معمار جہاں تو ہے (مسلم خواتین علم و عمل کے میدان میں)

کتاب ’’معمار جہاں تو ہے‘‘، محمد رضی الاسلام ندوی صاحب کی خواتین کے امور و مسائل پر تحریر کردہ مضامین کا مجموعہ ہے، جسے کتابی صورت دی گئی ہے۔
کتاب پانچ ابواب میں منقسم ہے۔کتاب میں اسلام میں خواتین کے مقام و حیثیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کیا گیا ہے، ان کی موجودہ تعلیم سے لے کر تاریخ میں ان کے درس و تدریس کی مثالیں پیش کی گئی ہیں، سماج میں دینی اعتبار سے ان کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ اس کی موصوف نے عمدہ مثالوں سے رہ نمائی کی ہے، روزمرہ کے چھوٹے بڑے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے اور آخری باب میں خواتین سے متعلق چند کتابوں کا تعارف ہے۔
اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد جب ھادیہ ای میگزین کی طرف سے مقابلے کا اعلان ہوا کہ کتاب پڑھنے کے بعد کوئز مقابلے میں قارئین حصہ بھی لے سکتے ہیں، تو میرے اندر بھی چاہ ہوئی کہ میں بھی حصہ لوں، اور پھر جس طرح ہر شریک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مقابلے کی ونر ہو،اسی طرح حصہ لیتے ہی میں بھی اسی چاہ میں قید ہوگئی۔
ماہ در ماہ گزرتا رہا، مطالعہ بھی جاری رہا، لیکن اب ابوبکر(بیٹے) کی آمد(پیدائش) کے آثار نظر آنے لگے اور تکلیف میں اضافہ ہونے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مقابلے کا دن یعنی 5نومبر آگیا۔ تکلیف کے سبب مطالعہ میں وقتاً فوقتاً خلل آنے کے سبب مطالعہ بھی مکمل نہیں ہوسکا۔
بہ ہرحال، ہمت کرکے سوالات Attempt کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہر سوال مجھ پر سوال اٹھا رہا تھا کہ کیا میں واقعی معمار بن سکتی ہوں؟ کیا میرے لیے مقابلہ جیت جانا بہترین معمار خاتون بن جاناہے؟یکےبعد دیگرے ذہن میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب میرا ضمیر دیتا رہا، جس کے بعد احساس ہوا کہ میں درحقیقت Winner تب بنوں گی جب میں ایک اچھی معمار ثابت ہو جاؤں گی۔ بالکل ان ہی خواتین کی طرح، جن کا ذکر اس کتاب میں محمد رضی الاسلام ندوی صاحب نے کیا ہے۔
بتاریخ5نومبر، میں نے مقابلے میں شرکت کر کے اک اچھی معمار بننے کا عزم کیا اور دوسرے دن یعنی6نومبر کو ابوبکر کی اِس دنیا میں آمد ہوگئی، اور پھر اسی دن سے میرے معمار بننے کا سفر شروع ہو گیا، اور معمار بننے کی نیت سے اس کتاب کا مطالعہ میں نے دوبارہ شروع کیا۔

کتاب کا مطالعہ شروع کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے ندوی صاحب نے مجھے سمندر میں دھکا دے کر کہا کہ جاؤ سیکھ لو تیراکی ان عورتوں سے اس دور میں جینے کے لیے، جہانوں کی معمار بننے کے لیے۔ ہر خاتون مجھے اپنے کردار سے روشاس کروا کر اگلے صفحے پر بھیج دیتی، اور میں ہر صفحے سے ایسی ایسی چیزیں سیکھ کر آگے بڑھتی رہی کہ عقل ورطۂ حیرت میں پڑ جاتی کہ ہمارے پاس خواتین کی ایسی عمدہ میراث ہونے کے باوجود ہم محروم ہیں ،اچھے اخلاق و کردار سے، ہم محروم ہیں ایک اچھی ماں بننے سے، اچھی بیٹی بننے سے، اچھی بیوی بننے سے، خواتین کے موتیوں کی مانند اعلیٰ کردار میراث ہونے کے باوجود بد اخلاقیاں ہمارے دامن کا حصہ کیوں بن رہی ہیں؟ ہم اچھی ماں، بیوی، بہو، بیٹی، بہن کیوں نہیں بن پارہی ہیں؟کیوں نہیں ہم قوم کو صلاح الدین ایوبی دے پارہی ہیں؟ ہمارے گھروں سے علماء کیوں نہیں نکل رہے ہیں؟
اس سمندر میں ایسی خواتین سے ملی جنھوں نے سات برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا، کسی خاتون کو مکمل تفسیر ازبر تھی، بڑی عالمہ فقیہہ سے ملاقات ہوئی، کچھ خواتین مردوں کے مقابلے زیادہ علمِ دین والی نکلیں، عقل حیران تو تب ہوئی،جب کچھ ایسی خواتین سے ملی جن کے شوہر اپنی بیوی کے شاگرد تھے۔ بات حیرانی کی ہوبھی کیوں نہیں؟ دورحاضر میں عورت ایسی تنزلی کا شکار ہو چکی ہےکہ اس کے اندر اب وہ صلاحیت نہیں کہ وہ کم از کم اپنے بچوں کی استاد بن سکے اور ان کی بہترین تربیت کر سکے، پھر ایسی عورت اپنے شوہر کی استاد کیسے بن سکتی ہے!؟
اس کے بعد میری ملاقات ہوئی مسندِ تدریس پر بیٹھنے والی خواتین سے۔ مؤرخین اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جن کے درس مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ میں ہوا کرتے تھے۔
’’باب:مساجد میں خواتین کے حلقے‘‘میں موصوف نے آخر میں افسوس کا اظہار کیا ہے کہ جدید ادوار میں عورت کی آواز کو پردہ قرار دینا ترقی میں رکاوٹ بن گیا ہے کہ اب وہ مساجد میں درس و تدریس سے محروم ہیں۔
کچھ خواتین ایسی بھی ملیں، جنھوں نے نہ صرف درس وتدریس کا کام کیا، جو نہ صرف معلمہ و بہترین قاریہ و مفسرہ تھیں، بلکہ میرا گزر کچھ ایسی خواتین کے پاس سے بھی ہوا جنھوں نے مساجد بھی تعمیر کروائیں، کنویں کھدوائےاور سڑکیں بھی بنوائیں۔
یہ تبصرے کے ساتھ ساتھ سپاس نامہ بھی ہے محمد رضی الاسلام ندوی صاحب کے لیے اور ان خواتین کے لیے جنھیںمیں نے موصوف کے ذریعے جانا۔ کتاب میں موصوف نے نہ صرف عمدہ اور کامیاب خواتین کی صفات بیان کیے ہیں بلکہ قدم قدم پر ہم خواتین کی رائے بھی کرتے رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ کتاب مسلم خواتین کے لیے تیل و عطر کی مانند ہے، کتاب میں عورت کے کردار کے لیے ہرطرح کے سنگار کے لوازمات محمد رضی الاسلام ندوی صاحب نے کھول کھول کر بیان کیے ہیں،جو خواتین کے اندر معاشرے میں باکردار رول ادا کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں،اور اس بات پر آمادہ کرتی ہیں کہ لغویت سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی ذات کو اس طرح سنوارے کہ جب کبھی اگلی کتاب کوئی عورت پر لکھنا چاہے، تو اس میں اس کا بھی تذکرہ ہو۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے