جون ۲۰۲۴

حال ہی میں مسلم طلبہ کا اعلیٰ تعلیم سے ڈراپ آؤٹ کے متعلق AISHE (آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن) کی جانب سے جاری کردہ ایک سروے میں سال2020-21 کے اعداد و شمار شائع کیے گئے۔ اس سروے کے مطابق دیگر طبقات کے مقابلے میںمسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں ڈراپ آؤٹ کی بڑھتی شرح ہمارے لیے پریشان کن ہے۔سروے کے مطابق دلتوں، آدی واسیوں، دیگر پس ماندہ و اعلیٰ ذاتوں کے طلبہ کا تعلیم میں بڑھتے اندراج کی شرح میں مثبت پیش رفت ہے، تو وہیں مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کے اندراج میں حیرت انگیز کمی واقع ہوئی ہے۔ گذشتہ سالوں کے مقابلے 2020-21 میں مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں حصہ داری 8 فی صد تک گھٹ کر رہ گئی۔ یہ گراوٹ اعلیٰ تعلیم میں تقریباً 1.8 لاکھ مسلم طلبہ کے تعلیمی نقصان کو ظاہر کرتی ہے- یہ مسلم معاشرے کا بہت بڑا نقصان ہے ،جو فوری طور پر توجہ کا متقاضی ہے۔ علاقائی سطح پر یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے، اترپردیش، جموں و کشمیر، مہاراشٹر اور تمل ناڈو جیسی مسلم آبادی والی ریاستوں میں مسلم طلبہ کی اعلیٰ تعلیم میں شمولیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ دہلی میں جہاں تعلیمی ترقی کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، وہاں مسلم طلبہ کی سیکنڈری سے اعلیٰ تعلیم میں منتقلی کی حد سے زیادہ کمی ہے، جو ملک میں جاری تعلیمی اصلاحات کی افادیت پر شکوک پیدا کرتی ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کا دورحکومت ایک زریں دورتھا ، مسلمانوں نے اسلامی تہذیب کے دور عروج سے استفادہ کر کے اس خطہ کو بھی مختلف علوم وفنون کا مرکز بنا دیا تھا ۔ اسلامی عہد کا ہندوستان خوش حال اور ترقی یافتہ و تعلیم یافتہ تھا ، قرب و جوار کے خطوں سے لوگ حصول علم کے لیے ہندوستان کا رخ کیا کرتے تھے ۔

 مسلمانوں کی یہ تمام تر ترقی اسلام کے نظریۂ تعلیم کی بنیاد پر تھی، مسلمانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو انھوں نے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مسلم دور حکومت میں چھوٹی بڑی تمام ذاتوں اور برادریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ، ریاست کے تمام باشندگان کو ہر طرح کی مذہبی و سیاسی آزادی حاصل تھی ۔کسی طبقہ و ذات پر بے جا پابندیاں نہیں لگائی گئیں ،اسلامی عہد کے ہندوستان کا سب سے خوب صورت کارنامہ یہ تھا کہ تمام شہریوں کو حصول علم کی یکساں آزادی حاصل تھی ، کسی مذہب یا فرقے پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی عہد کے ہندوستان میں شرح خواندگی تاریخ کے مختلف ادوار میں سب سے زیادہ رہی اور اس کی سند ہمیں تاریخ کے مختلف ادورا میں لکھے گئے ہندوستان کے سفر ناموں سے ملتی ہے ۔مسلمانوں نے اپنےما قبل کے حملہ آوروں و حکمرانوں کی طرح اس ملک کو کنگال اور برباد نہیں کیا بلکہ اسے اپنا وطن سمجھ کر اس کی تعمیر و ترقی میں ہمہ تن مصروف رہے ۔ ہندوستان شروع سے ہی ایک تکثیریت زدہ معاشرہ رہا ہے ، گوتم بدھ کے زمانے میں ہندوؤں میں ذات پات کا نظام عروج پر تھا ، نچلی ذاتوں کو تو زندہ رہنے کا بھی حق نہیں دیا جاتا تھا تعلیم تو بہت دور کی بات تھی، بدھ مت کا عروج ہندومذہب میں حد سے بڑھی ہوئی طبقاتی تقسیم کا ہی رد عمل تھا ، اگرچہ گوتم بدھ کی تعلیمات سے اس میں کچھ بہتری آئی مگر کچھ ہی عرصے بعد وہی برائیاں ہندوستانی سماج میں دوبارہ لوٹ آئیں ،اور اب 2014ء کے بعد سے یہ اپنے نقطۂ عروج پر ہے۔
2014ء کے بعد زعفرانی دور حکومت میں ہندوستانی مسلمان دیگر طبقات کے مقابلے جامع اور مساوی تعلیم کے حصول میں مجموعی درماندگی کے تلخ حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک میں 14.2 فی صدسے زائد آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کا داخلہ خطرناک حد تک 4.6 فی صدکم ہے، جو تعلیمی مواقع تک مسلم طلبہ کی رسائی میں رکاوٹ بننے والی انتظامی سازشوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ملک کے کل اساتذہ میں مسلم اساتذہ کا تناسب صرف 6.5 فی صد ہے ،اعلیٰ تعلیمی اداروں میں یہ تناسب اور بھی کم ہو جاتا ہے، اس تناسب میں اگر صنفی تفاوت کو شامل کرلیا جائے تو خواتین کے مقابلے مردوں کا تناسب مزید پریشان کن ہے۔تعلیمی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کا یہ بحران مسلم معاشرے میں قابل اساتذہ کے بحران میں بتدریج منتقل ہو رہا ہے ،جو مستقبل قریب میں ہمیں درپیش ہوگا۔
آئیے! آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن کے جاری کردہ سروے کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد و شمار پر غور کریں،اس سروے کے مطابق دلتوں میں اعلیٰ تعلیم کے اندراج میں 4.2 فی صد اضافہ ہوا ہے، آدی واسیوں کے اندراج میں 11.9 فی صد اضافہ ہوا ہے،او بی سی طبقےکے اندراج میں 4 فی صد اضافہ اور اعلیٰ ذاتوں میں اندراج کا تناسب 13.6 فی صد کی بلند ترین شرح دیکھی گئی۔ ان اعداد و شمار کے مقابلے مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کے اندراج میں 8 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سروے کے اعداد و شمار کی روشنی میں مسلم طلبہ کی فی صداعلیٰ تعلیم میں عدم شمولیت کو اگر ریاستی سطح پر جانچا جائے تو مسلمانوں کی تعلیمی دوری کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے، وہ کچھ اس طرح ہے:
اتر پردیش میں مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم میں اندراج کی کمی کی شرح 36 فی صد، جموں و کشمیر میں 26 فی صد کی کمی ، مہاراشٹر میں 8.5 فی صد اور تمل ناڈو میں 8.1 فی صد کی نمایاں کمی دیکھی گئی۔ دہلی میں، ہر پانچ میں سے ایک مسلم طالب علم نے سینیئراسکول سرٹیفکیٹ امتحان پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم میں داخلہ نہیں لیا۔
اساتذہ میں صنفی تفاوت برقرار ہے، مسلم خواتین کو دیگر پس ماندہ گروہوں کے مقابلے غیر متناسب طور پر کم نمائندگی کا سامنا ہے۔’’مولانا آزاد فیلوشپ پروگرام‘‘ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے ضرورت مند مسلم طلبہ کے لیے ایک اہم مالی معاونت کا نظام تھا ،لیکن ’’مولانا آزاد فیلوشپ پروگرام‘‘ حکومت کی زعفرانی پالیسیوں کی زد میں ختم کردیا گیا ، اس اسکیم کے خاتمے سے اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے مسلم طلبہ کو پہلے سے ہی درپیش غیر یقینی صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔
یہ بات تو ہوئی مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کی، لیکن پرائمری اور سیکنڈری تعلیم میں مسلمانوں کی شمولیت بھی کچھ خاص نہیں ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں ڈراپ آؤٹ کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ قانون حقِ تعلیم یا آر ٹی ای ایکٹ میں نو ڈیٹینشن پالیسی (این ڈی پی) کے تحت تمام طلبہ کو آٹھویں جماعت تک اگلی اعلیٰ کلاس میں پروموٹ کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسکولوں اور اندراج میں اوسط ترقی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے، ابتدائی سطح میں داخلہ لینے والے ہر آٹھ میں سے ایک طالب علم کو ہر سال نویں جماعت میں داخل کیا جانا چاہیے۔یہ تعداد 2022 ءمیں مسلمانوں کے لیے 35,80,000 سے کچھ زیادہ ہے۔ اصولی طور پر نویں جماعت میں داخل ہونے والے تمام طلبہ کو اپنے کورسز مکمل کرکے دسویں جماعت میں پروموٹ ہوجانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نویں اور گیارہویں جماعت میں داخلہ لینے والے مسلم بچوں کی تعداد اس سے دو گنی یعنی تقریباً 71,60,000 ہونی چاہیے۔یہ تعداد اور ثانوی سطح کی تعلیم میں مسلم بچوں کے حقیقی اندراج کے درمیان فرق ان کے ترک تعلیم یا ڈراپ آؤٹ سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ UDISE کے مطابق ثانوی سطح پر مسلم طلبہ کا اندراج 48,50,000 ہے۔اس کا مطلب ہے کہ 23,10,000 مسلمان بچے دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہر تین میں سے ایک مسلمان بچہ اسی مرحلے میں تعلیم چھوڑ دیتا ہے۔ طلبہ کے پروموشن، اسی کلاس میں دوبارہ پڑھنے، ڈراپ آؤٹ، منتقلی اور جماعت یا اسکول میں برقرار رکھنے کی شرحوں کے اعدادو شمار کے بغیر اس سے بہتر اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ جس طرح اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلبہ کی عدم شمولیت کی ایک اہم وجہ’’ مولانا آزاد فیلو شپ پروگرام‘‘ کا خاتمہ ہے، اسی طرح پرائمری و سیکنڈری تعلیم میں مسلم طلبہ میں ڈراپ آؤٹ کی اہم وجہ مختلف مائنارٹی اسکالرشپس کا حکومتی سطح پر بتدریج خاتمہ ہے۔
مسلمانوں میں ترک تعلیم یا ڈراپ آؤٹ کے ان اعداد شمار کو دیکھتے ہوئے اور ان کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازوں، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مشترکہ اور سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ہم حکومت سے مراعات کی توقع اور اسکالرشپ کا مطالبہ تو کر سکتے ہیں، لیکن سہولیات کا انتظار نہیں کر سکتے ، ہمیں اپنے معاشرے کی تعلیمی پس ماندگی کے صد فی صد خاتمہ کے لیے پرزور مہم چلانی چاہیے کہ آٹھویں اور دسویں جماعت میں پاس ہونے والے طلبہ اعلیٰ درجات میں داخلہ لیں اور اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ حوصلہ افزائی اور ترغیب وتحریک کے پروگرام تو ہوتے رہتے ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتے رہیں گے، لیکن مسلم طلبہ کے لیےتعلیمی سہولیات کی فراہمی ، اسکالرشپ اور مینٹارشپ جیسی اہم ذمہ داریاں ہمیں اجتماعی طور پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے ذات پات والے نظام میں دیگر اقوام متعصب ذہنوں سے اپنا کام کررہی ہیں، ہمیں اپنا کام بہتر انداز میں کرنے کی ضرورت ہے ۔
علامہ اقبال کیا خوب فرما گئے:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

٭ ٭ ٭

مسلمانوں میں ترک تعلیم یا ڈراپ آؤٹ کے ان اعداد شمار کو دیکھتے ہوئے اور ان کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازوں، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مشترکہ اور سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ہم حکومت سے مراعات کی توقع اور اسکالرشپ کا مطالبہ تو کر سکتے ہیں، لیکن سہولیات کا انتظار نہیں کر سکتے ، ہمیں اپنے معاشرے کی تعلیمی پس ماندگی کے صد فی صد خاتمہ کے لیے پرزور مہم چلانی چاہیے کہ آٹھویں اور دسویں جماعت میں پاس ہونے والے طلبہ اعلیٰ درجات میں داخلہ لیں اور اپنی تعلیم جاری رکھیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴