باپ سے بیٹی کی نفرت کیسے دور کی جائے؟

سوال:
میری بیٹی بیس سال کی ہے۔ اپنے والد سے شدید نفرت کرتی ہے۔ کبھی سیدھے منھ بات نہیں کرتی۔ وہ ہاسٹل میں رہتی ہے۔ بیٹی کو بہت سمجھایا، لیکن وہ کہتی ہے کہ میں شدید نفرت کرتی ہوں۔ اس کی نفرت دیکھ کر میں نے اپنی دوست سے بیٹی کی کاؤنسلنگ کروائی تو پتہ چلا کہ بیٹی نے اسکول کے زمانے میں اپنے والد کے موبائل میں کچھ فحش ویڈیوز دیکھ لی تھیں، اس کی وجہ سے اسے نفرت ہو گئی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ والد کی نفرت میں وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے،میں بہت فکر مند ہوں۔ براہِ کرم رہ نمائی فرمائیے، مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

 یہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ بیٹی کی کاؤنسلنگ کروائی، جس سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس کے دل میں اپنے باپ سے کیوں نفرت پائی جاتی ہے؟ اگر کسی مرض کی تشخیص نہ ہو سکے تو اس کا علاج بہت دشوار ہوتا ہے۔ اندھیرے میں جو کوششیں کی جاتی ہیں ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات مرض پیچیدہ صورت اختیار کر لیتا ہے، لیکن صحیح تشخیص ہو جانے کے بعد علاج میں سہولت ہو جاتی ہے اور شفا یابی کی قوی امید ہوتی ہے۔
اب بیٹی کی مزید کاؤنسلنگ ہونی چاہیے، جس میں اس کے سامنے درج ذیل نکات پر باتیں رکھی جائیں:
(1) اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے انسانوں کو پاکیزہ زندگی گزارنے کی تلقین کی ہے۔ بات چیت، رہن سہن، لباس، کھانے پینے اور دیگر معاملات میں پاکیزگی کو اختیار کرنے اور بے حیائی، عریانی اور فحاشی سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

وَيَنْـهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِوَالْمُنْكَرِ

(سورۃالنحل: 90)
(اور اللہ تعالیٰ بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔)
اللہ کے رسولﷺ کے بارے میں کہا گیا ہے:

وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الخَبٰئِثَ

(سورۃالاعراف: 157)
(وہ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے۔)
لیکن ہر انسان کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے۔ وہ اسے سیدھے راستے سے بھٹکانے، برائیوں میں لت پت کرنے اور گندے اور فحش کاموں میں مبتلا کرنے کے لیے برابر کوشاں رہتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

اَلشَّيْطَٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ

(سورۃالبقرۃ: 268)
(شیطان تمھیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرم ناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔)
اسی بنا پر اہل ایمان کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ شیطان کی چالوں میں نہ پھنسیں اور اس کے نقش قدم پر چلنے سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :

وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۔ اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوٓءِ وَالْفَحْشَآءِ

(سورۃالبقرہ: 168,169)
(اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے۔)
(2) دوسری بات، کاؤنسلنگ کے دوران میں یہ سمجھانے کی ہے کہ انسان کے لیے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے۔ بڑی سے بڑی غلطی ہو جائے اور کوئی فحش کام سرزد ہو جائے، لیکن اگر انسان توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے اور وہ اس طرح پاک و صاف ہو جاتا ہے جیسے اس سے وہ گناہ سرزد ہی نہ ہوا ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ

( ابن ماجہ: 3446)
(گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو۔)
اس لیے اگر کسی کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس نے کسی غلط یا فحش کا ارتکاب کیا ہے تو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اس کا یہ رویّہ اور معمول بعد میں بھی جاری ہوگا، بلکہ امید رکھنی چاہیے کہ اس نے توبہ کر لی ہوگی اور پاکیزہ زندگی گزارنے لگا ہوگا۔
(3)تیسری بات یہ بھی سمجھانی چاہیے کہ کوئی دوسرا شخص چاہے جیسے کام کرے اس کا وبال ہمارے سر نہیں آئے گا۔ ہم سے مطلوب یہ ہے کہ ہم پاکیزہ زندگی گزاریں، اللہ تعالیٰ کی رضا کے کام انجام دیں اور ان کاموں سے بچیں جو اس کے غضب کو بھڑکاتے ہیں۔ قرآن مجید میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے:

يٰٓاَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُـمْ

 (سورۃ المائدہ: 105)
( اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو ،کسی دوسرے کی گم راہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا۔ اگر تم خود راہ راست پر ہو ۔)
(4)لڑکی کے سامنے خونی رشتوں کی اہمیت اور خاص طور سے والدین کے بارے میں اسلامی تعلیمات بیان کرنی چاہیے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے:

وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا

(سورۃالبقرہ: 83، سورۃالنساء: 36،سورۃالانعام: 151، سورۃالاسراء : 23)
( اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ۔)
والدین کیسے بھی ہوں، لیکن اولاد کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کا رویّہ اپنے والدین کے ساتھ ادب و احترام، تعظیم و تکریم اور محبت و الفت کا ہونا چاہیے۔
جس واقعے کے حوالے سے سوال دریافت کیا گیا ہے وہ والدین کو بھی متنبہّ کرتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اور انھیں دینی خطوط پر پروان چڑھانے کے بارے میں ہر وقت چوکنا رہیں۔ سوشل میڈیا نے برائیوں کے دروازے چوپٹ کھول دیے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو ان سے بچانے کی کوشش کریں اور خود بھی بچیں۔ نئی نسل بہت زیادہ حساس ہے۔ وہ بہت باریکی سے اپنے والدین کو دیکھتی اور ان کے کاموں پر نظر رکھتی ہے۔ اس لیے ان سے کوئی ایسی ناشائستہ حرکت سرزد نہ ہو ،جو ان کی اولاد کو ان سے دور کر دے اور ان کے دلوں میں ان کے بارے میں نفرت پیدا کر دے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے