جون ۲۰۲۴

فظ تاثیر سے بنتے ہیں، تلفظ سے نہیں۔ رشتوں کی طرح کچھ لفظوں میں بھی تاثیر ہوتی ہے، جن کو ادا کرتے ہی بہ یک وقت کئی جذبات و احساسات اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔ یہ وہ لفظ ہے جو سراپا الفت و محبت کا نمونہ، جسے الفاظ میں قید کرنا نا ممکن ہے۔

ہمت، شفقت ،چاہت ،قربانی
یک جالکھوں تو بابا جانی

والد، یہ وہ عظیم ہستی ہے جسے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ باپ چاہے جتنا بھی بوڑھا ہو جائے، وہ ہمیشہ گھر کا مضبوط ستون کہلاتا ہے۔ والد ایک ایسا دروازہ ہے، جو بیٹیوں پر آنے والی ہر مصیبت و آزمائش کا تنِ تنہا مقابلہ کرنے کی مقدرت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسی چٹان ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ لاکھ کھوکھلی ہو جائے، مگر ظاہراً پر حوصلہ اور باہمت نظر آتی ہے۔ بابا وہ جگنو ہے جس کی رہ نمائی میں بیٹیاں اپنے خوابوں کی تعبیر پاتی ہیں۔ ابو وہ آہنی در ہے جس کے حصار سے بڑھ کر کوئی اور دنیاوی در محفوظ نہیں۔ والد چھت کی مانند ہے، جو زمانے کی ہر آندھی اور طوفان سے اپنی نازک بیٹیوں کو بچائے رکھتا ہے۔ یہ وہ جذبۂ محبت ہے جو صنفِ نازک کو اس قدر طاقت و توانائی بخشتا ہے کہ وہ صنفِ آہن بن کر ابھرتی ہے۔ دنیا کی نظروں میں چاہے وہ عام حیثیت رکھتا ہو مگر اپنے گھر کا وہ سلطان ہوتا ہے۔ بیٹیوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ جب کبھی زندگی ہمیں ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں سب کچھ ختم ہوتا نظر آئے ، ہمارے حوصلے پست ہو جائیں ، نکلنے کی راہیں مسدود ہوتی نظر آئیں تو ایسے نازک لمحے میں اپنے بابا کی رفاقت اوران کے ساتھ کی مثبت سوچ ہی نادیدہ طاقت و قوت سے نوازتی ہے۔ ان سے کیے گئے مشورے عقل و فہم کے در وا کرتے ہیں ،جنھیں ہم اپنی پریشانی میں یکسر فراموش کر بیٹھے تھے۔ یہ ہستی بظاہر تو کبھی کھل کر اپنے جذبات کا برملا اظہار نہیں کرتی ،مگر اس کے باطن میں پوشیدہ جذبات و احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود ہوتا ہے، جو بغیر کچھ کہے بھی بہت کچھ کہہ اور سکھلا جاتا ہے۔ والد وہ ان مول ہستی ہے جو اپنی ذات کو گھلا کر بیٹی کی کامیابی کا زینہ بنتا ہے۔ بیٹی کی کامیابی پر پہلی تالی بھی وہی بجاتا ہے اور ناکامی پر پہلے اشک بھی وہی پوچھتا ہے۔ لاکھ پریشانیوں اور فکروں میں گھرے رہنے کے باوجود انھیں خندہ پیشانی سے قبول کرنا اور چہرے پر اس کا شائبہ تک نہ لانا کوئی ان سے سیکھے۔ یہ بات سراسر غلط ہے کہ بیٹیاں باپ پر بوجھ ہوتی ہیں، درحقیقت باپ کو اپنے دل پر بوجھ تو اس وقت محسوس ہوتا ہے جب ان کی نازوں میں پلی گڑیا اپنے آشیانے سے اڑنے کی تیاری پکڑتی ہے۔ کوئی بھی باپ کی اس شدت برداشت کا اندازہ نہیں لگا سکتا جب وہ اپنی عمر بھی کی جمع پونجی کسی اور کو تھما رہا ہوتا ہے، اس یقین و اعتبار کے ساتھ کہ وہ اس کی بیٹی کی آنکھ میں کوئی آنسو آنے نہیں دے گا۔ اپنے خدشات کو وہ جان دار مسکراہٹ سے چھپا لیتا ہے۔
ہمیں سخت حیرت ہوتی ہے ان لڑکیوں پر جو وقتی جذبے کے زیرِ اثر اپنے باپ کی عزت کو خاک میں ملاتے کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔ جن شفیق ہاتھوں نے انھیں پروان چڑھایا، انھیں سرد مہری سے جھٹک کر گھاٹے کا سودا کر بیٹھتی ہیں۔ ہماری چھوٹی سے لغزش انھیں چند دنوں میں بوڑھا بنا دیتی ہے۔( یہ ایک طویل و وقت طلب نکتہ ہے۔ )
یہ ہم بیٹیوں کا فرض ہے کہ اپنے بابا کے فخر و مان کو قائم رکھیں۔ جنت کے دروازے کو اطاعت و فرماںبرداری کی کنجی سے کھولیں۔ لامحدود خوشیوں و مسرتوں کو آپ اپنامنتظر پائیں گی، ان شاء اللہ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴