جون ۲۰۲۴
زمرہ : النور

أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا‌ ؕ اِمَّا يَـبۡلُغَنَّ عِنۡدَكَ الۡكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوۡ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡهَرۡهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوۡلًا كَرِيۡمًا‏ ۞وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًا ۞( سورۃ الإسراء آیت نمبر 23 ، 24)

(تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمھارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بُوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اُف تک نہ کہو، نہ انھیں جِھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔)

حقوق اللہ میں سب سے مقدم رب کی عبادت ہے۔ رب کو ایک جاننا اور اسی کی بندگی کرنا ہی زندگی میں اول ہے۔امام رازیؒ نے اس سلسلے میں ایک جامع بات کہی ہےکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق و ایجاد ہی وہ اصل سبب ہے، جس کی بنیاد پر انسان کا وجود ہے اور اس وجود کے دنیا میں ظاہر ہونے کا سبب والدین بنتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے یہاں اس بات کی تعظیم کا حکم دیا جارہا ہے جو سبب حقیقی ہے یعنی بندگی رب،پھر اس کے بعد انسانی وجود کو ظاہر ہونے کا سبب بننے والے والدین کی تعظیم کا حکم دیا جارہا ہے،مگر والدین کی اطاعت میں یہ حد لگا دی گئی ہےکہ اگر وہ اللہ و رسول اللہﷺ کی نافرمانی و شرک سے متعلق کوئی حکم دیں تو ان کی اطاعت نہ کی جائے۔
سورۂ بنی اسرائیل، آیت 23 اور24 میں مذکور احکام:
والدین کے ساتھ کیسے رہیں؟

  •  ان کے ساتھ نیک سلوک کریں۔
  • انھیں اف تک نہ کہیں۔
  • انھیں جھڑک کر جواب نہ دیں۔
  • ان سے احترام سے بات کریں۔
  • نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہیں۔
  • یہ دعا کریں: اے پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔

والدین کے حقوق کی ادائیگی ہر عمر کے لیے خاص ہے، لیکن یہاں بڑھاپے کا ذکر کیا گیا ہے، جو نہ صرف والدین کی عظمت اور ان کا مقام و مرتبہ واضح کرتا ہے، بلکہ ہر صورت میں والدین کی خدمت کے لیے دلی آمادگی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ یہاں بڑھاپے کا مخصوص ذکر اس لیے ہے کیوں کہ بڑھاپا عمر کی وہ حالت ہوتی ہے جب وہ دونوں حسن سلوک کے محتاج ہوتے ہیں۔بڑھاپے میں انسان کی جسمانی و جذباتی کیفیات بدل چکی ہوتی ہیں، لہٰذا اس عمر میں بنسبت جوانی کے ایام کے،ان کاخیال رکھنا زیادہ اہم قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے پوچھا: ’’یا رسول اللہ! اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟‘‘
آپﷺ نے جواب دیا کہ وہ تمھارے لیےجنت اور دوزخ دونوں ہیں۔(مسلم)

یعنی ان کی اطاعت و فرماں برداری کے ذریعے انسان جنت اور رب کی رضا پاسکتا ہے اور نافرمانی کے ذریعے خود کو دوزخ کا مستحق بنا لیتا ہے۔یہ بشر کی کم زوری و نادانی ہےکہ وہ والدین کے جذبات و احساسات کی ناقدری کرکے اپنے لیے گھاٹے کا سودا کرتا ہے۔
والدین کے حق میں جو دعا اللہ رب العزت نے سکھائی ہے وہ اتنی جامع اور ہمہ گیر ہےکہ جذباتی و نفسیاتی پہلو سے اس سے بہتر کوئی اور انداز نہیں اختیار کیا جاسکتا۔کیوں نہ ہو؟ انسانوں کا رب یہ دعا سکھا رہا ہے ۔
کوئی بھی انسان اپنے والدین کی محنت و مشقت اور شفقت کا اندازہ نہیں کر سکتا اور بغیر اندازے کے الفاظ سے اس کاحق ادا کرنا ناممکن ہے ،تو پھر کون ساذریعہ ہوگا جس سے والدین کے حق میں دعا احساسات کا ترجمان بنے۔وہی دعا جو رب نے سکھائی ہے۔سعادت مند اولاد اپنے احساسات کو رب کے حوالے کرتے ہوئے دعا کرتی ہے:

رَبِّ ارْحَمْھُماَ کماَ رَبَّیاَنِی صَغِیْراً

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴