’’اخلاق‘‘ عربی زبان کے لفظ’’ خلق‘‘ سے مل کر بنا ہے۔ خَلَقَ کامعنیٰ ہے عدم سے وجود میں لانا۔اور خلُقَ کا معنیٰ عادت اور ظاہری شکل صورت ہے، پراناہونا یا بوسیدہ ہونا۔ اسی طرح عادات ایک چیز کو بار بار کرنے سے بنتی ہے ،جب وہ چیزیں ہمارے اندر راسخ ہو جاتی ہیں، ہم سے بے اختیار ہو جا یا کرتی ہیں،ہماری سوچ ہماری ذات کا حصّہ بن جاتی ہے، اخلاق کہلاتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں انسان کی وہ عادات اور انسان کا وہ مزاج جو مسلسل ایک کام کے بعد پختہ ہو جا تا ہے، اخلاق کہلاتا ہے۔خلق،اندر کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جس کے مطابق ہمارے اعمال ہوتے ہیں،یعنی ہمارے رویے ہمارے اندرکی کیفیت کے تابع ہوتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص خوب صورتی پسند کرتا ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ملے جسے خوب صورتی پسند نہیں۔ خواہ وہ خوب صورتی کسی کی صورت میں ہو، پھولوں میں ہو یا کائنات میں ہو، جو اسے پسند آتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں ہر کوئی اپنی شکل و سیرت یا اپنی ذات کے لیے بہت محتاط رہتا ہے اور وہ اس کو سجانے سنوارنے کی فکر میں لگا رہتا ہے ،اور اس کے لیے مال بھی خرچ کرتا ہے، چوں کہ ظاہری شکل و صورت سبھی کو نظر آتی ہے، اس لیے ہم اس کی صفائی کا بھی خیال رکھتے ہیں اور صرف صفائی ہی نہیں کرتےبلکہ میک اپ بھی لگاتے ہیں اور پھرصاف ستھر ا لباس نہیں بلکہ پریس کیا ہوا لباس بھی پہنتے ہیں، اور ساتھ میں میچنگ ،ان سبھی چیزوں پرہماری توجّہ مرکوزرہتی ہے، لیکن یہ یاد رکھیں کہ کوئی بھی انسان محض ظاہری شکل و صورت سے خوب صورت نہیں بنا کرتا ہے،ظاہری شکل و صورت دوسروں کے لیے کشش کا باعث بن سکتی ہے لیکن انسا ن کی اصل خوب صور تی انسا ن کی اچھی عادات میں ہے،اس کے اخلاق میں ہے، اس کے معاملات میں ہے، اس کے رویےمیں ہے، اس کے اس طرزِ عمل میں ہے جو انسان دوسروں کے ساتھ اختیار کرتا ہے اور یہ چیزیں ایک دن میں نہیں بنتیں۔
گویا اخلاقی محاسن بننے کے لیے صرف مصنوعی،ظاہری اور وقتی کوششیں فائدہ نہیں دیں گی، جب تک کہ ہمار ا اند ر نہیں سنورتا، جب تک یہ چیزیں ہمارے اندر راسخ نہیں ہوتیں، جب تک ہمارے اندر ان کی بنیاد نہیں بنتی اور جب تک ہم ان کو بار بارنہیں کرتے۔ خلق کو امام غزالی نے فرمایا:
’’خلُق اندر کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس کے مطابق ہمارے اعمال ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنانے کے ساتھ ساتھ انسان کو حق اور باطل کا فرق بتانے والی کتاب عطا کی اور انسان کو صحیح اور غلط کی تمیز دی، اور اس کو زمین میں اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ مسخر کر دیا۔ اس کو یہ آزادی دی کی وہ چاہے تو اس آزادی کا استعمال شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر کرے اور سماج اور معاشرے میں امن و سکون کو قائم کرے،یا پھر بے لگام آزادی کی روش اختیار کرکے انسانی معاشرےکو نقصان پہنچائے۔ جس کا نقصان سماج اور معاشرہ کے ساتھ ساتھ اس کی ذات کو بھی ہوتا ہے۔
آج کے اس دور میں جہاں فحاشی اور عریانیت بڑھتی جار ہی ہے، بے پردگی عام ہو رہی ہے، وہیں انسان محفوظ نہیں ہے۔ اسلام نےعورت کو کسی بھی فیلڈ میں جانے سے منع نہیں کیا،عورت ہر فیلڈ میں جا سکتی ہے، بس اس کاطرزاسلامی ہونا ہو چاہیے، اس کی گفتار، اس کا کردار، اس کا حلیہ ،اس کاکلچر اسلامی ہونا چاہیے۔ہمیشہ اس کی نگاہیں حدود الٰہی میں رہنی چاہئیں، جہا ں اللہ تعالیٰ سورۂ نور میں عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے وہیں سب سے پہلے مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔
’’اے نبی!مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچائیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘ (سورہ: 24،آیت: 30)
’’اے نبی! مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچائیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ خود ظاہر ہوجائے۔‘‘(سورہ: 24،آیت: 31)
ماڈرن کلچر اور رہن سہن لوگوں پر حاوی ہو رہا ہے۔ ہر انسان آزادی آزادی چیخ رہا ہے۔ عورتوں کو پردے سے آزادی، مردوں کو کمانے کی آزادی، بچوں کو اپنی مرضی کی آزادی،جیسے جیسے ماڈرن کلچر، ماڈرن پڑھائی اور رہن سہن لوگوں پر حاوی ہو رہا ہے، ویسے ویسے ہر انسان نفس پرستی میں مبتلا ہوتا چلا جا رہا ہے،جس سے انسانی معاشرےمیں جرائم اور گناہ بڑھتے جا رہے ہیں، انسان ذہنی امراض کامریض بنتا جا رہا ہے، اپنی خواہشوں کے پیچھے بھاگ رہا ہے، جس کے نتیجے میں لوگ نشے کی لت کا شکار ہورہے ہیں۔ نشے کی لت،فحش ویب سائٹس اور ایپس انسانوں کو ذہنی امراض کا شکار بنا رہے ہیں، جس کی وجہ سے خودکشی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ دنیا میں ہر سال آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرلیتے ہیں۔یہ لوگ خدا پرستی سے دور ہوکر نفس کی غلامی میں گرفتار ہوکر سماج اور معاشرے میں خرابی کا سبب بنتے ہیں۔
بے لگام آزادی سے انسان اپنے فائدے کے لیےدوسروں کو نقصان پہنچارہا ہے، جس سے معاشرے میں زیادہ تر انسان بے امنی، بے چینی اور ذہنی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ وہیں لوگ سوشل میڈیا کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں،جو شیطان کے بچھائے ہوئے ہیں۔WhatsAppاور Facebook نے انسانوں کے اندر جو ذہنی بدتمیزی کے جال بچھائے ہیں اس کے نقصان سے اللہ ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو،اس کی پیروی کوئی کرےگاتو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دےگا۔‘‘
(سورہ: 24،آیت: 21)
اگر آج سے اس پر غور نہ کیاجائے ،اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیےمعاشرے کو بیدار نہ کیا جائے تو اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑےگا،اس کے لیے سماج کے ہر فرد کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سماج کے ہر فرد کو اپنی زندگی قرآن اور سنت کی روشنی میں گزارنے کا عہد کرنا چاہیے اور یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے،آپﷺ کواپنی زندگی کا رول ماڈل بناناچاہیے۔
اچھا اخلاق ہماری زندگی کا ایک قیمتی سرمایہ ہے، جس سے ہماری زندگی ایک مثالی نمونہ بن سکتی ہے۔ اسی طرح اچھے اخلاق والے انسانوں سے ہمارا سماج ایک مثالی سماج بن سکتا ہے۔ اگر انسان میں اخلاق ختم ہو جائے تو اس میں اورجانور میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ حسنِ اخلاق کا دوسرا نام انسانیت ہے۔ قوم یا معاشرے کی بنیاد اسی جذبے پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اور سماج خوش اخلاقی جیسی صفت نہیں اپناتی ،اس کی بنیادیں کھوکھلی اور نا پائیدار ہو جاتی ہیں۔ حسنِ اخلاق خندہ پیشانی اور اچھے برتاؤ کی کیفیت ہوتی ہے۔
رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:
’’قیامت کے روز میرے سب سے زیادہ نزدیک وہ ہوگا جس کا اخلاق اچھا ہے۔‘‘
اخلاقی محاسن میں بلند انسان ہمیشہ دوسروں کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ پیش آتا ہے ،جس طرح پھول خوشبو کے بغیر پھول کہلانے کا حق دار نہیں اسی طرح انسان اخلاق کے بغیر نا مکمل ہے۔ خوش اخلاقی انسان کی فطرت میں ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے۔ عاجزی اور انکساری پیدا کرتی ہے اور معاشرے میں پھیلی برائیوں کا خاتمہ کرنے میں مدد کرتی ہے،منفی رویوں کا اثر زائل کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت مند معاشرہ کی تعمیر میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ انسان کے نیک اعمال میں انسانیت اورخوش اخلاقی سے تعلق رکھنے والے افعال سب سے زیادہ خوش گوار ہوتے ہیں۔ اخلاق کے بغیر انسان ایک بے جان جسم کے مانند ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’(بروزقیامت) مومن کے اعمال میں سے جو چیز میزان میں سب سے زیادہ بھاری ہو گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔‘‘
آزادی کی ضمانت انسان کو تبھی مل سکتی ہے جب معاشرے کا ہر انسان اپنے اندر چھپے ہوئے جوہر کو نکھارے۔اپنے اندر رحم دلی، ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرے۔ آج سے بلکہ ابھی سے ہمیں ہمارے معاشرے کے سدھار کے لیےآگے آنا ہوگا،ایک صحت مند معاشرہ بنانے کی پہل کرنی ہوگی اور اپنی آنے والی نسلوںمیں اخلاقی محاسن پیدا کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔
٭ ٭ ٭
0 Comments