خواتین کی ترقی کی راہ میں اثر انداز عوامل اور ان کاتدارک

خواتین روزِ اول سے ہی معاشرے کا فرد دوم گردانی گئی ہیں، تاہم انھوں نے معاشرے کے اس نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاری ہے۔ خواتین معاشرے میں وہی مقام رکھتی ہیں جو مرد کو حاصل ہے، لیکن معاشرے کی صنفی تقسیم نے ہر دور اور ہر صدی میں خواتین کے حقوق کی پامالی کی ہے۔
یہاں میں پچھلی صدیوں کی خواتین کے متعلق باتیں دہرانا نہیں چاہوں گی، لیکن بات کرتے ہیں آج کی خواتین کی، جنھوں نے معاشرے کی تقسیم اور زمانے کی عائد پابندیوں کو لانگھ کر اپنے وجود کا لوہا منوایا ہے۔ آج کے دور میں وہ ترقی کی راہوں پر گام زن ہیں اور الگ الگ شعبوں میں مختلف عہدوں پر اپنے کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔ پھر بھی ایسے کئی مسائل اور عوامل ہیں جو ان کی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
خواتین نے زمانۂ جاہلیت سے اب تک جو مصائب برداشت کیے ہیں، اس میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ آج ان کے لیے آسمان کھلا ہے اور وہ اونچی اڑان بھر سکتی ہیں، لیکن ان کے پنکھ کہیں نہ کہیں کٹے ہوئے ہیں۔ آج ان ہی عوامل پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے تدارک پر روشنی ڈالتے ہیں۔
چند عوامل جن کے باعث خواتین دور حاضر میں ترقی کی منازل طے نہیں کر پاتی ہیں:

  •  احساس کم تری یا خود کا خوف/ سیلف فیئر
  • صحت
  • امور خانہ داری
  • مردانہ انا
  • سماجی پابندیاں
  • قیادت کی کمی
  • خود اعتمادی کا فقدان
  • جذباتیت
  • صنفی عدمِ توازن
  • کام کی غیر مناسب تقسیم
  • تعلیمی و اخلاقی عدم توازن

ان عوامل کا بغور مطالعہ کیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ جہاں جہاں خواتین کام کرتی ہیں ،وہاں وہ ان مسائل سے دو چار ضرور ہوتی ہیں۔ پھر چاہے وہ فیکٹری ہو، اسکول، کالج، اسپتال یا کوئی ادارہ ہو، انھیں اپنی ترقی میں اِن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مذکورہ بالا عوامل کا تدارک کیا جا سکتا ہے، اور ترقی کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔

خواتین اپنےاندر ایک خوف رکھتی ہیں۔ وہ خوف ہمیں گھر سے ہوتا ہے، سماج سے ہوتا ہے، ہمارے تحفظ کے لیے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے اندر صلاحیتیں ہوتے ہوئے بھی ہمارے قدم ڈگمگاتے ہیں اور ہم چاہ کر بھی اپنے شعبے میں آگے بڑھنے سے کتراتے ہیں جسے سلیف فیئر کہتے ہیں۔ ہمیں اس ڈر کو خود ہی دور کرنا ہوگا۔ جب تک ہم اس خوف سے بندھےرہیں گے ہم آگے کی منازل طے نہیں کر پائیں گے۔ اس کے لیے ہمیں ان خواتین کے تجربات کا مطالعہ کرنا چاہیے جو مسلسل آگے بڑھتی رہی ہیں۔ جنھوں نے اپنے خوف پر جیت حاصل کی اور کامیابی کا پرچم بلند کیا ہے۔ ان کو دیکھ کر، ان کو پڑھ کر ہم سلیف فیئر کو کافی حد تک دور کر سکتے ہیں۔
صحت بھی اسی زمرے کی ایک کڑی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی صحت کا خوب خیال رکھیں، متوازن اور صحت مند غذا کا روزانہ استعمال کریں۔ باقاعدہ ورزش کریں، جس سے آپ کی صحت اچھی رہے گی، اور آپ کسی بھی طرح کا کام بہت چستی و پھرتی سے کر سکیں گی۔ ساتھ ہی اپنی ذہنی صحت کا بھی خیال رکھیں،یہ آپ کی مجموعی صحت کو متاثر کرتی ہے۔
امور خانہ داری کو خواتین اپنی راہ میں رکاوٹ محسوس کرتی ہیں، لیکن ہم اسے اپنی طاقت بنا سکتے ہیں۔ گھر کے کام انجام دینےمیں فرحت محسوس کریں، یہ سوچیں کہ یہ سارے کام مجھ سے جڑے ہیں اور ان کی تکمیل بھی مجھ سے ہی ہے۔ امور خانہ داری بھی ایک آرٹ ہے، اسے ہم اپنے مشغلے کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اسے Anti depressing therapy کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہر بار مثبت سوچ اور خیال کو اپنائے رکھیں۔ گھر کا‌ ماحول خوش گوار رکھیں، جس سے آپ پرسکون بھی رہیں گی اور اپنی ترقی پر توجہ بھی مرکوز کر سکیں گی۔ اس کے لیے منظم منصوبہ بندی بھی کی جاسکتی ہے۔ بصورت دیگر یہ کہ آپ کچن سے جڑے رہ کر بھی ترقی کے منازل تک پہنچ سکتی ہیں۔
ہمارا سماج مرد اساس سماج ہے، جس کی وجہ سے مرد خواتین پر غالب ہی رہے ہیں، لیکن عصرِ حاضر میں اس سوچ کو بدلنے کی بہت ضرورت ہے۔ خواتین کو سماجی دھارے میں لانے سے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اب اس جانب توجہ کی جانی چاہیے۔
ہمارامعاشرہ کئی طرح کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ پابندیاں ضروری ہیں، لیکن ایسی پابندیاں جو ہماری ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہوں، وہ ایک بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمیں اس جانب مثبت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، جن پابندیوں پر خواتین عمل کرتی ہیں، یہ سمجھ لیں کہ وہ ایک ٹاسک ہے جسے پورا کرنا ہے۔ بار بار اس معاملے میں سر دھننے کی ضرورت نہیں، بس خاموشی سے مخالفت بھی کریں اور کام پر توجہ بھی دیں۔ ہو سکتا ہے آپ آگے بڑھ جائیں اور یہ پابندیاں وہیں ٹھہر جائیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ خواتین بہترین قیادت کر سکتی ہیں۔ اس کی مثال رانی لکشمی بائی، نورجہاں بیگم، بی بی حضرت محل، چاند بی بی وغیرہ ہیں۔ ہم آج بھی ان کی پیروی کرنے کا عزم کرلیں تو اس کمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا گھر کی ذمہ داریاں ہم خود ہی سنبھالتے ہیں، وہاں بھی تو قیادت کرتے ہی ہیں۔ ہمارے اندر یہ صلاحیت موجود ہے بس ضرورت ہے ہمت کرنے کی، تھوڑا آگے بڑھنے کی۔
خود اعتمادی کی کمی کو دور کرنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ کسی بھی کام‌کو کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اپنی کمیوں کو دور کرنے کی مسلسل سعی کرنی چاہیے، اپنےمقاصد کا تعین کرنا چاہیے۔ مستقل مزاجی آپ کے اعتمادمیں اضافہ کرتی ہے۔
جذباتیت خواتین کی فطری دین ہے، لیکن اس بات پرقابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ذہن کو مشغول رکھیں، اسے مناسب کاموں میں لگائیں، بنا وجہ کی باتوں میں الجھ کر اپنی صلاحیتوں کو ضائع نہ کریں۔ اگر آپ اپنے جذبات پر قابو کرنا سیکھ لیں تو آپ کی ترقی کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔ اپنے جذبوں کو اپنےمقاصد کی حصول یابی میں صرف کریں۔
صنفی عدم توازن کی بنیادی وجہ، تعلیم سے دوری اور بے جا عقائد ہیں۔ تعلیم جتنی عام‌ہوگی اس مسئلے کو حل کرنا اتنا ہی آسان۔ سماجی بیداری اور خواتین میں شعوری بیداری آنا وقت کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور اخلاقی عدم توازن کو بھی اس طرح ہی دور کیا جا سکتا ہے۔
خواتین اور مرد دونوں کے کام کی جو تقسیم ہے وہ غیر مناسب ہے۔ جب ہم کسی ادارے میں کام کرتے ہیں تو وہاں سب کو کام کے یکساں مواقع ملنا چاہیے۔ وجہ جو بھی ہو، لیکن خواتین کو یہ مواقع کم ہی دست یاب ہوتے ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کریں، اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر اس میں مزید اضافہ کریں۔ پوری محنت اور لگن سے کام کرنے کی کوشش کریں۔
بے شک خواتین کی ترقی کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں ،لیکن اگر ہم عزمِ مصمم کرلیں، کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیں، اپنی کم زوریوں کو طاقت میں بدل لیں، جیت کے لیے حوصلوں کو بلند کر لیں تو آسمان کم ہے پنکھ پھیلانے کے لیے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے