جون ۲۰۲۴
زمرہ : ٹی ٹائم

ظرف

ابا اچھرا کی مسجد میں بچوں کو بھی جمعے پڑھنے ساتھ لے جاتے تھے ۔
مسجد کے خطیب ایک مولانا صاحب تھے جو ابا کے بہت مخالف تھے ۔ایک جمعے میں ابا سامنے ہی بیٹھے تھے کہ مولانا صاحب بولے :
’’مسلمان یاد رکھو !اگر کوئی مودودیا مرجائے ،اور اس کو دفنادیا جائے،اس کی قبر پر پودا نکل آئے ،اور اس پودے کو کوئی بکری کھالے ،تو یاد رکھو !اس بکری کا دودھ پینا بھی حرام ہے۔‘‘اس کے باوجود ابا ان ہی کے پیچھے نماز پڑھتے ۔
شام کو جماعت کے کارکنان نے ابا سے پوچھا :’’یہ جو لوگ آپ کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کی پیچھے ہم نماز کیوں کر پڑھیں ؟‘‘
ابا نے کہا :’’ان ہی کے پیچھے پڑھیں ،کیوں کہ جتنا قرآن و سنت سے میں واقف ہوں، وہاں کہیں نہیں لکھا جو مودودی کو گالیاں دے، اس کے پیچھے نماز نییں ہوتی ۔دوسرا میرے بارے میں وضاحتیں دے کر اپنا وقت ضائع نہ کیجیے!‘‘

کتاب:شجرہائے سایہ دار،از:حمیرامودودی – 

دل چسپ ترجمے

ماہر صاحب(ماہر القادری) ارادی طور پر ایسے پیارے ترجمے کرتے ہیں کہ طبیعت خوش ہوجائے۔ ایک دفعہ فرمانے لگے کہ تم نے Little sea میں میری غزل سنی ہے ؟ سب چکرا گئے ۔ معلوم ہوا کہ’’ چھوٹی بحر‘‘ میں ۔
جگر صاحب نے ایک بار ماہر صاحب سے کہا کہ تمھارے ترجموں کی بڑی دھوم ہے، ذرا’ ’زندہ باد‘‘ کا ترجمہ تو کرو۔کہنے لگے کیا دلواؤ گے ؟ پانچ روپے پر معاملہ طے ہوا ۔ تھوڑی دیر میں تشریف لائے کہ روپے نکالو ۔ جب روپے نکلوا لیے تب سنایا:’ ’Live wind‘‘، جگر صاحب کی بھی باچھیں کھل گئیں ۔
شوکت تھانوی مرحوم کسی کو نہ چھوڑتے تھے۔ ماہر صاحب سے ان کی نوک جھونک خوب چلتی تھی، لیکن ماہر صاحب نے بھی ان کے نام پر وہ ہاتھ صاف کیا کہ’ ’رہ گئے وہ بھی ہاں کرتے کرتے‘‘، کہا تم تو Grandeur of police station ہو۔ مولانا مودودیؒ کو میں نے جب یہ ترجمہ سنایا، تو ہنسے اور برجستہ فرمایا: ’’واہ واہ! ماہر صاحب تو بالکل ہی Expert of Al-Mighty (ماہرالقادری) نکلے۔‘‘
یہ 1964ء کی نظر بندی کا واقعہ ہے، جب جماعت اسلامی کی پوری مجلس شوریٰ (تقریباً پچاس افراد)جیل میں تھی۔

– کتاب:تذکرۂ زنداں،از:پروفیسرخورشیداحمد

الفاظ کا استعمال

جانوروں کے بچہ کو ہم بچہ ہی کہتے ہیں۔ مثلاً :سانپ کا بچہ ، الو کا بچہ، بلی کا بچہ لیکن اردو میں ان کے لیے جدا جد الفظ ہیں، مثلاً : بکری کا بچہ : میمنا، بھیڑ کا بچہ برّہ، ہاتھی کا بچہ : پاٹھا، الو کا بچہ : پٹھا، بلی کا بچہ : بلونگڑہ،گھوڑی کا بچہ بچھیرا، بھینس کا بچہ کڑا، مرغی کا بچہ: چوزا، ہرن کا بچہ: برنو ٹا، سانپ کا بچہ سنپولا، سور کا بچہ:گھٹیا۔
اسی طرح بعض جان داروں اور غیر جان داروں کی بھیڑ کےلیےخاص الفاظ مقرر ہیں،جو اسم جمع کی حیثیت رکھتے ہیں ؛ مثلاً :طلبہ کی جماعت، پرندوں کا غول، بھیڑوں کا گلہ، بکریوں کا ریوڑ ، گووں کا چونا، مکھیوں کا جھلڑ ، تاروں کا جھرمٹ یا جھومر، آدمیوں کی بھیڑ، جہازوں کا بیڑا ، ہرنوں کی ڈار، کبوتروں کی ٹکڑی ، بانسوں کا جنگل، درختوں کا جھنڈ ، اناروں کا کنج ، بد معاشوں کی ٹولی، سواروں کا دستہ، انگور کا کچھا، کیلوں کی گہل ، ریشم کا لچھا، مزدوروں کاجتھا، فوج کا پرّا، روٹیوں کی تھپی، لکڑیوں کا گٹھا، کاغذوں کی گڈی، خطوں کا طومار، بالوں کا گچھا ، پانوں کی ڈھولی ، کلابتوں کی کنجی۔

– کتاب:فن خطابت،از:شورش کاشمیری

وجود کی دلیل

‏بوڑھے آدمی نے اطمینان سے بسم اللہ پڑھی اور حجام کی کرسی پر بال کٹوانے کے لیے بیٹھ گیا۔بوڑھے کے چہرے پر موجود نرم مسکراہٹ سے حجام کو بات چیت کا حوصلہ ہوا۔
حجام نے کہاکہ دنیا میں بہت سے مذاہب خدا کو مانتے ہیں ،لیکن میں خدا کے وجود کو نہیں مانتا۔
مسلمان بوڑھے نے پوچھا: ’’کیوں نہیں مانتے؟‘‘
حجام نے کہا کہ دنیا میں بہت پریشانیاں، مصیبتیں،بدحالی اور افراتفری ہے۔اگر خدا کا وجود ہوتا تو یہ سب مصیبتیں اور پریشانیاں
بھی موجود نہ ہوتیں۔
بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں بھی اس دنیا میں حجام کے وجود کو نہیں مانتا۔
حجام نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’کیا مطلب؟میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔‘‘ بوڑھے نے حجام کی دکان سے باہر گزرتے ایک گندے اور لمبے بالوں والے شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’کیا تم اس شخص کے لمبے اور گندے بال دیکھ رہے ہو ؟ ‘‘
حجام نے کہا :’’جی ہاں، لیکن اس کا میری بات سے کیا تعلق؟‘‘
بوڑھے نے نرم لہجے میں کہا: ’’اگر حجام ہوتے تو لمبے اور گندے بالوں والے لوگ بھی نہ ہوتے۔‘‘
حجام نے کہا: ’’ہم موجود ہیں، لیکن ایسے لوگ ہمارے پاس نہیں آتے۔‘‘
بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا :’’بالکل۔ خدا بھی موجود ہے لیکن لوگ ہدایت اور عافیت کے لیے خدا کی طرف رجوع نہیں کرتے۔‘‘

معنی خیز غلطی

ایک صاحب پینٹر کے پاس گئے اور اسے اپنی دکان کا بورڈ لکھنے کو کہا۔
پینٹرنے کہا کہ لکھ کردے دیجیے،انھوں نے لکھ کر دیا: ’’ضمیر الدین کتب فروش‘‘
پینٹر جلدی میں تھا، اس نے لکھنے کے بجائے یادکر لیا اور دو دن کے بعد بورڈ پر لکھ دیا:

– ’’ کتب الدین ضمیر فروش‘‘

حیدرآبادی زبان

بزرگ نے بتایا کہ حیدر آباد میں وہ زبان سیکھنے کے لیے چائے خانوں میں جایا کرتے تھے۔ جب ہوٹل کا بیرا آرڈر لینے آتا تو گاہک اسے چائے کا ایک کپ لانے کے لیے کہتا ۔بیراا فورا پوچھتا :’’ حضور! کتنی چینی؟‘‘
گاہک جواب میں کہتا:’’ کھڑا چمچہ۔‘‘ (یعنی اتنی چینی کہ اس میں چمچہ کھڑا ہو جائے) ۔
پھر وہ پوچھتا :’’ حضور! کیسی چائے؟‘‘
اگر چائے میں بالائی ڈلوانی ہوتی تو گاہک کہتا :’’ برقعے والی۔‘‘ اور جب کوئی اچھی چائے طلب کرتا تو بیرا اسسے پوچھتا :’’ جناب! کیسی چائے چلے گی ؟‘‘
تو وہ جواب میں کہتا :’’ حضرت قبلہ والی۔‘‘

– کتاب:سفرنامۂ ہند،از:پروفیسر محمداسلم

اندر کا بڑاپن

کمال کتاب خریدی:’’‏Diary of a diplomat.‘‘
یہ کتاب 1986 ءمیں چھپی تھی۔ کل رات سے اس کتاب کے سحر میں ہوں۔
افضل اقبال 1938 ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور میں اسٹوڈنٹ تھے۔ کالج میگزین’’ راوی‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ گرمیوں کی چھٹیاں آرہی تھیں۔ سوچا کسی موضوع پر ریسرچ کر کے لکھتے ہیں۔ باقی دو دوستوں نے اقبال اور ٹیگور کو چنا۔ افضل صاحب کو مولانا محمد علی جوہر کی تقریروں نے بڑا متاثر کیا تھا۔ انھوں نے اپنے اِن چارج سے بات کی۔ وہ خوش ہوئے اور انھیں مولانا کے ہم عصروں کے نام اور ایڈریس دیے کہ انھیں لکھو اور ان سے تفصیلات منگوائو۔
نوجوان نے بڑے جوش سے مولانا ابوالکلام آزاد، جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ذاکر حسین، ڈاکٹر محمود حسین، عبدالماجد دریا آبادی ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، چوہدری خلیق الزماں اور ریاست بھوپال کے وزیرتعلیم شعیب قریشی کو خط لکھے اور بے چینی سے ان کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ دن گزرتے گئے، لیکن کسی کا جواب نہ آیا۔ چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں۔
نوجوان جو ’’راوی‘‘ کا اسسٹنٹ ایڈیٹر بن کر خود کو توپ سمجھتا تھا ،اسے دلی افسوس ہوا کہ اسے تو کسی نے گھاس تک نہ ڈالی۔
اس مایوسی کے عالم میں ایک صبح اسے ایک خط ملا۔ کھولا تو وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی کے وائس چانسلر ذاکر حسین کی طرف سے تھا۔ لفافے اندر لاہور سے دلی تک ٹرین کا ٹکٹ تھا، جو اس وقت پانچ روپے کا ملتا تھا۔ ساتھ ایک نوٹ تھا کہ برخوردار کسی بڑے بندے پر ریسرچ ایسے خطوط کے ذریعے تھوڑی ہوتی ہے۔ ٹرین پکڑیں۔ دلی تشریف لائیں۔ میرے غریب خانہ پر آپ کا قیام ہوگا۔ یہیں سب باتیں ہوں گی۔
ایک لاہور کے طالب علم کو یقین نہ آیا کوئی وائس چانسلر اسے ٹکٹ بھیج کر دلی بلوا کر پورا ایک ماہ اسے اپنے گھر رکھ سکتا تھا۔ اگلے دن افضل لاہور سے ٹرین پکڑ کر دلی روانہ ہوچکا تھا۔ دلی میں جو دن گزرے وہ الگ حیرت انگیز کہانی ہے۔
یہ وہی ذاکر حسین تھے جو بعد میں بھارت کے صدر بنے ۔ یہ باب پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ بڑے لوگ ایسے نہیں بن جاتے، کچھ نہ کچھ ان کے اندر بڑا پن ضرور ہوتا ہے۔
رؤف کلاسرا

پاکیزہ سیرت لوگ

جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے، وہاں پر پہلے میرپور کا پرانا شہر آباد تھا۔ جنگ کے دوران اس شہر کا بیش تر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا ۔ ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گرد و نواح میں گھوم رہا تھا۔ راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے،دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے ۔انھوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا :’’بیت المال کس طرف ہے؟‘‘
میں نے پوچھا :’’بیت المال میں تمھارا کیا کام ؟‘‘
بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا :’’ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں، اب انھیںاس ’’کھوتی‘‘ پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جا رہے ہیں ۔‘‘
ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا ،تا کہ انھیں بیت المال لے جائیں۔
آج بھی وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا ؟ مجھے تو چاہیے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا ۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملتے ہیں؟

– کتاب:شہاب نامہ،از:قدرت اللہ شہاب

بھینس

بھینس بہت مفید جانور ہے۔ پنجاب کے بیشتر علاقوں میں اسے ’’مج‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، قد میں عقل سے تھوڑی بڑی ہوتی ہے، چوپایوں میں واحد جانور ہے جو موسیقی کا ذوق رکھتا ہے۔ اس لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔ بھینس دودھ دیتی ہے ، لیکن یہ کافی نہیں ہوتا، لہٰذا باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

– کتاب:اردو کی آخری کتاب،از:ابن انشاء

رشک

ڈاکٹر احمد خالد توفیق لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میرا انگریز دوست مجھ سے ملنے آیا، گپ شپ چلتی رہی تو اسی دوران وہ مجھ سے کہنے لگا:
’’ تمھاری خواتین پر مجھے رشک آتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے مردوں سے بڑا پیار کرتی ہیں۔ ‘‘
میں نے حیرانی سے پوچھا کہ تم یہ بات کس بنیاد پر کررہے ہو؟
وہ انگریز دوست کہنے لگا:’’ میں نے ایک خاتون کو دیکھا ہے جو اپنے شوہر کی قمیص پر بٹن ٹانک رہی تھی، وہ ہر تھوڑی دیر بعد قمیص کا بوسہ لیتی، پھر اس پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرتی، اور وہ ایسا بار بار کرتی تھی، اس کے چہرے سے جو محبت چھلک رہی تھی اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ عرب خواتین اپنے شوہروں سے بے پناہ محبت کرتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں اس کی بات سن کر مسکرایا اور اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور اس کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، میں نے اسے بتایا ہی نہیں کہ وہ جسے قمیص پر عورت کا بوسہ سمجھ رہا تھا وہ دراصل بٹن لگانے کے بعد قمیص کو چہرے کے قریب لاکر دھاگے کو دانتوں سے کاٹتی ہیں، اور پھر اس کٹے ہوئے دھاگے پر ہاتھ پھیر کر تسلی کرتی ہیں کہ دھاگہ جڑ سے کٹا ہے یا کچھ باقی ہے۔

– عربی سے ترجمہ:توقیر بُھملہ

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴