بچوں میں ’’اے ڈی ایچ ڈی‘‘ کے مسائل اور ان کا حل ( قسط : 1)

تعارف

بچے ہمیشہ سے فعال رہے ہیں، کبھی کبھار حد سے زیادہ فعال بھی اور اگر ان کی توجہ ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف منتقل ہوتی ہے تو یہ ان کی تجسس بھری ذہنیت اور سیکھنے کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے۔پرانے دور سے لے کر چند نسلوں پہلے تک بچوں کو عام طور پر آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو دریافت کریں۔سوائے چند گھنٹوں کے جو وہ کلاس روم میں بیٹھنے کے لیے مختص کرتے تھے (اور بہت سے بچے تو یہ بھی نہیں کرتے تھے) وہ زیادہ تر وقت باہر گزارتے تھے، جہاں ان پر بہت کم پابندیاں ہوتی تھیں یا یہ بتانے والا کوئی نہیں ہوتا تھا کہ انھیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے؟انھیں مسلسل ذہنی اور جسمانی توانائی استعمال کرنے کے مواقع ملتے تھے۔ بچے کبھی بور نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی وہ اپنے والدین سے توجہ مانگتے تھے۔اکثر ایسا ہوتا کہ وہ دن کے اختتام پر اتنے تھکے ہوئے ہوتے کہ وہ صرف خوشی سے کھانا کھاتے اور سو جاتے تھے۔
میری رائے میں صرف چند فی صد بچے جو حد سے زیادہ فعال اور بے توجہ ہوتے ہیں ان میں کوئی عارضہ ہوتا ہے۔ انھیں ایک بہتر ماحول اور حساس رویے کی ضرورت ہوتی ہے ،تاکہ ان پر جسمانی اور ذہنی دباؤ نہ پڑے ،ورنہ یہ ممکن ہے کہ بچہ پڑھائی سے مکمل طور پر منہ موڑ لے اور اپنے خول میں بند ہو جائے۔
دوسری جانب، ایک تعداد بچوں کی ایسی بھی ہے جو اپنی حد سے زیادہ سرگرمی یا جلد بازی پر قابو نہیں رکھ سکتے، اور ایسے بچوں کو’’اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپرایکٹیوٹی ڈس آرڈر‘‘ (اے ڈی ایچ ڈی) کا شکار قرار دیا جاتا ہے۔

مقصد

اس تحریر کا مقصد والدین اور اساتذہ میں بچوں کے ساتھ بہتر اور حقیقت پسندانہ سمجھ بوجھ پیدا کرنا ہے، چاہے وہ اے ڈی ایچ ڈی کے شکار ہوں یا صرف حد سے زیادہ فعال ہوں، تاکہ انھیں ایک صحت مند اور مثبت ماحول میں پروان چڑھایا جا سکے، جہاں وہ اپنے جذبات اور بے قراری کو سنبھال سکیں۔اگر ان بچوں کے ساتھ حساسیت سے نمٹا جائے تو وہ اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں اور بغیر کسی بڑی رکاوٹ یا دھچکے کے بالغ ہونے کے بعدکی زندگی کا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔

تشخیص

اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص کے لیے کوئی مخصوص ٹیسٹ موجود نہیں ہے لیکن یہ ایک جامع اور تفصیلی جائزے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔یہ کام خصوصی تعلیم کے ماہرین (Experts of special education) بچوں کے نفسیات داں یا بچوں کے ڈاکٹروں کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ ایسے پیشہ ور کے پاس جائیں جو انسانیت پر مبنی سوچ رکھتا ہو، بچے کی مجموعی بھلائی میں واقعی دل چسپی رکھتا ہو اور تفصیلی جائزہ لینے کا وقت اور رجحان رکھتا ہو، کیوں کہ یہ ممکن نہیں کہ محض ایک امتحان یا ملاقات میں حتمی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔ پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنے سے پہلے بچے کی حد سے زیادہ سرگرمی اور توجہ کی کمی کے حوالے سے درج ذیل چیزوں کو ضرور چیک کریں:
٭کیا بچے میں یہ علامات سات سال کی عمر سے پہلے ظاہر ہوئی تھیں؟
٭یہ رویے دوسرے بچوں کی بہ نسبت واضح اور شدید نظر آتے ہیں؟
٭یہ مشکل رویے کم از کم چھ مہینے سے مسلسل ہیں یا نہیں؟
٭یہ ناپسندیدہ رویے صرف ایک جگہ پر نہیں بلکہ گھر، اسکول، دوستوں کے درمیان اور سماجی اجتماعات میں بھی نظر آتے ہیں یا نہیں؟
اگر بچے کی بے توجہی اور بے چینی صرف اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب اسے پڑھائی کرنے کے لیے کہا جائے تو ہمیں اسے پڑھائی کے متبادل طریقے تلاش کرنے میں مدد دینی ہوگی، اس کے مطالعے کے مقصد کو سمجھانا ہوگا، اسے ترغیب دینی ہوگی اور صبر کے ساتھ اس کی رویے کو بدلنے میں مدد کرنی ہوگی ،تاکہ وہ پڑھائی سے جڑ سکے۔ اگر گھر یا اسکول میں کوئی صدمہ یا دباؤ رہا ہے، جیسے گھریلو مسائل، امتحانات میں ناکامی، اسکول کی تبدیلی، تو ہمیں پہلے جذباتی اور ماحولیات سے متعلق عوامل کو حل کرنا ہوگا اور ممکن ہے کہ اس کی علامات خود بخود کم ہو جائیں۔
صرف جب اوپر ذکر کردہ چیزوں کو رد کر دیا جائے تو پھر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ بچہ محض زیادہ سرگرم نہیں بلکہ اس میں واقعی یہ عارضہ ہو سکتا ہے اور پھر تشخیص کی جا سکتی ہے۔
اے ڈی ایچ ڈی والے بچوں کی عمومی علامات جنھیں قبول اور تسلیم کیا جانا چاہیے، درج ذیل ہیں:
بے چینی یا جگہ بدلنا، مسلسل پوزیشن تبدیل کرنا،بیٹھنے میں دقت، جگہ سے اٹھ کر چلنا یا جگہ بدلنا،نامناسب اوقات میں زیادہ دوڑنا یا چڑھنا،خاموشی سے کھیلنے میں مشکلات کا سامنا کرنا،زیادہ بولنا، تیز یا اونچی آواز میں بات کرنا،مکمل سوال سننے سے پہلے جواب دینا، توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا،اپنی باری کا انتظار کرنایا قطار میں کھڑا ہونا اسے مشکل لگنا،دوسروں کی مصروفیات میں مداخلت یا ان کے کام میں دخل اندازی کی عادت؛کسی بھی ایسے معاملے میں بچے کے ساتھ مشغول ہونے کا پہلا قدم ہونا چاہیے:

رابطہ قائم کرنا
Rapport Building

پہلے مرحلے میں ایک ایسے شخص کو اے ڈی ایچ ڈی بچے کی مدد کی ذمہ داری سونپی جائے جو اس طرح کے بچوں کی مدد کرنے میں دل چسپی رکھتا ہو اور اسے اے ڈی ایچ ڈی کے بارے میں بنیادی معلومات بھی ہوں۔تھراپی سے پہلے یہ ضروری ہے کہ بچے کے ساتھ اچھی سمجھ بوجھ اور تعلقات بنائے جائیں، بچے کا اعتماد حاصل کیا جائے اور اسے پرسکون کرنے کے لیے تفریحی سرگرمیوں میں شامل بھی ہوا جائے۔ کسی ایسے بچے کے احساسات اور تمناؤں کو سن کر اسے بہترین مشورے دینا، یہ تسلیم کرنا کہ وہ مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور اس کو یہ یقین دلانا کہ’ ’میں تمھیں قبول کرتا ہوں، اور تمھارے ساتھ کھڑا رہوں گا۔‘‘، بچے سے تعاون حاصل کرنے کا راستہ ہموار کرتا ہے۔

اس کے بعد اس کے روزمرہ کے معمولات، پڑھائی کے طریقے، خاندان اور اساتذہ کے ساتھ تعلقات کو چیک کریں اور سنیں کہ اس کے غصے یا ناراضگی کے بارے میں اس کی کیا رائے ہے؟ اسے یقین دلائیں کہ آپ اس کی ان رکاوٹوں کو عبور کرنے اور خوشی حاصل کرنے میں مدد کریں گے۔ صرف اس کے بعد جب یہ کامیابی سے حاصل ہو جائے، تھراپی شروع کی جا سکتی ہے۔

رویہ جاتی تھراپی

چیک کریں کہ کیا بچے کو ایک بند ماحول میں قید کیا جا رہا ہے؟ بچے کی رہائش کی جگہ کو ترتیب دیں اور منظم کریں تاکہ اسے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائیاں نکالنے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے۔
روزانہ کی بنیاد پر ایک ہی شیڈول پر عمل کریں، پہلے سے واضح طور پر سمجھائیں، پڑھائی، ہوم ورک، گھریلو کام اور تفریح کے وقت کو الگ کریں۔
اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچے کو واضح اور مختصر ہدایات دی جائیں اور ایسے اصول بنائیں جو تبدیل نہ ہوں۔ جب بچہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھتا ہے اور اچھا رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے غیر مادی انعامات دیں۔
جہاں تک ممکن ہو خلفشار سے بچیں۔ مطالعے کے وقت کوئی ٹی وی، موبائل، باتیں کرنے والے گھر کے افراد یا اِدھر اُدھر چلنے والے لوگ نہ ہوں۔
بعض بچے بہت زیادہ انتخاب کاا ختیار دینے پر الجھن میں پڑ جاتے ہیں۔ ہر سرگرمی میں انھیں مخصوص اور محدود اختیارات دیں۔
غصہ کرنے، چیخنے یا بے قابو ہونے سے گریز کریں، کیوں کہ بچہ بھی یہی عادات نقل کرتا ہے۔
بچے کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ کوئی ایسی سرگرمی تلاش کرے جس میں وہ تعلیمی کارکردگی کے علاوہ صلاحیت اور قابلیت دکھاتا ہو۔
ان سرگرمیوں میں اس کی حوصلہ افزائی کریں اور اسے سراہیں۔ بہت سی سادہ اور مؤثر گیمز، کوئز اور سرگرمیاں ہیں جو بچے کی توجہ بڑھانے، اسے ہاتھ میں موجود کام پر توجہ مرکوز کرنے اور اس کی بے چینی کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کو آزمائشی بنیاد پر آزمانا ہوگا، جب تک کہ آپ کو موزوں ترین نہ مل جائے اور پھر بچے کو ان سرگرمیوں کو باقاعدگی سے کرنے کی ترغیب دیں۔

یہ اصول ضرور اپنائیں!

اگر بچہ اس طریقے سے نہیں سیکھ سکتا جس طرح ہم سکھاتے ہیں ،تو ہمیں اسے اس طریقے سے سکھانا چاہیے جس طرح وہ سیکھنا چاہتا ہے یا سیکھ سکتا ہے۔
٭ ان سرگرمیوں کی کوشش پربچے کی حوصلہ افزائی کریں! :
٭ایک کتاب پڑھنا اور ایک ہی نشست میں اسے مکمل کرنا
٭ایک مختصر آڈیو ٹیپ سننا، سمجھنا، اور یاد کرنا
٭کاموں کی ایک فہرست بنانا، ترجیح دینا، اور پھر ان کو مکمل کرنا
٭ایک چارٹ تیار کرنا، ڈرائنگ بنانا، تفصیلات بھرنا اور رنگ بھرنا
٭کمرے کو منظم طریقے سے صاف کرنا، کچھ بھی ادھورا نہ چھوڑنا
٭کسی کو خط لکھنا اور تفصیل کے ساتھ کچھ بیان کرنا
٭بورڈ گیمز، سوڈوکو، پہیلیاں، کراس ورڈ، میموری گیمز اور دیگر ایسے گیمز کھیلنا جو ذہنی صلاحیتوں کو ابھارتے ہوں۔

والدین کے لیے کچھ مشورے

٭اپنے دباؤ کی سطح کو کم کریں، یہ یقینی بنائیں کہ جب بچے کے ساتھ بات چیت ہو تو آپ تناؤ میں نہ ہوں۔
٭ماضی کے رویے یا غلطیوں کو بات چیت میں شامل نہ کریں، موجودہ مسائل پر توجہ مرکوز کریں۔
٭بات چیت میں کھلے اور واضح رہیں، خاص طور پر جب ہدایات دے رہے ہوں، اور یہ چیک کریں کہ بچے نے انھیں سمجھا ہے یا نہیں۔ اگر ضروری ہو تو ہدایات کو لکھ کر دیں۔
٭ایک اچھے رول ماڈل بنیں۔ وہ رویہ دکھائیں جو آپ بچے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ اپنی آواز بلند کریں گے تو بچہ بھی چیخے گا۔
٭چھوٹی سی ترقی اور تبدیلی پر بھی تعریف کریں، حوصلہ افزائی کریں اور انعام دیں۔ تعریف اس وقت کریں جب بچے کا اچھا عمل بیان کریں، آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں اور آپ اس کی کسی مخصوص خوبی یا عادت کی تعریف کرتے ہیں۔
٭سزا چھوٹے اور تدریجی اقدامات میں دیں۔ پہلے مناسب وارننگ دیں اور یہ یقینی بنائیں کہ ہدایات واضح ہیں۔ چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں۔ بچے کے ناقابل قبول عمل کی سزا دیں لیکن بچے کو لیبل لگانا، نیچا دکھانا یا اس کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچانے جیسی سزا نہ دیں۔
٭جب گھر کے بڑوں میں کوئی جھگڑا ہو، جذبات بھڑک اٹھیں یا ناخوش گوار صورت حال پیدا ہو تو اس بات کا خیال رکھیں کہ بچے پر اس کا اثر نہ پڑے۔ اگر ایسا ہو جائے تو بچے کو پرسکون انداز میں سمجھائیں کہ یہ کیوں ہوا اور آپ اسے کم کرنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
٭اس بات پر یقین رکھیں کہ آپ کا بچہ چاہے وہ ابھی کتنا ہی شرارتی کیوں نہ ہو، نرمی اور مستقل مزاجی سے رہ نمائی کرنے پر آخرکار اپنی ناپسندیدہ عادات سے باہر نکل آئے گا۔

(جاری …)

٭ ٭ ٭

اگر بچے کی بے توجہی اور بے چینی صرف اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب اسے پڑھائی کرنے کے لیے کہا جائے تو ہمیں اسے پڑھائی کے متبادل طریقے تلاش کرنے میں مدد دینی ہوگی، اس کے مطالعے کے مقصد کو سمجھانا ہوگا، اسے ترغیب دینی ہوگی اور صبر کے ساتھ اس کی رویے کو بدلنے میں مدد کرنی ہوگی ،تاکہ وہ پڑھائی سے جڑ سکے۔ اگر گھر یا اسکول میں کوئی صدمہ یا دباؤ رہا ہے، جیسے گھریلو مسائل، امتحانات میں ناکامی، اسکول کی تبدیلی، تو ہمیں پہلے جذباتی اور ماحولیات سے متعلق عوامل کو حل کرنا
ہوگا اور ممکن ہے کہ اس کی علامات
خود بخود کم ہو جائیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے