اور خواب مر گئے ( کچھ خواب لیے کوچنگ کےلیے دلی آنے والے طلبہ کی حقیقی زندگی پر مشتمل افسانہ)

خوابوں سے سجی اس کی بڑی بڑی آنکھیں بند ہورہی تھیں، ساری چیخیں گلے میں کہیں اٹک گئی تھیں ، سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا، جس دماغ نے کئی سال مشکل سے مشکل سوال کو حل کیا تھا آج وہ آہستہ آہستہ ماؤف ہورہا تھا ۔

٭ ٭ ٭

  ’’بیٹا !عید کے دن تو آجاؤ ، دو سال ہوگئے ۔ تم ہی ہمارے گھر کی زینت ہو، بیٹا! تمھارے بغیر تو اب عید کیا اور خوشیاں کیا؟‘‘ امی کی آواز لرز رہی تھی ، آنکھوں کے کونے بھیگنے لگے ۔
’’امی! بس اتنا انتظار کیا ہے تو ایک سال اور کرلیں ۔ میں نے اس بار پوری پوری تیاری کی ہے ۔دیکھنا اس بار میں کلیئر کرلوں گی، آپ بس یوں جذباتی نہ ہوا کریں ۔‘‘
نازش گذشتہ دو سال سے سول سروس امتحان کی تیاری کےلیے دہلی میں قیام پذیر تھی۔
آواز کو ہموار کرکے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو رگڑتے ہوئے اس نے مضبوطی سے فون تھام رکھا تھا۔
’’سن رہی ہیں امی آپ ؟‘‘ نازش نے کوئی جواب نہ پایا تو پھر سے مخاطب ہوئی ۔
’’اچھا !آپ بابا کو فون دیجیے ۔ میں ان سے بات کرتی ہوں ۔‘‘فرحت بیگم فون شوہر کو دےکر پلو سے آنکھوں کو رگڑتی ہوئی سسکیاں لینے لگیں ۔
’’اور کیسی ہے میری انسپکٹر بیٹی ؟‘‘والد کی خوش گوار آواز سن کر نازش نہال ہوئی تھی ۔
’’جی بابا! آپ کی بیٹی بہت اچھی ہے اور انسپکٹر بیٹی امید کرتی ہے کہ آپ بھی بہت اچھے سے ہیں ۔‘‘
’’آپ کے بغیر بیٹا ہم کیسے اچھے ہوسکتے ہیں ؟‘‘
’’بابا !اگر آپ نے بھی مجھے ایموشنلی بلیک میل کیا تو پھر IPC section 384 تو آپ جانتے ہیں ناں؟‘‘
’’ہاہاہا …‘‘ فیروز بیگ نے زور دار قہقہہ لگایا ۔
’’اب تم سارے ایکٹ مجھ پر ہی لاگو کروگی کیا ؟‘‘
’’نہیں بابا ! میں تو بس ایسے ہی کہہ رہی تھی ۔ آپ امی کو سمجھائیے ناں، میرے لیے یہ امتحان بہت ضروری ہے، بس ایک سال اور بابا !‘‘
’’میں سمجھاؤں گا ، تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو اور صحت کا بھی خیال رکھو۔ کل وڈیو کال پر بہت کمزور سی لگ رہی تھیں ۔‘‘
’’جی بابا! خیال رکھوں گی ۔‘‘ضروری ہدایت کے بعد فیروز بیگ نے فون رکھ دیا ۔
نازش فون بند کرتے ہی رو پڑی ۔ کچھ خواب آپ سے قربانی مانگتے ہیں،محبت ، رشتے ، خواہشات سب کو کہیں پیچھے چھوڑنا ہوتا ہے۔چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپائے دیرتک کمرے میں بیٹھی رہی ۔

گھڑی 12بجے کا الارم بجانے لگی ۔ اس نے گھڑی دیکھی اور اپنی حالت بھی۔ گہری سانس لےکر اٹھی۔ فریش ہوکر ضروری کتابیں لیں اور لائبریری کےلیے نکلی ۔

٭ ٭ ٭

آج دلّی کا موسم خوش گوار تھا، کئی دنوں کی بارش کی وجہ سے موسم میں خنکی تھی۔سڑکیں دھلی دھلی سی صاف نظر آرہی تھیں ۔ سڑکوں پر خورد و نوش کی اشیاء جابجا نظر آرہی تھیں ۔ چائے فروشوں کے وہاں تعداد معمول سے زیادہ تھی ۔ شاید بارش اور چائے کا اپنا ایک رشتہ ہے، اس لیے بارش کے ساتھ چائے فروشوں کاوہاں غیر معمولی سا رش لگ جاتا ہے ۔
یہاں کوچنگ سینٹرز کی طرف آئیں تو دنیا کی رنگینیوں سے لاپروا امتحانات کی تیاری کررہے ہیں طلبہ اپنی پڑھائی میں منہمک تھے ۔ انھیں باہر کے موسم سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔ کوچنگ میں صرف ایک موسم سدا بہار ہوتا وہ تھا پڑھائی کا موسم ۔ کوچنگ جس عمارت میں واقع تھی وہ پانچ منزلہ عمارت تھی۔ پہلی منزلہ کے نیچیے بیسمنٹ میں آئیں تو انتہا کی خاموشی چھائی تھی ۔سوِل سروِس کے امتحانات کی تیاری میں مصروف یہ طلبہ اپنے اطراف کی تمام چیزوں سے بیگانہ کتابوں اور لیپ ٹاپ پرآنکھیں گڑائےبیٹھے تھے ، ہر ایک طالب علم اپنے خوابوں کی تکمیل کےلیے مصروف تھا ۔
وہیں ایک اسٹڈی ٹیبل پر نازش بھی خوابوں کی تعبیر لیے کتابوں میں منہمک تھی کہ اچانک سے پیروں کے نیچے پانی محسوس ہونے لگا ۔ چوں کہ یہ عام بات تھی کہ معمولی بارش میں بیسمنٹ میں ٹخنوں تک پانی بھر جایا کرتھا، اس لیے کسی نے توجہ نہیں دی یا شاید خوابوں میں اتنی طاقت تھی کہ اطراف میں ہورہی چیزوں پر توجہ ہی نہیں گئی ۔
پانی تیزی سے کمر تک پہنچ رہا تھا ۔نازش نے اطراف میں دیکھا تو دنگ رہ گئی، لائبریری میں پانی بھرتا جارہا تھا۔ آدھے سے زیادہ طلبہ جاچکے تھے۔ باقی بچے طلبہ نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ نازش جلدی جلدی کتابیں سمیٹنے لگی کہ تبھی شارٹ سرکٹ کی زوردار آواز کے ساتھ لائٹ بند ہوئی ۔ پانی کے شور میں بچوں کی آوازوں کا شور ۔ نازش کی آنکھوں میں چبھن سی ہونے لگی۔کتابوں کو سینے سے لگائے وہ اندھیرے میں ہی آگے بڑھنے کی کوشش کرنے‌ لگی، لیکن ہر بار پانی کا بہاؤ اسے پیچھے دھکیل دیتا ۔ ایک ہاتھ سے کتابوں کو زور سے تھامے دوسرے ہاتھ سے چیزوں کو ٹٹولتی وہ پھر سے آگے بڑھنے لگی کہ پانی کا ایک تیز ریلا آیا اور اس کے پیر لڑکھڑانے لگے۔ ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہونے لگی ،کتابیں ہاتھوں سے چھوٹتی جارہی تھیں۔ اس ٹھنڈے ٹھار پانی میں بھی اس نے اپنے گالوں پر گرم سیال محسوس کیا ۔
اس کا پورا جسم لرز رہا تھا ۔ اس کی خواب دیکھنے والی بڑی بڑی آنکھیں بند ہورہی تھیں ،ساری چیخیں گلے میں کہیں اٹک گئی تھیں ، سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا ۔ جس دماغ نے کئی سال مشکل سے مشکل سوال کو حل کیا تھا وہ آج آہستہ آہستہ ماؤف ہورہا تھا ۔
اچانک اس کا ہاتھ دروازے سے ٹکرایا ، ایک امید دل میں پیدا ہوئی، اس نے زور زور سے دروازہ بجانا شروع کیا لیکن سب بے سود ، کیوں کہ دروازہ بایو میٹرک سے ہی کھلنا تھا جو کہ بجلی منقطع ہونے کی وجہ سے بند ہوچکا تھا۔
تیز چلتی ہوئی سانسیں آہستہ آہستہ تھمنے لگیں ۔
آنکھوں میں سجے خواب اپنے وجود سمیت ختم ہورہے تھے ۔
نہ خواب دیکھنے والی آنکھیں رہیں اور نہ ہی خواب ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. روبینہ کوثر بارسی ٹاکلی

    ????

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے