موضوع بہت حساس ہے اور بہت اہم بھی، شاید یہ موضوع سرد خانے میں رہتا یا مستقبل میں اس پر کبھی لکھا جاتا، اگر اسی ماہ میں بدلا پور کی معصوم لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ نہ ہوتا ، یہ کوئی خاص بات نہیں تھی۔ انڈیا کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر 15 منٹ میں ایک بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔یہ اعداد و شمار انڈیا کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو نے جاری کیے ہیں۔ اس ڈیٹا کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔2017 ءمیں دس سال کی بچی کے ساتھ چائیلڈ ہوڈ پرگننسی سے جھوجھ رہی اس بچی کو ٹرمینیشن کی بھی اجازت نہیں تھی، اس واقعے نے پورے انڈیا کو دہشت میں ڈال دیا تھا۔
انڈیا کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سال2016 ءمیں جرائم کے اعداد و شمار کی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم کے تقریباً ایک لاکھ سات ہزار واقعات پیش آئے۔ان واقعات میں 36 ہزار واقعات بچوں کے ساتھ جنسی جرائم سے متعلق ہیں۔بی بی سی کی گیتا پانڈے نے بتایا کہ دنیا بھر میں بچوں کے خلاف جنسی زیادتی سمیت سب سے زیادہ جرائم انڈیا میں ہوتے ہیں۔
انڈیا کی وزارت برائے خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کی 2007 ءکی رپورٹ کے مطابق سروے میں حصہ لینے والے 53 فی صدبچوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔
اسی ماہ ستمبر میں بدلاپور میں جنسی زیادتی کا یہ واقعہ سامنے ہے،تین اور چار سال کی دو بچیوں نے یہ کہہ کر اسکول جانے سے انکار کر دیا کہ وہ خوف زدہ ہیں۔ 12 اگست کو کنڈرگارٹن کی دونوں طالبات نے اپنے والدین سے اپنے اسکول میں موجود صفائی اسٹاف کے بارے میں شکایت کی۔والدین بچیوں کو ایک مقامی ڈاکٹر کے پاس لے گئے، جنھوں نے ایک لڑکی کے پرائیویٹ حصے میں زخموں کی تصدیق کی۔اس کے بعد 16 اگست کو والدین اسکول گئے، وہاں تین گھنٹے انتظار کرنے کے بعد پولیس پہنچی اور لڑکیوں سے بیان لینے کی کوشش کی،تاہم کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔والدین نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کی اپیل کے 12 گھنٹے بعد ایف آئی آر درج کی۔ ذرائع کے مطابق پولیس کو یہ بھی پتہ چلا کہ اسکول میں نصب سی سی ٹی وی کام نہیں کر رہا۔ جب کہ بچوں کی جنسی زیادتی پر بنائے گئے قانون کے بعد ان کے تحفظ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اسکول انتظامیہ کو سی سی ٹی وی کیمرے کی درستگی وفعالیت یقینی بنانا چاہیے ، اور پولس کو رپورٹ درج بھی کرلینی چاہیے تھی۔
2007 ءکی کرائم رپورٹ کے مطابق انڈیا میں 53فی صدبچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں ۔ یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جس میں بچوں نے شکایت کی ہے، تاہم ان واقعات کے اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیںجن میں لاکھوں بچے خصوصاً لڑکے، بچپن میں جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں اور وہ کسی سے کہہ بھی نہیں پاتے۔ عامر خان نے اپنے شو’’ستیہ میوجیتے ‘‘ میں 2017 ءمیں ایسے مظلوموں کو پیش کیا، جنھیں گھر کے ہی افراد نے سات سال کی عمر سے لے کر سترہ سال تک زیادتی کا شکار بنایا۔ ان ہی اعداد و شمار کے پیش نظر حکومت نے بچوں کے تحفظ کے لیےقانون وضع کیا۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی انڈیا کے سنگین مسائل میں سے ایک ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں بچوں میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچے اکثر کسی نہ کسی طریقے سے مجرم کو جانتے ہیں، اس لیے بچوں کے جنسی استحصال کے مسئلے کو چھپانے سے زیادہ سخت سزاؤں کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انگزیزی اور ہندی زبان میں اس پر بہت لکھا گیا ،بیداری لانے کی کوشش کی گئی ہے، اردو طبقے میں محض خبروں کےذریعہ بیداری پر اکتفاءکرنےکے بہ جائے سوشل ایکٹویسٹس کے ذریعہ بچوں کو استحصال برداشت نہ کرنے اور شکار بننے سے بچنے کےلیےاحتیاطی تدابیر سکھلانےکی بھی اشد ضرورت ہے ۔ بچوں کے جنسی جرائم سے تحفظ (POCSO) ایکٹ، 2017 ءمیں بچوں کے جنسی استحصال کے گھناؤنے جرائم کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ،2018 ءکے نفاذ کے ذریعے قانونی دفعات کی گئی تھیں جس نے تعزیرات ہند، ضابطہ فوجداری، 1973ء، ہندوستانی ثبوت ایکٹ، 1972ء، اور جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے ایکٹ، 2012 ءمیں ترمیم کی تھی۔ یہ فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ 2013ء، اس میں جن باتوں کو جرم گردانا گیا ان میں بچے کا پیچھا کرنا ، نظروں سے تاڑنا ، کپڑے اتارنا،غلط جگہ چھونا ، اسمگلنگ اور تیزاب کے ذریعہ حملہ کرنا شامل ہیں،ان جرائم کے ارتکاب پر سزا کا بھی حکم ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی بھارت میں ایک کم رپورٹ شدہ جرم ہے، جو وبائی حد تک پہنچ چکا ہے۔ کیرالہ میں نوعمروں کے درمیان جنسی استحصال اتنا بڑھ چکا ہے کہ ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 36 فی صد لڑکے اور 35 فی صد لڑکیوں کو کسی نہ کسی وقت جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جنسی استحصال کے بوجھ کا اندازہ لگانے کے لیے حکومت ہند کی طرف سے2017 ءمیں بچوں اور نوعمروں میں کی گئی اسی طرح کی ایک تحقیق میں چونکا دینے والے نتائج سامنے آئے اور یہ پتہ لگاکہ ملک میں ہر دوسرا بچہ جنسی زیادتی کا شکار تھا۔ ان میں 52.94 فی صد لڑکے اور 47.06 فی صد لڑکیاں تھیں۔ سب سے زیادہ جنسی استحصال کے واقعات آسام (57.27%) میں رپورٹ کیے گئے اس کے بعداس فہرست میں دہلی (41%)، آندھرا پردیش (33.87%) اور بہار (33.27%) شامل ہیں۔
بچوں میں احتیاط کے تئیں بیداری
(1) بچوں کویہ بات کھل کر سمجھائی جائے کہ کسی اجنبی سے کھانے کی کوئی چیز نہ لیں۔ (2)والدین بچوں کو سمجھائیں کہ کسی بھی بڑے کو سوائے والدہ کے کسی حساس حصے کو چھونے دیں۔ (3) بس یا اسکول رکشہ یا وین میں فاصلہ رکھ کر بیٹھیں۔ (4) کسی ایسی جگہ نہ جائیں جہاں کوئی آپ کی پہچان کا نہ ہو ۔ (5)اگر آپ کوکوئی بیڈ طریقے سے ہاتھ لگارہا ہوتو مدد کے لیے کسی کو بلائیں ۔ (6)اسکول میں کسی بھی ٹیچر یا نان ٹیچنگ اسٹاف کے قریب نہ جائیں، فاصلہ رکھ کر بات کریں، اگر کوئی قریب آکر غلط بات کہتا ہوتو والدین کو آکر ضرور بتائیں ۔ (7) خدانخواستہ کوئی بچہ جنسی تشدد کا شکار بنادیا گیا ہوتو پاکسو ایکٹ میں مجرم پر کارروائی کرنے اور میڈیکل چیک اپ کے بھی احکامات ڈاکٹر کے لیے علیٰحدہ جاری کیے گئے ہیں۔
جنسی جرائم کی وجوہات
بچوں کو جنسی جرائم کا شکار کرنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ (1) یہ ایک بیماری ہے جو پورن گرافی ویڈیو دیکھنے کی عادی شخص میں بھی ہوسکتی ہے، یہ ایڈکشن ایک صحت مند انسان کو ذہنی مریض بنادیتا ہے اور وہ اچھائی برائی کی تمیز کھودیتا ہے ۔ (2) دوسری وجہ نشہ بھی ہوسکتی ہے۔ نشے کا استعمال انسان کے ہوش و حواس کو گم کردیتا ہے اور وہ تمیز کھودیتا ہے، حتیٰ کہ گھروں میں بعض لڑکیاں اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے تشدد کا شکار بن جاتی ہیں ۔ (3) کچھ نفسیاتی امراض جب رفتہ رفتہ ذہنی بیماری کا سبب بن جائیں تو سیلف ہارم (خود اذیتی)اور دوسروں کو اذیت دینے کے لیے بھی یہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ (4) بعض جنسی ابتلاء سے گزرے ہوئے افراد بڑے ہو کر سماج کو وہی لوٹاتے ہیں جو دانستہ اور نادانستہ سماج نے انھیں دیا ہے ۔ (5) بعض مجرم کسی بدلے کا شکار ہوکر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد پر اتر آتے ہیں ۔ دراصل جنسی تشدد چاہے وہ بچوں کے ساتھ کیا جائے خواتین یا کسی کے بھی ساتھ؛یہ ایک قسم کی درندگی اور کھلی حیوانیت ہے ،تاہم اس سلسلے میں سد باب اور تحفظ کےلیےوالدین کے ذمہ بچوں میں بیداری لانا، انھیںسیلف ڈیفنس سکھانا ، کسی مبتلا بچے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا -چاہے اس کی زد کسی قریبی پر کیوں نہ پڑتی ہو-ہے،ساتھ ہی سب سے اہم ہے نشہ اور پورن سائٹس پر پابندی لگانے کی جانب حکومت کو متوجہ کرنا ۔کرائم کو کرائم جان کر پورے شعور کے ساتھ اس کی روک تھام کرنی چاہیے۔اسکول یا پبلک پیلیس کےلیے انتظامیہ کوایک در خواست لازماً دی جائے کہ ان مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرکے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ بھی بچوں کےتحفظ کے لیے لازم ہے کہ نان ٹیچنگ اور ٹیچنگ اسٹاف کو چیک کیا جائے کہ وہ نشے کے عادی تو نہیں ہیں؟ ان کے کیرکٹر سرٹیفکیٹ کی جانچ اور معائنےکے ساتھ ساتھ ان کے موبائل کو ورک پیلیس سے دور رکھاجائے۔ بدلاپور اور کولکاتہ ،دونوں جگہ کیس میں صفائی ملازم اور چوکیدار شامل تھے، اس لیے لازم ہےکہ ادارے سے منسلک عملے کی شرافت کے تیقن اور ان پر اعتماد کے بعد ہی رکھاجائے۔ پاکسو قانون میں بھی کچھ کم زوریاں ہیں جو قانونی چارہ جوئی کو مشکل بناتی ہیں، اس پر بھی ماہرین کو توجہ دینی چاہیے۔
٭ ٭ ٭
ان باتوں کی آگہی ہر ماں پر لازم ہے.. آج بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی حفاظت بڑا اور سب سے اہم چیلنج ہے…. بہترین رہنمائی کی آپ نے اس آرٹیکل میں……