جون ۲۰۲۴

َقَدۡ مَنَّ اللٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ  ۚ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞

(درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود ان ہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔(سورۂ آل عمران : 164)

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صاف صاف فرمایا ہے کہ محسنِ انسانیت کی بعثت کا اک اہم مقصد تعلیم و تربیت بھی ہے۔انسان کو اس زمین کا خلیفہ بنایا ہے اور اس خلافت کی ذمہ داری کو حسن وخوبی کے ساتھ ادا کرنے کے لیے انسان کی تعلیم اور تربیت کی ضرورت کو اللہ نے انبیاء علیہم السلام کو ہر زمانے میں مبعوث کیا اور اس امت کی تعلیم وتربیت کے لیےنبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ امت کے ہر فرد کی تربیت ایسی ہوکہ وہ اعلیٰ اخلاق و کردار کا حامل انسان بنے ،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن یہ بھی تھا کہ ایسے صالح افراد تیار ہوں جو رہتی دنیا تک کے لیے ایک مثال بن جائیں اور اک صالح انقلاب کے نقیب بنیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی اور سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی تربیت اس طرح کی کہ وہ نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی دین کے محافظ بن کے اٹھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تر بیت کا سب سے پہلا ذریعہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور کردار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اس طرح قرآن کے مطابق تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کر ہی سیکھ لیتے تھےاور دوسری چیز قرآن کو تربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کیا۔جیسا کہ آیت میں فرمایا گیا کہ وہ قرآن کی آیات تلاوت کرتا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فہم وفراست اللہ نے عطا کی تھی، اس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت حکیمانہ انداز میں لوگوں کی تعلیم و تربیت کی۔ قرآن کو اول دن سے تربیت کا ذریعہ بنایا اور قرآن سے مضبوط تعلق قائم کرنے کی نصیحت کی اور خود قرآن کا عملی نمونہ بن کر دکھایا۔جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکیمانہ انداز یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی آیات کی نہ صرف تلاوت کرتے بلکہ اس پر غور وفکر بھی کرتے، اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے ،اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو بدلنے کی بھی نصیحت کرتے تھے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مسجد میں لوگ دو گروہ میں بٹے تھے، ایک گروہ قرآن کےدرس وتدریس میں مشغول تھا اور دوسرا ذکر وتسبیح میں ،آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جو ذکر کا گروہ ہے یہ بھی خیر وبھلائی کے کام میں مشغول ہے ،لیکن جو لوگ قرآن کے درس وتدریس کر رہے ہیں وہ لوگ جہالت کے اندھیروں کو دور کرکے علم وحکمت کی روشنی پھیلا رہےہیں، اور مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس حلقہ میں بیٹھ گئے اور اسی مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ میں دارِ ارقم کو تعلیم وتربیت کا مرکز بنایا اور مدینہ میں صفّہ کو(جو کہ مسجدِ نبوی سے متّصل ایک چبوترہ تھا) اس کا مرکز بنایا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تعلیم کو عام کرنے اور اس کے ذریعہ تربیت کرنے کا انتظام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ و تلقین اور قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق وکردار کے ذریعہ لوگوں کی ذہن سازی کی اور اس میں مرد،عورتیںاور بچے سبھی شامل رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختصر خطاب میں جامع نصیحت کرتےاور اس انداز سے کرتے کے سننے والے پوری طرح متوجہ ہو جاتے۔مثال کے طور پرایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ،صلہ رحمی کرواور راتوں کو قیام کرو تو تم جنت میں داخل ہوجاؤگے۔(جامع ترمذی)
اس طرح مختصر الفاظ میں اسلام کی تعلیم پیش کردی گئی۔اسی طرح جہاد پر ابھارنے کے لیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں نے معراج کے موقع پردیکھا کہ کچھ لوگ کھیت کو کاٹ رہےہیں، جب وہ آخری سرے پر پہنچتے ہیں تو اپنے کھیت کو پھر ہرا بھرا پاتے ہیں ،اس طرح یہ عمل ہوتا رہتا ہے۔جہاد کرنے والوں کو اسی طرح کبھی نہ رکنے والا اجر ملےگا(سیرتِ ہشام،واقعۂ معراج)
اس طرح آسان مثالوں کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل نشین نصیحت فرماتے،جیسا کہ نماز کی تلقین کے لیےدن میں پانچ مرتبہ نہانے کی مثال۔(بخاری)
اور امر بالمعروف ونہی عن المنکرکے لیے کشتی کی مثال بیان کی کہ اگر ایک کشتی میں اوپر اور نیچے دو حصّے ہوں، اور نیچے والے پانی کے لیے اوپر جاتے ہوں اور اوپر والوں کو یہ ناگوار گزرے، جس کی بنا پر نیچے والے اگر کشتی میں سوراخ کرنے لگیں ،اب اگر اوپر کے حصّے والے ان کو ایسا کرنے سے نہ روکیں تو سب غرق ہو جائیں گے۔(بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم وتربیت کے معاملے میں خواتین اور بچوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا،بلکہ ان کے لیے الگ سے نصیحت کرتے۔جمعہ اور عیدین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواتین کے لیے الگ سے خطبہ دیا کرتے تھے۔(متفق علیہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی تربیت کے لیے اپنی ازواج کو بھی ذریعہ بنایا، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی فہم وفراست سے بہت سے مسائل کو حل کیا کرتی تھیں اور جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتیں وہ دوسروں تک ضرور پہنچاتیں ،اور یہی طریقہ دوسری ازواج اور صحابیات رضی اللہ عنہن کا تھا۔
بچوں کی تربیت کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو سات سال کی عمر میں نماز کی تلقین کرو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر سختی کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ بچوں کے حق میں سب سے قیمتی تحفہ ان کی اچھی تعلیم وتربیت ہے۔(ابن ماجہ)
جب کہ آج کے والدین بچوں کو قیمتی فون اور اسمارٹ واچ کا تحفہ دیتے ہیں اور بعد میں نافرمانی کا گلہ کرتے ہیں۔
امّ المؤمینن حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر کے صاحبزادے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرِ تربیت دس سال رہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، لیکن کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے زاری اور نفرت کا کوئی کلمہ نہیں کہا اور اگر مجھ سے غلطی ہو جاتی توبھی یہ نہیں پوچھا کہ تم نے یہ غلطی کیوں کی؟مزید وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ انھیں’’اے میرے بیٹے!‘‘ کہہ کرپیار سے بلاتے۔(بخاري و مسلم)
الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین مربی ومزکی تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےخوش خلقی،صلہ رحمی،سچائی،دیانت داری،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور عفو ودرگزر کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ عملی طور پر کر کے بھی دکھایا، اسی طرح برے اخلاق مثلاًجھوٹ،بد عہدی،چغلی،بدظنی،والدین کی نافرمانی،رشتہ داروں سے قطع تعلقی جیسی حرکتوں سے منع فرمایا۔
معاملہ چاہے ذاتی ہو یا سماجی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر فرد کی اصلاح و تربیت میں حکمت و نرمی کا شیوہ اختیار کیا۔ایک مرتبہ ایک اعرابی(دیہاتی)نے مسجد کے صحن میں پیشاب کر دیا ،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس کو ڈانٹنے کے لیے دوڑے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا اور فرمایا کہ وہاں پانی بہادو ۔پھر اس شخص کو بلایا اور مسجد کے آداب نہایت نرمی سے سمجھائے۔(متفق علیہ،راوی: حضرت انس رضی اللہ عنہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی تمام پہلو ؤںکو اجاگر کیا اور ہر حال میں حکمت کو مد نظر رکھا۔آج پوری دنیا میں جو اسلامو فوبیا پھیل رہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرتی مہم چل رہی ہے، ایسے وقت میں ہم امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتر بیت کو عام لوگوں تک پہنچائیں،اور خود اپنے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اسوہ بنائیں، جس کا حکم اللہ تعالی نے قرآن میں دیا ہےکہ تمھارے لیے اللہ کے رسول میں اسوہ یعنی نمونہ ہے۔
(سورۃ الا احزاب : 21)

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴