔موبائل اٹھایا۔ فاخر کا نام سامنے’’فاخرہ کالنگ‘‘ کے نام سےلکھا نظر آرہا تھا۔ اس نے بھی ہر دس لڑکی میں سے نو لڑکیوں کی طرح کسی لڑکے کا نام اس جیسے کسی لڑکی کے نام سے موبائل میں سیو کیا تھا۔ اس کانام دیکھ کر اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
کچھ لوگوں کا نام موبائل پر چمکنے سے اور بھی خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہ سوچ کرکہ وہ بھی آپ کے لیے بے تاب ہیں ، آپ سے بات کرنے کے خواہش مند ہیں، آپ کی سوچوں کے محور میں گم ہوکر آپ کا نمبر ڈائل کر بیٹھے ہیں۔ آپ کو خود سے مزید محبت کروا بیٹھتے ہیں۔
’’کیا حال فاخر صاحب؟بات کی ممی سے آپ نے؟‘‘ وہ خوش گوار آواز میں کہتی اسے چھیڑ رہی تھی۔جانتی تھی کہ اس نے ابھی کوئی بات نہیں کی ہوگی۔ کچھ باتیں ماں باپ سے کرنی بہت مشکل ہوتی ہیں۔ وہ بس اسےصرف یاد دلارہی تھی کہ وہ اس کے بات کرنے کی منتظر ہے۔
’’یار! کروں گا ناں بات۔ تمھاری سوئی ایک بات پر ہی اٹک گئی ہے۔‘‘ وہ ایک ہی سوال سن کر کچھ بور ہوا تھا، لیکن پھر کچھ جوش سے اپنی بات بتانے لگا۔
’’میں نے یہ بتانے کو کال کی تھی کہ آج دوپہر کو بڑی آپی کا رشتہ طے ہوگیا ہے۔ ان شاءاللہ دو مہینے بعد شادی ہوجائےگی ان کی۔ ‘‘ اس کی آواز میں خوشی در آئی تھی۔ عالیانہ کے لبوں سے بے ساختہ خوشی سے ’’کیا؟‘‘نکلا۔وہ کتاب بند کرتی اب پورے طور پر اس کی طرف متوجہ تھی۔
’’تم سچ کہہ رہے ہو فاخر؟ بہت بہت مبارک فاخر! مطلب ایک آپی کی تو شادی پکی ہوگئی۔‘‘ وہ بھی بہت خوش ہوگئی تھی۔ایک ایک کر کے ان کے درمیان کے سارے کانٹے ہٹ رہے تھے۔
’’ہاں ایک ہوگئی۔اب تم دعا کرو جلدی جلدی دو اور ہوجائے۔چھوٹی آپی اور صدف کی تو ان شاءاللہ پھر ہماری باری آئےگی۔‘‘ اس کی آواز میں بےتابی تھی۔
وہ ابھی ان الفاظ کو سننے کی خوشی ٹھیک سے محسوس بھی نہیں کرسکی تھی کہ موبائل کی دوسری طرف فاخر کی امی شاید اس کے کمرے میں آگئی تھیں۔اسے بس فون سے اس کی امی کی آواز سنائی دینے لگی۔وہ شاید مٹھائی بانٹنے کے لیے اسے آوازیں دیتے دیتے کمرے میں آگئی تھیں۔اب وہ اسے ایک آواز پر نہ آنے کے لیے ڈانٹ رہی تھیں۔ عالیانہ مسکراکر دل چسپی سے فون کو مزید کان کے قریب کیے سننے لگی۔
’’ ہزار دفعہ کہا ہے ایک آواز میں آیا کرو۔ اوپر کمرہ ہے تمھارا، اتنی سیڑھیاں چڑھ کر آنا پڑتا ہے۔‘‘
وہ جواباً بہانہ بنانے لگا۔’’ امی! آواز نہیں آئی ،بس آنے ہی لگا تھا ۔ ‘‘عالیانہ کو اس کی گھبرائی آواز سن کر مزہ آنے لگا۔ وہ اپنی ماں سے کتنا ڈرتا تھا۔ اس نے سوچا۔وہ کتاب پرے کرتی دل چسپی سے ہتھیلی ٹھوڑی تلے رکھ کر فون کے اس طرف کی باتیں سننے لگی۔فاخر کی ماں اسے مزید ڈانٹ رہی تھیں۔
’’ یہ کیا حال بنایا ہے کمرے کا! میلے کپڑے بھی وہیں، دھوئے کپڑے بھی وہیں۔ میں نہ دیکھوں تو تم کچھ نہیں کرتے فاخر!‘‘ عالیانہ کو ہنستے ہوئے اس وقت فاخر کی شکل دیکھنے کی چاہ ہوئی تھی۔ فاخر نے گھبراہٹ میں فون دور پھینک دیا تھا۔ اب اگر وہ امی کی باتوں کے دوران فون لیتا تو وہ اور کچھ تیز سناتیں۔ بہتر یہی تھا کہ عالیانہ اس کی اول درجہ بے عزتی سن لے ،کیوں کہ دوم درجہ سنتی تو وہ شاید اس سے شادی کرنے کے لیے انکار ہی کردیتی۔‘‘
’’ بار بار کہتی ہوں، صبح اٹھو تو بستر اٹھاؤ، کمرہ صاف کرو، کل کو بیوی آئے گی ناں تو من ہی من مجھے برا بھلا کہے گی کہ بیٹے کو کچھ بھی نہیں سکھایا۔ آج کل کی لڑکیاں بہت دماغ والی ہوگئی ہیں۔ ہم جیسی نہیں ہوتیں ،جو شوہروں کی بلاوجہ ناز بردارایاں کریں، اس لیے سیکھ لے۔‘‘ عالیانہ کا ہنس ہنس کر پیٹ درد کررہا تھا۔ وہ کتنا کیوٹلی اسے ڈانٹ رہی تھیں۔ کاش وہ ابھی اس وقت وہاں ہوتی۔ اس کو فاخر کی ماں بہت کیوٹ لگی تھی ، تیز لیکن پیاری سی۔
’’ آپ فکر نہ کریں امی! میں ایسی بہو لاؤں گا آپ کے لیے جو بالکل آپ جیسی ہو، ساری ناز برداریاں کرنے والی۔‘‘ اس کی آواز سن کر اس کے رخسار لال ہونے لگے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ سن رہی ہے،تو وہ چاہتا تھا کہ وہ اس کی ناز اٹھانے والی بیوی بنے۔
’’ سیریسلی!‘‘ وہ زیر لب بڑبڑائی۔
’’ ہم جیسی کہاں ملے گی بیٹا! وہ زمانے ہی الگ تھے،اور کیا کہا تم نے؟
آپ فکر نہ کریں، میں بہو لاؤںگا۔‘‘ عالیانہ سنبھل کر بیٹھ گئی اور فون کو مزید کان کے اندر کھسکالیا۔ فاخر کی امی کی آواز ایک دم بدل گئی تھی۔
’’سوچنا بھی نہیں اس بارے میں ۔ اکلوتے بیٹے ہو تم میرے۔ ہزار دیکھ کر ایک چاند کا ٹکڑا میں پسند کرکے لاؤں گی اپنی بیٹے کے لیے۔ سمجھے۔؟یہاں وہاں نگاہ دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے، اور مٹھائی دینے جاؤ آپا کے گھر،نیچے ٹیبل پر رکھی ہے۔ میں کمرہ ٹھیک کرکے آتی ہوں۔‘‘
’’جی ،اچھا دے کر آتا ہوں ۔‘‘ کہہ کر بغیر اس سے خداحافظ کہے اس نے فون کٹ کردیا۔وہ شاید ڈرگیا تھا۔وہ اپنی مزید بے عزتی اسے نہیں سنوانا چاہتا تھا۔
’’ہمم ڈرپوک!مطلب بائے تک نہیں کہا۔‘‘ وہ برا منہ بناتی بڑبڑانے لگی۔
’’پتہ نہیں ،اس کی امی کو جب میرے بارے میں پتہ چلےگا تو وہ کیسا ری ایکٹ کریںگی۔‘‘ وہ سوچ رہی تھی۔
’’ نہیں! وہ فاخر سے بہت محبت کرتی ہیں ۔وہ اسے انکار نہیں کریں گی۔‘‘ وہ خود کو تسلی دےرہی تھی۔
’’اور اگر انھوں نے انکار کردیا تو؟‘‘اس کے وجود میں کسی نےکہا۔وہ کانپ گئی۔
’’نہیں! بالکل نہیں ۔‘‘وہ ایسا سوچنا نہیں چاہتی تھی۔وہ ساری الجھنو ں کو جھٹکتی دوبارہ کتاب کھول کر بیٹھ گئی اور کچھ ہی دیر میں دوبارہ اپنی دنیا سے دور ناول میں چلتی کسی اور ہی دنیا میں محو ہوگئی۔
آبیدہ خالہ کل رات کو ہی پربھنی کے لیے واپس نکل گئی تھیں۔ زارا بیگم نے انھیں بہت روکنے کی کوشش کی ،لیکن وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر آنے کی وجہ سے رُک نہ سکیں۔ عالیانہ کو ان کے آنے کےمقصد کی بھنک بھی زارا بیگم نے نہ پڑنے دی تھی۔ وہ جتنی جذباتی لڑکی تھی ،وہ جانتی تھی کہ وہ ضرور کوئی ہنگامہ کرےگی۔ جو وہ اپنے بہن کے سامنے ہونے نہیں دینا چاہتی تھیں۔
’’ذیشان نماز میں دیر ہورہی ہے بیٹا !جلدی نکلو گھر سے۔‘‘ زارا بیگم اپنے چھوٹے بیٹے کو آواز دیتی ہوئی کچن سے چائےکی ٹرے پکڑے نکلیں۔ مشرقی مسلم ماؤں کی طرح ان کا بھی سب سے بڑا مسئلہ اپنے بچوں کو نماز کی یاددہانی کروانا تھا۔
’’ہاں !بس نکل رہا ہوں ۔ابھی کچھ وقت باقی ہے جماعت میں۔‘‘وہ دالان میں صوفے پر لمبا لیٹا،موبائل میں گیم کھیلتا بہانے بنانے لگا۔ وہ بالکل عالیانہ جیسا تھا۔ دراز قد، خوش شکل اور بہت بولنے والا۔وہ ٹرے سنبھالتی دالان میں آئی۔
’’کوئی وقت نہیں ہے ابھی۔بابا جاچکے ہیں ۔ تم نکل رہے ہو یا چپل اٹھاؤں میں؟‘‘ وہ چپل کا نام سنتے ہی جھٹکے سے کھڑا ہوگیا۔امی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔وہ صرف کہتی نہیں تھیں، لگا بھی سکتی تھیں۔
’’ممی یار !بڑا ہوگیا ہوں میں۔کچھ تو مروت دکھائیں اب۔‘‘
’’صرف قد ہی بڑھ رہا ہے تمھارا۔عقل نہیں بڑھی۔جس دن نماز کےلیےوقت پر مسجد جاؤگے،اس دن مانوںگی کہ سچ مچ بڑے ہوگئے ہو۔‘‘ وہ برا منہ بناتا باہر نکل گیا۔اس کی بے عزتی اس گھر میں عام بات تھی۔گھر کا چھوٹا بیٹا جو تھا۔وہ سیڑھیاں چڑھتی اوپر عالیانہ کی کمرے کی طرف جانے لگی۔اوپر تین کمرے تھے۔ارمان کا، امان اور ذیشان کا مشترکہ کمرہ اور تیسراکونے والا کمرہ اس کاتھا۔
انھیں اس سے اپنے بھانجے دانش کے رشتے کے بارے میں بات کرنی تھی۔ وہ رشتہ جو وہ اپنی بہن کے ساتھ پکا کرچکی تھیں ۔بس رسمی طور پر اس کی ہامی چاہیے تھی ۔ وہ جانتی تھیں کہ اسے سمجھانا اور شادی کے لیے منانا آسان نہیں تھا، لیکن خیر وہ بھی اس کی ماں تھیں۔ انھیں پتہ تھا کہ اسے کس طرح راضی کیا جاسکتا تھا۔ وہ سارا پلان سوچتی کمرے میں داخل ہوئیں لیکن ان کے پاؤں دروازے کی چوکھٹ پر ہی زنجیر ہوگئے۔
وہ کمرے میں نہیں تھی!
انھوں نے نگاہیں موڑ کر چاروں طرف دیکھا۔ کمرہ خالی تھا۔ کتاب بھی درمیان سے مڑی ہوئی بیڈ پر پڑی تھی۔ فون بھی وہیں بیڈ کی دائیں طرف سائیڈ ٹیبل پر چارجنگ پر لگا تھا۔ وہ شاید واش روم گئی تھی۔ زارا بیگم گہری سانس لیتی سائیڈ ٹیبل پر ٹرے رکھنے لگی۔ تبھی اس کاچارجنگ پر لگا فون بجنے لگا۔ اسکرین پر ’’فاخرہ کالنگ‘‘ جل بجھ رہا تھا۔
’’یہ فاخرہ کون دوست ہے اس کی؟‘‘ انھوں نے بڑبڑاتے ہوئے فون چارجنگ سے نکالا اور ہرا بٹن پریس کیا۔ ابھی وہ کچھ کہتی کہ سامنے والا کہنے لگا:
’’کیا ہوا عالیانہ! پھر ناراض ہوگئیں تم؟ کب سے کال کررہا تھا، اٹھا نہیں رہی تھیں۔‘‘ فاخر اپنی رو میں کہے جارہا تھا۔ ایک اجنبی لڑکے کے منہ سے اپنی بیٹی کا نام سن کرزارا بیگم کی سانس رکنے لگی ۔
’’ارے ممی آگئی تھیں ،اس لیے فون کاٹ دیا تھا۔ ویسے آپس کی بات ہے، مجھے لگتا ہے میری آدھی زندگی تمھیںمناتے ہی گزر جائےگی۔ ‘‘ وہ مسکراہٹ دبائے کہہ رہا تھا۔اس کاارادہ اسے ستانے کا تھا۔ زارا بیگم کا فون والا ہاتھ تھرتھرانے لگا۔ان کی آواز نکلنی بند ہوگئی تھی۔
’’کیا عالیانہ اس لڑکے کو جانتی ہے؟کیا وہ اور یہ…‘‘ان کا دل اس سے آگے سوچنا نہیں چاہتا تھا۔وہ ماں تھی۔ ہر جرم ہر گناہ کو جاننے کے بعد بھی معاف کرنے والی۔
’’عالیانہ !کچھ تو کہو۔کب سے میں ہی بولے جارہا ہوں۔‘‘وہ اس کی لمبی خاموشی کا عادی نہیں تھا۔
’’تم بیوی بننے سے پہلے ہی مجھے پاگل کردوگی یا!ر کچھ تو کہو۔‘‘ وہ زچ ہورہا تھا۔
’’اوکے ،میں جانتا ہو تم ناراض ہو، لیکن پرامس میں آئندہ تم سے بات کرتے وقت فون نہیں کٹ کروں گا۔ اب تو کچھ بولو!‘‘ وہ ہار مان رہا تھا۔یہ اس کا منانے کا طریقہ تھا،لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ وہ اس کی بات سن نہیں رہی تھی۔
زارا بیگم کے ہوش مکمل اڑ چکے تھے۔ انھیں لگا جیسے انھیں چکر آرہا ہو۔ ان کے ہاتھ سے فون پھسل گیا اور ہتھیلی گرم چائے کے کپ سے جالگی۔ گرماگرم چائے کاکپ ٹیبل پر گر پڑا۔ساتھ ان کا ہاتھ بھی گہرا جل گیا تھا ،لیکن درد کا کوئی احساس ان کے جسم پر نہیں ہوا۔ شاید روح کا درد جسم پر لگے زخم سے کافی زیادہ تھا۔ انھیں اس کے کمرے میں گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ جلے ہاتھ سے سر پکڑتی وہاں سے بھاگنے لگی ۔تبھی دروازے میں وہ کسی ہیولے سے ٹکراگئی۔
’’افف مرگئی امی!‘‘ عالیانہ کا سر شاید ان کے سر سے ٹکرایا تھا۔وہ پیشانی دباتی پیچھے ہوئی۔ درد میں بھی سب سے پہلے اس کے منہ سے ’’امی‘‘ ہی نکلا تھا، اور امی سے ہی اس نے اتنی بڑی بات چھپائی۔
زارا بیگم ان جان نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ اسے سامنے کھڑی لڑکی کوئی اور لگی۔
’’نہیں ،یہ میری بیٹی نہیں ہے۔ یہ تو کوئی اور ہے۔‘‘ وہ ان جان نگاہوں سے اسے بغیر پلک جھپکائےدیکھے جارہی تھیں۔
’’ کسی لڑکے سے چھپ کر بات چیت۔افئیر؟ نہیں !یہ وہ نہیں تھی ۔جسے میں نے دعاؤں میں گڑگڑاکر مانگا تھا۔ ‘‘وہ بغیر لب ہلائے خالی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ عالیانہ کو وہ ٹھیک نہیں لگیں۔
’’ یہ وہ نہیں تھی جس کے لیے میں نےموت کے منہ کا سفر طے کیا۔ یہ تو کوئی اور تھی۔ کوئی ہیولا سا۔ میری بیٹی کہاں گئی؟ میں نے…میں نے کب کھودیا اسے؟مجھے پتہ کیسے نہ چلا؟یااللہ! میں نے کب کھودیا اسے؟‘‘ وہ اللہ سے شکوہ کررہی تھیں۔ان کی آنکھیں بے یقینی سے پھیلی اس کے چہرے پر ٹکی تھیں۔
عجیب بے یقینی سی بے یقینی تھی۔
’’ممی! کیا ہوا؟ آپ کو بھی لگا کیا؟‘‘ وہ پریشانی سے ماں کا چہرہ دیکھتی پوچھنے لگی۔ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ اسے ٹھیک نہیں لگی تھیں۔
’’ممی! کیا ہوا؟ آپ ٹھیک نہیں لگ رہی ہیں۔‘‘ اس نے حیرانی سے ان کاہاتھ پکڑا جسے انھوں نے جھٹکے سے چھڑایا، اور ڈبڈبائی آنکھوں سے اس پرآخری نگاہ ڈالی اوربغیر جواب دیے اپنےکمرے کی طرف چلی گئیں۔عالیانہ کو ان کا اس طرح حقارت سے اپنا ہاتھ چھڑانا عجیب پریشان کن لگا ۔
’’ممی کو اچانک کیا ہوگیا؟ وہ تو ابھی ٹھیک تھیں۔‘‘ وہ سوچتی ہوئی کمرے میں آئی۔ کمرے کی حالت دیکھ کر اس کا سر گھومنے لگا۔
اس کا موبائل زمین پر گرا تھا۔ جس پر چائے بہہ رہی تھیں۔ساتھ چائے کا کپ بھی زمین پر ٹوٹا ہوا اس کا منہ چڑارہا تھا۔ وہ دم بخود چلتی ہوئی بیڈ کے قریب آئی۔
’’یہ سب کیا ہوا؟‘‘ وہ حیرانی سےخود سے کہہ رہی تھی یا ٹوٹے ہوئے کپ کی کرچیوں سے ،وہ ابھی یہ سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس نے جھک کر چائے میں ڈوبا موبائل اٹھایا،اور اسے کھولا۔شکر کہ اس کاموبائل کھل گیا تھا۔ اس نے لاسٹ کال چیک کی۔
’’ فاخرہ کالنگ…‘‘
وہ اس سے بات کرکے فون کٹ ہوجانے کے بعد واش روم گئی تھی، اور اتنی دیر میں اس کی دنیا میں ایک نیا عذاب آچکا تھا۔وہ لاسٹ کال پر واپس فون کرنے لگی۔ کچھ دیر بیل بجنے کے بعد فون اٹھالیا گیا ۔
’’ہیلو عالیانہ ! تم ٹھیک ہو ناں؟‘‘ وہ فکر سے پوچھ رہا تھا۔
’’تم نے…تم نے پھر فون کیا تھا؟‘‘ وہ کسی خواب کے زیر اثر اس سے پوچھ رہی تھی۔ساتھ من ہی من دعا کررہی تھی کہ وہ منع کردے۔ کہہ دے کہ نہیں کیا تھا۔
’’ہاں کیا تھا،لیکن تم مجھے بتاؤ تم ٹھیک ہو؟تم جواب کیوں نہیں دے رہی تھیں میراعالیانہ؟ اور…اور کیا ٹوٹا تھا؟ کوئی کانچ ٹوٹنے کی آواز آئی مجھے۔میں کتنی آوازیں دے رہا تھا۔تم کچھ نہیں بولیں۔‘‘ وہ واقعی پریشان لگ رہا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوا ہے،اور وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس کا جواب سن کر وہ پلنگ پر ڈھے گئی۔
’’فاخر!‘‘ اسے اپنی آواز دورسے آتی محسوس ہوئی۔
(جاری…)

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

9 Comments

  1. Sana yameen baig

    Zabardast

    Reply
  2. عنایہ صدیقی

    ماشاءاللہ۔۔کہانی کا پلاٹ بہت خوبصورتی سے لکھا گیا ہیں۔
    پڑھنے میں بہت مزہ آرہا ہیں۔

    Reply
    • اریشہ تقدیس

      جزاك اللهُ‎ عنایہ ۔اتنی دلچسپی سے پڑھنے کے لیے۔

      Reply
  3. Adrees jahan

    افف
    کہانی کی پختگی واقعی قابل تعریف ہیں۔
    آپ کی پچھلی کہانیوں سے کچھ منفرد ہے۔لیکن مزیدار ہے۔
    دیکھتے ہیں کہانی آگے کیا موڈ لیتی ہیں۔

    Reply
  4. زوبیہ ار م مسکان

    کہانی بہت زبر دست جارہی ہے اریشہ آپی۔۔۔!
    اگلی قسط کی منتظر رہوگی۔۔!

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴