جون ۲۰۲۴

ملکی منظرنامہ

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

ہمارے’’مہان بھارت‘‘ میں گذشتہ دس سال سے آرہے’’اچھے دن‘‘ میں عوامی تحفظ، روزگار کی فراہمی اور مہنگائی جیسے موضوعات کہیں سرخیوں میں نظر نہیں آئے، کیوں کہ ہمارے بھاری لیڈر نے’’اسمارٹ بھارت‘‘کا لائحۂ عمل اتنا شان دار تیار کیا تھا، جس میں غریبوں کے وہ موضوعات جو ان کے دردِ سر کا باعث ہوں، کیونکر موجود ہوتے۔ ہمارے محترم حکمران نے بہت کوشش کی لوگوں کے ذہن پر قابض ہونے کی اور اپنے جھوٹے وعدوں سے ان کو قائل کرنے کی، مگر عوام نے ان دس سالوں میں اپنے لیڈر کو جیسا پایا ویسا ہی بتایا،یعنی:’’بات کروڑوں کی دکان پکوڑوں کی۔‘‘
ان کے اپنے ہی ’’گودی لوگوں‘‘ نے جب اپنی حرکت کے ذریعے ہر وہ ثبوت پیش کردیا جو ان کو بےوقوف کہنے کے لیے کافی ہے تو معصوم ذہنوں پر طاری طلسم ٹوٹنے میں ایک لمحہ نہ لگا اور اب جب ملک کے کونے کونے سے صدائے احتجاج ان کے کانوں پر پڑرہی ہے تو سارے کے سارے ہل گئے ہیں، اور نئے سبز باغ دکھانے کی حتی الامکان کوشش میں ہیں، مگر اب کیا ’’جب چڑیا چگ گئی کھیت‘‘بس یہی منظر الیکشن 2024 ءمیں رہا۔

دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے

حاکمِ وقت کی عوام کے حق میں دی گئی ہر گارنٹی اس وقت بے معنی ہوجاتی ہے جب ایک باشعور انسان ملک میں بڑھتے ہوئے آتش زدگی کے واقعات پر نظر کرتا ہے۔ مئی میں ہوئے غیر معمولی آتش زدگی کے واقعات نے ہر کسی کے ہوش اڑا دیے۔ ایسے میں عوامی تحفظ ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے اور لیڈر کی ان تمام غیر معمولی واقعات پر خاموشی عوامی جذبات کو بغاوت کی ہوا دے رہی ہے۔ یہ معصوم لوگ انصاف کے خواہاں ہیں، جنھیں بہلا پھسلا کر معاملہ تو ٹھنڈا کردیا جاتا ہے، مگر انصاف کے تقاضے اب بھی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ دہلی اور راجکوٹ میں ہوئے آتش زدگی کے واقعات میں جو معصوم لقمۂ اجل ہوئے ان کا کیا قصور تھا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی جاننا چاہتا ہے مگر جواب ندارد ہے۔ دہلی کے اسپتال میں لگی وہ خطرناک آگ جس میں 7 نومولود دنیائے فانی سے رخصت ہوئے ،ان کے ساتھ انصاف کون کرے گا؟ راجکوٹ کے امیوزمنٹ پارک میں لگی وہ بھیانک آگ جس میں 27 لوگوں نے اپنی جانیں گنوادیں۔ بہار میں ہوا اے سی بسٹ کا معاملہ ہو یا گرمی سے بس میں آگ بھڑک اٹھنے کا معاملہ ہو، سبھی اپنے آپ میں واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ لفظ ’’تحفظ‘‘ ہی مجروح ہوگیا ہے۔ حکومت کو فوری طور پر عوامی تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ حکومت کا ان واقعات سے چہرہ پھیر لینا ان کے سفاک ہونے پر یقین کی مہر ثبت کررہا ہے۔ اگر آپ غریبوں کی بات نہیں کرسکتے اور فقط اپنی ’’موڈانی یاری‘‘ میں مست ہیں تو آپ کو عوام کے ووٹ خریدنے کا بھی حق قطعاً نہیں ہے۔ اگر آپ غریبوں کو انسانیت کی عینک سے نہیں دیکھتے تو ان غریب عوام کی پسینے سے بھیگی کمائی ہڑپ لینے پر آپ یقیناً بددعاؤں کے مستحق ہیں۔ ملک میں معصوموں کی قیمتی جانیں جس نہج پر ضائع ہورہی ہیں اور جس طرح کچھ علاقوں میں انسانیت کا گلا گھونٹا گیا ہے، بےحد شرم ناک ہے۔

اس شہر میں اب ضمیر بکتے ہیں

حال ہی میں ملک کی ٹاپ سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی زمین فروخت کرنے کا جو معاملہ منظر عام پر آیا ہے، اس نے حقیقتاً ہوش اڑانے کا کام کیا ہے۔ ایسے میں جامعہ کے طلبہ کی مخالفت سے ایک شمعِ امید روشن ہوئی ہے کہ نوجوانوں میں حق کے لیے آواز بلند کرنے کا جذبہ ابھی مرا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فروخت یونیورسٹی کے مفاد میں نہیں ہے، ساتھ ہی اس لین دین کی شفافیت پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسی سینٹرل یونیورسٹی جو تشنگانِ علم کی سیرابی کا کام کرتی ہے، اسے گھیرے میں لےکرسیاسی داؤ پیچ کھیلنا کہاں کا انصاف ہے؟کیا واقعی درس گاہوں کے سلسلے میں‌بھی اب ضمیر کو زندہ رکھنے کی تگ و دو کرنی ہوگی؟

عالمی منظر نامہ

اپنے بندوں سے تو پندارِ خدائی لے لے !

ارضِ مقدس فلسطین میں گذشتہ سات ماہ سے جاری معرکۂ حق و باطل میں ایک کرب ناک منظر ہمیں دیکھنے مل رہا ہے، جس سے پوری انسانیت شدید صدمے کا شکار ہے۔ غزہ میں ہورہے مسلسل لرزاں خیز مظالم کا مقابلہ کررہی عظیم الشان فلسطینی قوم جو رفیوجی کیمپ میں پناہ گزیں تھیں ،وہاں ظالموں نے شدید بمباری کرکے سبھی کو خون کے آنسو رلا دیے۔ یہ مظلومین جو امن و سکون کی تشنگی میں رفیوجی کیمپ میں کسی قدر خوش فہمی کا شکار تھے کہ انھیں سایۂ امن نصیب ہوا ہے،باطل قوتوں نے جارحیت کی ساری حدیں پھلانگتے ہوئے ان زخمی روحوں کو بھون کر رکھ دیا۔ انبیاء کی سرزمین خون سے رنگین ہے۔ جگہ جگہ انسانی اعضاء بکھرے پکڑے ہیں۔ معصوموں کی لاشوں کا انبار ہے، جو جنت کے سفر پر گام زن ہے۔ تڑپتی سسکتی مائیں اپنے لختِ جگر کو تھامے انصاف کے لیے چیخ رہی ہیں۔ ایسے میں مسلم ممالک کی خاموشی مجرم کی سی معلوم ہوتی ہے۔ایک طرف قیامت کی سی قیامت ہے اور دوسری طرف مسلم ممالک میں اب بھی فقط زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی امدادی جذبہ نظر نہیں آرہا۔

ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو

فلسطین کے حق میں مغربی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے جو صدائے احتجاج بلند کی ہے ،وہ تمام خاموش مسلم ممالک کے چہرے پر زوردار طمانچہ ہے۔ بالخصوص مشہور زمانہ نیویارک، جارج واشنگٹن، آکسفورڈ اور کولمبیا یونیورسٹیز کے طلبہ تاریخ رقم کررہے ہیں۔ پوری دنیا ان کے ہمت و حوصلے کی معترف ہے اور سلام پیش کرتی ہے، جب کہ دوسری جانب بزدل مسلم ممالک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا بیٹھے ہیں۔
قارئین کرام! ملکی و عالمی سطح پر حالات جس زاویے پر ہیں اس میں ہم کس طرح مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں اس پر سوچنا چاہیے۔ اگرچہ عالمی سطح پر ہمارے لیے تگ و دو کرنا ممکن نہ ہو مگر ملکی سطح پر ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا ہمارا فرض ہے، اور ناانصافی کے خلاف عَلم انصاف تھام کر حق گوئی بھی ایک باشعور اور دانش مند انسان ہونے کی کھلی گواہی ہے۔ فلسطین کے لیے کچھ کر گزرنے کی خواہش ہے تو سب سے بڑی مدد یہ ہوگی کہ اسرائیلی چیزوں کا مکمل بائیکاٹ کریں اور انھیں معاشی ضرب لگاکر چاروں شانے چت کردیں۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان مسائل پر ضرور بولیں جو ناانصافی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور اپنے ضمیر کے زندہ ہونے کا ثبوت دیں ،تاکہ وقت آنے پر آپ فخر سے کہہ سکیں کہ:

میں جھکا نہیں میں بکا نہیں کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴