جون ۲۰۲۴

قلم و قرطاس کے پاس تھا، مگر اداس تھا کہ جو کچھ قاری کو راس تھا، لکھاری کا قلب اس سے ناشناس تھا۔اب لکھا جائے تو کیا؟ طرب کے ترانے یا خلق کے فسانے، یا پھر وہ ویرانے،جن کو عمارتیں کھا گئیں؟ دشت جنوں کو بھی فرزانہ پن نے آباد کیا۔بھولی بسری داستان کو کسی کارواں نے چلتے چلتے یاد کیا تو قلم رواں ہوا۔ انگلیوں کے بیچ دب کر روشنائی میں ڈوب کر لفظ ابھارتا رہا، کردار پکارتا رہا ، کہانی نکھارتا رہا ۔ کہانی تھی بھی تو کیا کہ بیت لحم کے محلے سے یروشلم کے کوچے تک راہ میں آئے سبھی زیتون، سبھی کھجور خدا کے حضور کسی معجزے کی رونمائی پر مسرت کے عالم میں سبحانی ورد کر رہے تھے۔
دماغ میں بجتے دف تھے اور جوتوں سے بے نیاز پیر پتھروں پر چل چل رقصاں تھے۔آج سبھی انگور ،سبھی کھجور حلاوت میں سوا تھے،کیوں کہ مسیح ابن مریم پیداہوئے تھے۔اب روح رازداری سے زمانوں کا پیرہن اوڑھے قرن قبل مسیح میں ظہور پا کر مسیح کا زمانہ پا کر آئندہ زمانے میں اپنی بیماری کا علاج مانگنے آئی تھی۔
یا ابن مریم! مجھے قوت گویائی چاہیے، میں گونگے پن سے بڑی عاجز ہوں۔ میں بہرے پن سے بڑی بیزار ہوں۔ مجھے سماعت کی دولت چاہیے ۔ ہاں مجھے ہاتھ کی جنبش بھی تو چاہیے کہ کسی مضراب پر کسی رباب پر پڑے تو کوئی نغمہ اگلےیہاں مسیح موعود مجھے چشم بینا بھی چاہیے کہ دنیا و مافیہا کا دیدار کروں۔
مسیح کی دعا سے مراد بر آئی۔ بیت لحم کے محلے میں ناچتی خوش روح پلٹ آئی۔ مدت مقررہ تک منتظر رہی۔ جنم لیا تو جان پائی کہ مسیح سے جو مانگی نہیں وہ یاد داشت تھی اپنی۔
وہ قرن مسیح میں چھوڑ کر اب یروشلم کی پتھریلی گلیوں میں پیلی روشنی میں رباب پکڑے کسی دھن کو ذہن میں لا رہی ہے، وہ روح جو جسم میں آکر بوڑھی ہوگئی، سوچ سوچ کر کہ آزادی کا نغمہ کن بولوں سے مل کر بنا تھا۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴